آج پھر اک سخت امتحاں درپیش ہے!

وصیل خان

اب بھی وقت ہے ہمیں ان تمام برے افعال سے توبہ کرلینی چاہیئے جس سے روئے زمین پر بسنے والے افرادتکلیف میں مبتلا ہوں اور ان کی زندگی اجیرن ہوجائے۔ انسانیت کی معراج یہ ہے کہ ہمارا وجود انسانوں کیلئے سراپا رحمت بنے نہ کہ زحمت۔ جہاں تک ہوسکے ان سے رحم کا معاملہ کیاجائے اور ان کے دکھ درد میں شامل ہوکران کے دکھوں کا مداواکیا جائے کیونکہ یہی انسانیت کا تقاضا ہے اور اسی پر چل پر ہم دنیا کو گہوارہ ٔ امن بناسکتے ہیں اس کے برعکس کوئی اور راستہ نہیں ہے جو اس انسانی امن مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچاسکے۔

 ہندوستان کی یہ قدیم فخریہ روایت رہی ہے کہ یہاں بلا تفریق ذات و مذہب لوگوں نے ایک دوسرے کیلئے اپنی محبتیں اور خوشیاں نچھاور کی ہیں۔ اس کا مشاہدہ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد آج بھی ہمارے چاروں طرف موجود ہے۔ گزشتہ دنوں کیرالا میں آئے بھیانک طوفانی سیلاب نے وہاں کے لوگوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ،سیکڑوں جانیں تلف ہوئیں اور ہزاروں لوگ زخمی اور بے گھر ہوگئے۔ ملک بھر سے امدادی ٹیمیں متاثرین کو اشیائے خوردونوش کے ساتھ وہ ساری چیزیں بہم پہنچارہی ہیں جس کی انہیں ضرورت تھی یہ امدادی کام ابھی بھی جاری ہے۔

 حیرت ہے کہ ملک میں ایک ایسا طبقہ بھی موجود ہے جسے مصیبت کی اس گھڑی میں بھی انسانوں کی کراہ اور چیخ پکارنہیں سنائی دیتی ،اس کےبرعکس وہ انتہائی دل خراش اور غیر انسانی  باتیں کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ سیلاب نہیں قدرتی قہر ہے جو وہاں کے لوگوں کو سبق سکھانے کیلئے آیا ہے کہ وہ گائے کا گوشت نہ کھائیں اور نہ  بیف فیسٹیول کی تقریب منعقدکریں یہ سب ان کے کرموں کا نتیجہ ہے جس نے بھگوان کو غضبناک کردیااور سیلاب و طوفان کا قہر ان پر ٹوٹ پڑا اور تباہی و بربادی ان کا مقدر بن گئی۔ آخرگوا اور مغربی بنگال میں یہ قہر کیوں نہیں ٹوٹا اور وہاں کھلے عام بیف کھانے والے کیوں محفوظ ہیں۔ سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ پھر اترا کھنڈ جیسی ریاست کیوں مسلسل قدرتی آفات کی زد میں رہتی ہے جہاں زمین کھسکنے اور بادل پھٹنے کے واقعات عام ہیں اور چشم زدن میں ہزاروں جانیں چلی جاتی ہیں ،پہاڑوں پر تعمیر خوبصورت بنگلے اور عمارتیں تاش کے پتوں کی مانند بکھر جاتی ہیں جہاں غیرمسلموں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے جو بیف نہیں کھاتی۔

دراصل اس طرح کی باتیں وہی کرتے ہیں جنہیں سماجی و معاشرتی شعور نہیں جو صرف اور صرف لوگوں کے درمیان نفرت اور بغض و فساد برپا کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور اقتدار پر قبضہ کرنا جن کا نصب العین ہے۔ ملک کی امن پسند عوام اچھی طرح ان جھانسوں کو سمجھ گئی ہے کہ انہیں ہندو ازم یا مذہب سے کوئی دلچسپی نہیں اور اگر ہے بھی تو خون خرابا اور فساد برپا کرنا کس مذہب کی رو سے درست ہے۔ سیلاب زدہ کیرالہ میں جہاں اگر مندر تباہ ہوئے تو مسجدیں بھی محفوظ نہیں رہ سکیں لیکن اسی خرابے میں لوگوں کی انسانیت ضرور بیدا ر ہوئی اور عیدالاضحیٰ کے موقع پر وہاں کے ہندوؤں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی شاندار مثال پیش کرتے ہوئے مسلمانوں کیلئے مندر کا دروازہ کھول دیا جب مسجد زیر آب ہونے کے باعث نماز عید کی ادائیگی کیلئے جگہ دستیاب نہیں تھی اور مقامی مسلمانوں میں تشویش تھی اور وہ بے حد پریشان تھے۔ کیرالا میں ہوئی ہولناک تباہی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے اور ایسی مشکل گھڑی میں کیرالا کے ہندوؤں نے مسلمانوں کی اس مشکل کو سمجھا اور انہیں اپنے مندر کی جگہ نماز کیلئے فراہم کردی۔

 کیرالاکی متعدد مساجد زیر آب تھیں جن میں تریشورضلع میں مالاکے پاس واقع ایراوتورمیں کوچوکاڈو محل مسجد بھی شامل تھی۔ مقامی مسلمانوں کی ان پریشانیوں کو سمجھتے ہوئے وہاں کے ہندوؤں نے فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور بھائی چارہ کی شاندار مثال پیش کرتے ہوئے ’پوروپلیکورکتیشوری مندر کے منتظمین نے اس کے دروازے مسلمانوں کیلئے بڑی محبت سے کھول دیئے جہاں کم و بیش تین سو مقامی مسلمانوں نے انتہائی سکون اور طمانیت قلب کے ساتھ عیدالاضحیٰ کی نماز ادا کی۔ اس ضمن میں وہاں کے مسلمانوں نے ہندو بھائیوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا۔ اس دوران مندر کے عہدیداروں نے کہا سب سے پہلے ہم انسان ہیں بعد میں ہندو یا مسلم ،ہمیں یاد رکھنا چاہیئے کہ ہم سب ایک ہی ایشور کے بندے ہیں اور مصیبت و پریشانی کی اس گھڑی میں ایک دوسرے کا تعاون کرنا ہمارا انسانی فرض ہے۔ یہی نہیں یہاں کے ہندو نوجوان آگےبڑھے اور انہوں نے بلا تفریق مذہب و ذات انسانی خدمات کا فریضہ انجام دیا اور مندر کے زیر انتظام ایک راحت کیمپ بھی کھول دیا جہاں سبھی دھرم اور ذات کے لوگوں کو آسائشیں فراہم کی جارہی ہیں۔

خبروں کے مطابق نماز کی ادائیگی کیلئے ان نوجوانوں نے لوگوں کے گھروں سے چٹائیاں جمع کیں اور مسلم بھائیوں کو بطور تحفہ پیش کیں۔ یہی وہ مزاج ہے جو ہندوستان کی قدیم روایات کا ہمیشہ امین رہا ہے جس کے مظاہرے اکثر و بیشتر دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وہ مزاج ہے جس نے مسلم سلاطین کو یہاں سیکڑوں سالوںتک عام کا ہردلعزیز بنائے رکھا اورہمایوں کو بابر نے یہ آدرش دیا کہ گائے کا احترام ضروری ہے یہی وہ مزاج ہے جس نے اورنگ زیب کو بیشمار مندروں اور شوالوں کو مالی وظائف کیلئے آمادہ کیا اور شیر میسور ٹیپو سلطان کی جانب سے مندروں کو بڑی بڑی جاگیریں عطا کی گئیںجن کے ثبوت تاریخ میں آج بھی موجود ہیں۔ لیکن شرپسند عناصرکیلئے یہ ہم آہنگی قطعی ناقابل برداشت ہوتی جارہی ہے جسے توڑنے اور تباہ کرنے کیلئےوہ اکثر طرح طرح کی  سازشوں میں مصروف نظر آتے ہیں اور آئے دن ذلت آمیز اور غیر انسانی بیانات سے لوگوں کے دلوں میں نفرت اور عداوت کے بیچ بوتے رہتے ہیں۔

 سناتن سنستھا اور ہندو جن جاگروتی جیسی فرقہ پرست جماعتوں سے منسلک جن دہشت گردوں کو مہاراشٹر اے ٹی ایس نے گرفتار کیا ہے ان میں ویبھوراؤت شرد کالسیکر سدھانشو ،اور سری کانت بانگرکر شامل ہیں ان کی سرزنش کے بجائے مختلف ہندو جماعتیں ان کی تائید کررہی ہیں اور حکومت بھی چپی سادھے ہوئے ہے۔ ابھی حال ہی میں نوزائیدہ  ہندوعدالت کی مایا نمارا نے کہا کہ مہاتما گاندھی کو اگر گوڈسے نے نہ مارا ہوتا تو میں ماردیتی اس طرح کے اشتعال انگیز بیانات پر حکومت کی خاموشی اور چشم پوشی کے سبب ان کے سینے چھپن انچ کے ہوتے جارہے ہیں۔ ملک کے امن پسند افراد کیلئے یہ کڑے امتحان کا وقت ہےاور ان شرپسندوں کی حوصلہ شکنی ضروری ہے جس کے لئے ایک عظیم اتحاد اور اخلاص کی ضرورت ہے۔ وقت ہمارے اس اقدام کا بڑی بے چینی سے منتظر ہے۔ آپ سن رہے ہیں نا۔ ۔۔۔

تبصرے بند ہیں۔