آبِ حیات

توصیف حسین آہنگر

 اُردو میں ناول نگاری کا فن زیادہ قدیم نہیں ہے۔ صنعتی و سائنسی انقلاب کے نتیجے میں انسانی زندگی میں ایک غیر معمولی تغیر و تبدل رونما ہوا تواُس کے پاس ’’فرصت ‘‘ نام کی کوئی شے نہ رہی۔طرزِ معاشرت، سوچ، فکر اور تمدن کے ساتھ ساتھ انسان کی ادب کے تئیں دلچسپی میں بھی تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ انسان کی توجہ لمبی لمبی داستانوں سے ہٹ کر ناول کی جانب مبذول ہوئی۔ ناول کا موضوع داستانوں کے مقابلے میں انسان کی حقیقی زندگی سے زیادہ قریب تھا۔ اِسی ناول کی کوکھ سے انیسویں صدی کے اوائل میں مختصر افسانہ کی صنف نے جنم لیا جو کہ انسانی زندگی کے کسی خاص پہلوکا حقیقی پرتو تھا۔ افسانے کی اس نئی صنف کی دریافت کے ساتھ ساتھ ناول نگاری کے فن میں برابر طبع آزمائی ہوتی رہی اور آج بھی یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عمیرہ احمد اُردو ناول نگاری کے موجودہ منظرنامے کا ایک معتبر نام ہے۔پاکستان کے سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی یہ۴۲ سالہ خاتون ناول نگار اِس وقت آسمانِ ادب پر چھائی ہوئیں ہیں۔

  زیر تبصرہ کتاب ’’آب ِ حیات ‘‘ عمیرہ احمد کا مقبول ناول ہے جواُن کے ایک اور سابقہ ناول ’’ پیرِ کامل‘‘ کا دوسراحصّہ ہے۔’’پیر کامل‘‘ ایک قادیانی لڑکی ’امامہ ہاشم ‘کی کہانی ہے جو اپنے آبائی مذہب ’’قادیانیت‘‘ سے بغاوت کر کے مذہبِ اسلام قبول کرتی ہے۔ ’’پیر کامل ‘‘یعنی محمدؐ کی ذاتِ اقدس کے ساتھ امامہ کی بے پناہ اُنسیت کے نتیجے میں وہ اسلام کے قریب آتی ہے۔وہ ختمِ نبوت کی حقانیت جان کر قادیانیت سے بے زار ہو کر دایرۂ اسلام میں داخل ہوتی ہے۔لیکن اسلام قبول کر تے ہی اُسے آلام و مصائب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اپنے بھائی کے قریبی دوست اور پڑوسی ’سالار سکندر‘ کی مدد سے مجبوراً گھر سے راہِ فرار اختیار کر لیتی ہے۔ وہ اپنی ایک مسلمان سہیلی کے بھائی جلال انصر، جس کی نعت خوانی سے وہ متاثر ہوتی ہے، سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ لیکن عین وقت پر جلال اَنصر اُس سے نکاح کرنے سے انکار کرتا ہے اور یوں وہ بے سر و سامانی کی حالت میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہوتی ہے۔ دوسری جانب سالار کی غیر سنجیدہ طبیعت سے وہ مزید پریشانیوں میں مبتلا ہو تی ہے اور یوں یاس، حزن و ملال اُس کا مقدر بن جاتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر سبط علی اُس کی زندگی میں ایک مسیحا کے طور پر آتے ہیں، جو اُنھیں پناہ دینے کے ساتھ ساتھ اُن کی دینی تربیت بھی کرتے ہیں اور اُس سے اپنی حقیقی بیٹی جیسا برتائو کرتے ہیں۔ پیرکاملؐ کے آخر میں کہانی ایک اہم موڑ لیتی ہے۔ سالار کی زندگی میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں اور وہ اسلام کی جانب متوجہ ہوتا ہے۔ وہ قرآن پاک حفظ کر کے ڈاکٹر سبط علی کی شاگردی میں اسلام کو سمجھنے کی کوشش کرتا ہے۔ ناول کے آخر میں اتفاقی طور امامہ اور سالارکی شادی ہوتی ہے۔

  ’آب ِ حیات‘ امامہ اور سالار کے رشتہ ٔاز دواج کو دوام بخشنے کے اُن مدارج کا نام ہے جو ناول میں یکے بعد دیگرے بیان کیے گئے ہیں۔ کتاب کے ابتدائی ابواب امامہ اور سالارکے درمیان میچو ل انڈرسٹینڈنگ قائم کرنے کے لیے رقم کیے گئے ہیں جبکہ کتاب کے باقی ابواب میں دونوں میں پنپ رہی ایک کامیاب ازدواجی زندگی کا عکس دکھایا گیا ہے۔ لفظ ’’ آبِ حیات‘‘ کے حروف تہجی سے ہی کتاب کے عناوین متعین کیے گئے ہیں۔ چناچہ عمیرہ آبِ حیات کی وجۂ تسمیہ بیان کرکے کتاب کے پیش لفظ میں لکھتی ہیں :

         ’’لفظ آبِ حیات جن چھ حروف سے بنا ہے، ان میں ہر حرف انسانی زندگی کی ایک بنیادی اسٹیج کو بیان کرتا ہے:

  آ   :   آدم و حوا

   ب  :   بیت العنکبوت

 ح  :   حاصل و محصول

  ی  :   یا مجیب السائلین

  ا   :   ابدا ً ابدا

  ت  :  تبارک الّذی

  یہ چھ الفاظ پوری انسانی زندگی کا خلاصہ کرتے ہیں۔ ‘‘

  ’آبِ حیات‘ کا موضوع سالار اور امامہ کی ازدواجی زندگی کی عکاسی کے علاوہ سود سے پاک ایک اسلامی معاشی نظام کے قیام کے لیے کوششیں کرنا بھی ہے، جسے سالار سکندر’’سودی معاشی نظام‘‘ سے متنفر ہوکر قائم کرنے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ یہ خواہش سالار میں اُس وقت پنپنی شروع ہوتی ہے جب اپنے کیریر کے وسط میں امامہ اُسے سودی کاروبار کی حرمت سے متنبہ کر کے پیر کامل(محمدؐ) کے خطبہ حجت الوداع کا حوالہ یاد دلا تی ہے جس میں محمد ؐ نے سودکو حرام قرار دیا ہے۔ سالار کو عالمی سطح پرکئی ممالک میں اپنی صلاحیتوں کا لوہامنوانے کا موقع ملتا ہے اور اپنی غیر معمولی ذہانت کے بل بوتے پرترقی کے مختلف زینے طے کرتے ہوئے وہ ورلڈ بینک کی صدارت کے لیے اہل قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن سالار کا سود ی بینک کاری سے تائب ہو کر اسلامی مالیاتی نظام کی تشکیل کے لیے Summer Investment Fund (SIF) کے تحت اس پروجکیٹ پر کام شروع کر تا ہے۔ اپنی غیر معمولی ذہانت سے ورلڈ بینک میں بڑے عہدوں پر فائز ہونے والا سالار سکندر جب اسلامی معاشی نظام کا تصور پیش کرتا ہے تو ورلڈ بینک کے اہلکاروں کی جانب سے طرح طرح کی دھمکیاں ملتی ہیں اور ایک دفعہ تو سالار کی پوری فیملی کو اغوا کرکے اُسے ورلڈ بینک کی شرائط ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے۔بالفاظِ دیگر وہ ’’ اسلامی معاشی نظام‘‘ کا تصور پیش کر کے اپنے لیے مصیبتیں اورکٹھنائیاں مول لیتا ہے۔ ’’ سود سے پاک ایک اسلامی مالیاتی نظام ‘‘ قائم کرنے کے لیے سالار کی جدوجہد ہی اِس کتاب کا مرکزی عنوان ہے۔

 ’’آبِ حیات‘‘ میں عمیرہ نے امریکی اور افریقی( کانگو) معاشرتوں کی کامیاب عکاسی کی ہے۔جس سے اُن کی وسعت ِ فکر کا خوب مظاہرہ ہوتا ہے۔سالار کا امریکہ میں تعلیم حاصل کرنا اور پھر افریقہ میں ورلڈ بینک کا خصوصی نمائندہ بن کر خدمات انجام دینا، یہ دونوں چیزیں ان دو ممالک کے مزاج اور کلچر کو سمجھنے میں معاون و ممد ثابت ہوتی ہیں۔ عمیرہ نے ناول میں ایرک، جیمز اور کیرولین پر مشتمل ایک امریکی خاندان کے ذریعے بھی امریکی طرزِ معاشرت کی کامیاب عکاسی کی ہے۔کتاب کے آخری باب میں عمیرہ نے۲۰۳۰ء کے امریکہ کے متعلق پیشن گوئی کر تے ہوئے امریکہ کو بدترین مالی بحران کا شکارہوتا ہو املک  دکھایا ہے۔

  ’آبِ حیات‘ کی کہانی کو کمالِ فن سے بُنا گیا ہے۔امامہ اور سالار کے مرکزی کردار کے علاوہ افریقہ کے پیٹرس ایباکاؔ، کا کردار وضع کرنا، چُنی(رئیسہ ) کا سالار اور امامہ کی زندگی میں آنا، لاہور میں نہر کنارے ملنے والی بوڑھی خانہ بدوش عورت کا کردار، جو امامہ کو ڈپریشن سے نکلنے کا ایک ذریعہ بنتی ہے، جیسے کردار ناول کو دلچسپ اور مزے دار بناتے ہیں۔ ناول میں جبریل، عنایہ،حمین،  ایرک، رئیسہ( چُنی)، عائشہ عابدین نامی نو عمر بچوں کا کردار دکھا یا گیا ہے۔اگرچہ عمیرہ ان بچوں کی صلاحیتوں کے مظاہرے کے حوالے سے اکثر جگہوں پر مبالغہ کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ لیکن بچوں کے ان کر داروں سے ناول میں حُسن پیدا ہوتاہے اور یہ ایک فیملی ناول بن جاتا ہے۔ عمیرہ نے سالار کے پیشے یعنی Banking کو اس ہنر مندی سے پیش کیا ہے کہ گویا وہ (عمیرہ)خود ایک کامیاب Bankerہو۔ یہ ایک کامیاب ناول نگار کا خاصہ ہے کہ وہ جس موضوع پر بھی قلم اُٹھائے، اُسے کمال فن سے پیش کرتا ہے۔ ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

’’ ان کے سارے بڑے سرمایہ کار انہیں چھوڑ چُکے تھے….. جس کا مطلب یہ تھا کہ ان کا سترفی صد فائنانس ان کے پاس آنے سے بھی پہلے ختم ہو گیا تھا، تیس فی صد فائنانس وہ تھا جو بورڈ آف ڈائریکٹر کی اپنی کنٹری بیوشن تھی اور وہ سارا ان انویسٹرز کی شکل میں موجود تھا جو وہ ان پانچ سالوں میں اپنے ادارے کے لیے دنیا کے مختلف حصوں میں کرنے آئے تھے …..ان کے پاس رننگ کیپٹل بہت کم تھا…وہ کیپٹل جس کی بنیادپرانھوں نے بین الاقوامی طورپراس ادارے کاآغازکرناتھا…..ایک بڑے سرمایہ کار کے معاہدہ کر کے بھاگ جانے کا مطلب تھا کہ ہزاروں دوسرے پوٹینشل انویسٹر آپ کو اپنے ریڈ زون میں رکھ دیں …..جانے والا بڑا انویسٹرز کئی ممکنہ آنے والے انویسٹرز کو بھی پہلے ہی غائب کر دیتا ہے، پانچ سال میں دن رات کی جانے والی محنت چند ہفتوں میں دھوئیں کی طرح اُڑ گئی تھی۔‘‘ (صفحہ،۲۵۶)

  سالار کے مرض(ٹیومر) کی تشخیص کے بعد ناول میں ایک غیر معمولی صورتحال پیدا ہو تی ہے۔قارئین متجسس ہوتے ہیں اورسالار سکندر کے ساتھ ایک فطری ہمدردی قائم ہو جاتی ہے۔ناول میں غلام فریدنامی ایک غریب شخص کا ضمنی کردار بھی پیش کیا گیا ہے۔ غلام فرید سالار کے اسکول میں چپراسی کی ملازمت کرتا ہے۔ غربت کے سبب بینک سے قرضہ لیا ہوا ہوتا ہے، لیکن سود کی مسلسل ادائیگی کی وجہ سے اُس کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ وہ ذہنی پسماندگی کا شکار ہو کر رفتہ رفتہ اپنی ساری اولادوں کا قتل کرتا ہے۔ چُنی(رئیسہ)جو کہ اُس کی آخری اولاد ہوتی ہے، اتفاقی طور پر بچ جاتی ہے، جسے بعد میں سالار اور امامہ اُس کی حالتِ زار پر رحم کھا کراپنی منہ بولی بیٹی کے طور پرقبول کرتے ہیں۔ غلام فرید کواپنی اولادوں کے قتل کے سبب جیل بھیج دیا جاتا ہے۔ لیکن ناول کے آخرمیں وہ سالار کے’’ اسلامی معاشی نظام‘‘ کے پرو جیکٹ کے خلاف امریکی سراگ رساں ایجنسیCIA کے لیے مخبری کرتا ہے اور چُنی کے حوالے سے سالار پر گھنائونے الزامات لگاتا ہے۔

  ناول میں عمیرہ احمد کا طرزِ اسلوب بہت دلچسپ اور مؤثر ہے۔ پڑھ کر قاری حَظ اُٹھائے ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ ایک نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

   ’’ ہم کہیں مل سکتے ہیں ؟‘‘ اسکرین چمکی۔

 ’’ کہاں ؟‘‘ تحریر اُبھری۔

 ’’ جہاں بھی تمہیں آسانی ہو، میں آجائوں گا۔‘‘ جواب آیا

 ’’ اچھا سوچتی ہوں ‘‘ لفظوں نے کہا۔

 ’’ کب تک بتائو گی؟‘‘ اشتیاق سے پوچھا گیا۔

  ’’ کچھ دنوں تک‘‘ تامل سے کہا گیا۔

          ’’ میں انتظار کروں گا‘‘ وعدے کی طرح دہرایا گیا۔

  ’’ جانتی ہوں ‘‘ یقین دلایا گیا۔ (صفحہ،۶۱۷)

  ناول کی ایک اور خصوصی بات یہ ہے کہ عمیرہ نے انٹرنیٹ، گوگل، ای میل،ویڈیو کال، فیس بُک، سمارٹ فون وغیرہ جیسی جدید چیزوں کاناول میں کثرت سے استعمال کرکے اِسے ہمارے زندگی سے relate کر دیا ہے۔ناول کا اختتام سالاراور اِس کے بیٹے حمین سکندر کے مابین ہونے والی گلوبل میٹنگ کے ساتھ ہوتا ہے جس میں دونوں باپ بیٹے دنیا کے سامنے ’’ اسلامی معاشی نظام‘‘ کا تصور پیش کرتے ہیں۔ اگر چہ CIA اس میٹنگ کو ناکام بنانے کے لیے مختلف حربے آزماتی ہے۔ لیکن بالآخر سالار اور حمین دنیا کے سامنے’’ اسلامی معاشی ماڈل‘‘ کا تصور پیش کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ اس موقع پر حمین سکندر ایک مؤثر تقریر بھی کرتا ہے۔حمین کی تقریر کا ایک ٹکڑا ملاحظہ فرمائیں :

 ’’ کئی سال پہلے ایس آئی ایف نے سود کے خلاف اپنی پہلی جدوجہد افریقہ سے شروع کی تھی، یہ وہ زمین تھی جس پر میرے باپ نے ایک سودی نظام کے آلۂ کار کے طور پر کام کرتے ہوئے سود کے خلاف کام کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سود کو جسے آخری خطبے میں نبی آخر الزماں ؐ نے حرام قرار دیا تھا اور اس آخری خطبے میں یہ صرف سود نہیں تھا جس کے خاتمے کا فیصلہ کیا گیاتھا، یہ مساوات بھی تھی جس کا حکم دیا گیا تھا۔ انسانوں کو ان کے رنگ، نسل، خاندانی نام و نسب کے بجائے صرف ان کے تقویٰ اور پارسائی پر جانچنے کا۔ ایس آئی ایف اور ٹی اے آئی نے آج اسی مشن کو آگے بڑھانے کے لیے دنیا کے سب سے بڑے گلوبل فنڈ کا قیام عمل میں لایا ہے۔‘‘       (صفحہ،۷۲۲)

اگرچہ اپنے موضوع اور اسلوب کے اعتبار سے یہ ناول کئی خصوصیات کی حامل ہے۔ لیکن ناول کے ابتدائی دو ابواب میں امامہ کے اسلامی کریکٹر میں کچھ مشکوکیت پیدا ہو جاتی ہے۔ پیر کاملؐ کی ذاتِ اقدس سے انسیت کی بناء پراپنے گھر کو خیر باد کہنے والی امامہ ہاشم کا’’ رومانوی ناولز‘‘ میں دلچسپی لیناامامہ کے اسلامی تشخص پر سوال پیدا کرتا ہے۔

  پاکستان میں عمیرہ کو اسلامی موضوعات پر لکھنے والی والی مصنفہ کے طور پر جانا جا تا ہے۔عمیرہ کا اندازِبیان پاکستان کی ایک اور مقبول ناول نگار نمرہ احمد سے ملتا جلتا ہے۔ بلکہ اکثر لوگ عمیرہ احمد اور نمرہ احمد کے ناموں کے حوالے سے کنفیوژن کا شکار ہوتے ہیں کہ شاید یہ دونوں سگی بہنیں ہیں جبکہ ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ ناول میں پروف ریڈینگ کے حوالے سے خصوصی احتیاط برتا گیاہے،چند جزوی غلطیوں کے علاوہ ناول پروف کی غلطیوں سے پاک ہے۔ ورنہ اکثر کتابوں میں پروف کی غلطیوں کا انبار ہوتا ہے جس سے یقینا کتاب کے معیار میں گراوٹ آتی ہے۔

کتاب کا نام: آبِ حیات (ناول)، مصنفہ: عمیر ہ احمد، ناشر:فیروز سنز پرائیویٹ لمیٹڈلاہور، پاکستان، قیمت:995 (پاکستانی روپیے)، مبصر:توصیف حسین آہنگر(شعبۂ اُردو، کشمیر یونیورسٹی، سرینگر)

تبصرے بند ہیں۔