رسم و رواج کے بندھن اور اسلام

دین سے مسلمانوں کی اکثریت کی ناواقفیت کا حال انتہائی افسوسناک حد تک ہے۔ جو لوگ رسموں اور رواجوں کے بندھن میں پھنسے ہوئے ہیں وہ کسی حال میں دین کی باتیں نہ سیکھنا چاہتے ہیں اور نہ دین کے مطابق چلنا چاہتے ہیں ۔ ایسے مردوں کو جو دین سے عدم دلچسپی رکھتے ہیں انھیں عورتیں ماں بہن کی حیثیت سے رہنمائی کرتی ہیں ۔ وہ عورتوں کے دکھائے ہوئے راستے ہی پر  چلنے میں عافیت سمجھتے ہیں۔

 آج اچھے خاصے لوگ رسموں کے بندھنوں میں گرفتار ہیں۔ وہ ان بندھنوں کو توڑنا اپنے لئے مضر اور نقصان دہ سمجھتے ہیں۔ شادی بیاہ کے مواقع ہوں یا کوئی اور موقع ہو ان کے سامنے دوسروں کا نقش قدم اس قدر اجاگر اور پرکشش ہوتا ہے کہ اسی کی پیروی کرتے ہیں۔ عالم یا اپنے سے زیادہ جانکار سے اپنے رواجی علم سے زیادہ جاننے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ اگر کوئی بھلا آدمی ان کو علم دین سے آشنا کرتا ہے تو وہ سن تو ضرور لیتے ہیں مگر کرتے وہی ہیں جو ان کے گھر کی عورتیں انھیں بتاتی ہیں ۔ ان کی پوری کی پوری نسل دین سے نابلد رہتی ہے۔ نسلاً بعد نسلاً سب اسی رسم و رواج کو گلے لگائے رہتے ہیں ۔ خواہ وہ دین و شریعت سے کتنا ہی خلاف ہو۔

دین کا راستہ سہل ہوتا ہے اور اللہ کی طرف لے جاتا ہے۔ شیطان سے بچاتا ہے رسموں کے حامی اس راستہ پر قدم رکھنا نہیں چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کے جو لوگ قریب ہوتے ہیں انھیں بتانے کی اگر کوشش کرتے ہیں تو وہ لوگ ان سنی کردیتے ہیں ۔ بری سے بری رسمیں خوشحال طبقے میں سرایت کرچکی اسے متوسط طبقہ نقل کرتا ہے پھر غریب طبقہ متوسط طبقہ کی پیروی کرنے لگتا ہے۔ شادی بیان میں مہدی کی رسم، ہلدی کی رسم کے علاوہ بھی کئی ایسی رسمیں ہوتی ہیں جو دین کی روح نکال لیتی ہیں مگر خوشی اور مسرت ماننے کا ان کے پاس جانا سنا راستہ یہی ہوتا ہے۔ ان رسموں کی پابند عورتیں اور مرد مخلوط سوسائٹی کو جنم دیتے ہیں جو بے حیائی کا آئینہ ہوتا ہے۔ باپ، بھائی اور رشتہ دار سب ایسی عورت کے پیچھے پیچھے بھاگتے ہیں جو رسموں کی عالمہ ہوتی ہے۔ وہ ایک ایک چیز بتاتی ہے اور سب کو پسند آتا ہے اور سب اسی پر چلنے کیلئے تیار ہوتے ہیں ۔

 جو لوگ دینی جماعتوں سے وابستہ ہوتے ہیں ۔ ان میں بھی کچھ ایسے لوگ ہوتے ہیں جو رسموں کے سیلاب میں بہہ جاتے ہیں ۔ مسلمانوں میں جو بری اور شریعت شکن رسمیں ہیں ان سے بچانے یا مسلمانوں کو دور رکھنے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ لوگ جو دین سے اچھی طرح سے وابستہ ہیں اور ہر حال میں دین کے راستہ پر ہی چلنا چاہتے ہیں ، چاہے کوئی خوش رہے یا ناراض ان کو آگے آنا ہوگا اور مثالی معاشرہ یا مثالی بستی بنانے کیلئے روز و شب جدوجہد کرنا ہوگا اور اپنے کردار و عمل سے ایسا نمونہ پیش کرنا ہوگا کہ معاشرہ میں چلتے پھرتے اسلام کا نمونہ نظر آنے لگے۔ جب ہی لوگ متوجہ ہوں گے اور پیروی کیلئے آمادہ ہوں گے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔