اُن سے کہنے کی چاہ تھی کچھ اور
افتخار راغبؔ
اُن سے کہنے کی چاہ تھی کچھ اور
کہہ دیا میں نے آج بھی کچھ اور
…
اور کچھ ہے زبان پر تیری
کہہ رہی ہے تری ہنسی کچھ اور
…
دل بناتا ہے اور منصوبہ
پیش کرتی ہے زندگی کچھ اور
…
اہلِ دانش کا فلسفہ ہے الگ
اہلِ دل کی ہے دل دہی کچھ اور
…
ملتفت اور اُس کی چشمِ وفا
اب خودی اور بے خودی کچھ اور
…
چشمِ بینا کا نور اپنی جگہ
علم و حکمت کی روشنی کچھ اور
…
کچھ نہیں سننا مجھ کو اُن کے خلاف
مت کہو مجھ سے یا اخی کچھ اور
…
اور کر لوں میں نرم دل اپنا
سیکھ لو تم ستم گری کچھ اور
…
اُس کی سج دھج بھی ہے قیامت خیز
قہر ڈھاتی ہے سادگی کچھ اور
…
ایک وعدہ شکن مقابل ہے
ڈور پختہ ہو آس کی کچھ اور
…
جانے کس دن غزل سناؤں تجھے
جانے کب آئے پختگی کچھ اور
…
لذّتِ ہجر ملتمس راغبؔ
وصل ہو جائے ملتوی کچھ اور
تبصرے بند ہیں۔