انسان اور زمین کی حکومت (قسط 58)

رستم علی خان

چنانچہ حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا کہ توریت پڑھو اور اس پر عمل کرو اور اللہ کے حکم بجا لانے میں کوتاہی نہ کرو- قوم نے کہا اے موسی ہمسے دونوں کام نہیں ہوتے- ہم یا تو پڑھیں گے یا پھر عمل کریں گے- یعنی اگر توریت پڑھیں گھ تو پھر عمل نہیں کریں گے اس پر اور اگر عمل کریں گے تو پڑھیں گے نہیں-تب جناب موسی نے فرمایا کہ نہیں ایسا نہیں ہو گا بلکہ دونوں کام ضروری ہیں کہ اگر بے عمل پڑھنا کس کام کا اور اگر پڑھو گے نہیں تو عمل کیسے کرو گے-

لیکن قوم کے لوگ مکمل ایمان لانے سے انکاری رہے- تب اللہ کے حکم سے ایک پہاڑ بادلوں کا ان کے سروں پر نمودار ہوا- اور آہستہ آہستہ ان کے سروں پر اترنے لگا- کچھ لوگ تو اسے دیکھ کر ایمان لائے اور باقی جو تھے وہ انکاری رہے- تب بادل ان کے سروں کے اتنا قریب آ گیا کہ جیسے انہیں کچل ڈالے گا- تب وہ لوگ بیٹھ گئے پھر جب بادل اور بھی قریب ہوا تو سجدے میں گر گئے- اور تب کچھ لوگ اور ایمان لائے- اور جو باقی تھے وہ سجدے میں پڑے ایک آنکھ سے جھری بنا کر دیکھتے کہ بادل ہمارے سروں پر گرنے والا تو نہیں- اور پھر سب نے کہا کہ ہم ایمان لائے مکمل لیکن دل سے ایمان نہیں لائے تھے-

تب حضرت موسی نے قسم کھائی کہ وہ اس گئوسالہ کو جلا دیں گے اور پارہ پارہ کر دیں گے- اور اللہ تعالی سے گئوسالہ کے بارے پوچھا کہ الہی! اب اس سے کس طرح چھٹکارہ پایا جائے- تب حضرت جبرائیل امین نازل ہوئے اور ایک گھاس کے بارے بیان کیا کہ اگر اس سے گئوسالہ کو جلایا جائے تو جل کر خاک ہو جائے گا- اور دوسرا قول یہ ہے کہ پتھر سے ٹکڑے ٹکڑے کر کے دریا میں ڈال دو-

چنانچہ جناب موسی نے حکم کے مطابق کیا اور پتھر سے اس گئوسالہ کے ٹکڑے کر کے دریا میں بہا دیا- تب جن لوگوں کے دلوں میں گئوسالہ کی محبت زندہ تھی اور جو مکمل ایمان نہ لائے تھے انہوں نے اس دریا سے پانی پی لیا- پھر جن لوگوں نے وہ پانی پئیا تو بدن ان کا تمام سیاہ ہو گیا اور کافر ہی مر گیا-

  بعد اس کے جب قوم کے لوگوں نے توریت کو لکھ کر اپنے گھروں میں رکھ لیا تب حضرت جبرائیل امین وحی لیکر حضرت موسی کے پاس آئے اور کہا کہ اللہ فرماتا ہے کہ اپنی قوم سے کہو کہ چونکہ توریت ایک مقدس کتاب ہے جو اللہ کی طرف سے نازل کردہ ہے- چنانچہ اسے زینت سے رکھا جائے- حضرت موسی نے قوم کو اللہ کا فرمان سنایا تو کہنے لگے ہمارے پاس تو زر ہی نہیں پس ہم کیسے اسے زینت سے رکھیں گے- یعنی جو کچھ مال و زر سونا چاندی روپا وغیرہ تھا سو گئوسالہ کے بنانے میں سامری نے ہم سے لے لیا تھا-

تب حضرت جبرائیل جناب موسی کے پاس آئے اور کہا کہ جو گھاس ہم نے تم کو بتلائی تھی کہ جس سے بچھڑے کو جلا ڈالیو وہ اور دو اور قسم کی گھاس بتائی کہ ان کو ملا کر جس چیز پر رکھو گے تو ہماری قدرت سے اگر تانبے پر رکھو گے تو سونا ہو گا- اور اگر پیتل پر رکھو گے تو چاندی ہو گا-

تب حضرت موسی نے ایک رقع لکھا یوشع کو  اور ایک قارون کو کہ فلانی گھاس ہم کو دستیاب ہے سو لا دو- اور ایک رقعہ کالوت کو لکھا کہ فلانی گھاس مجھ کو درکار ہے بھیج دو- تب تینوں گھاس منگوائیں- قارون نے یوشع سے کہا دیکھوں تو تمہارے رقعہ میں موسی نے کیا لکھا ہے۔

جب تینوں نے حضرت موسی کی مطلوبہ گھاس منگوا لی تو قارون نے یوشع سے کہا کہ دیکھوں تو تمہارے رقعہ میں موسی نے کیا لکھا ہے- قارون ہوشیار اور چالاک شخص تھا اس نے وہ رقعہ پڑھ لیا اور پھر ایسے ہی کالوت کے رقعہ کا مضمون بھی دریافت کر کے ان تینوں گھاسوں سے کیمیا گری سیکھ لی- اور وہ گھاس حضرت موسی علیہ السلام کو لے جا کر دے دیں-

قارون توریت پر ایمان رکھنے والوں میں سے تھا اور توریت کو اچھے سے جانتا تھا-چنانچہ وہ سب دریافت کر کے چپکے سے گھر میں کیمیا بناتا رہا- اور اس طرح اس نے بہت مال و دولت گھر میں جمع کر لیا تھا جس کا علم سوا اللہ کے کسی کو نہ تھا-

جب بہت مال و دولت ہوئی تو محبت مال کی اس کے دل میں بہت ہوئی- مال کی محبت اور بخل سے زکوت مال اور صدقہ خیرات نہیں کرتا تھا- خدا کا حکم ماننے سے انکاری ہوا اور کافر مردود ہوا- مروی ہے کہ قارون حضرت موسی علیہ السلام کا جدی چچیرا بھائی تھا- اور پہلے پہل عمل اس کا توریت پر تھا- بعد میں جب دولت مال دنیا کا خوب جمع ہوا تو اس میں غرور اور تکبر آ گیا- چنانچہ اس وجہ سے حضرت موسی کی بات سے انکار کیا اور خدا کے نزدیک کافر ہوا-

اور ایک روایت کے مطابق قارون ایک تاجر تھا جو بظاہر حضرت موسی اور توریت پر ایمان رکھتا تھا- لیکن اس کے دل میں دولت دنیا اور مال کی حرص اور محبت بہت تھی- چنانچہ ناپ تول میں کمی کرتا دھوکہ دہی اور جھوٹی قسموں سے خراب مال زیادہ داموں بیچتا- علاوہ اس کے لوگوں کو سود پر مال اور غلہ وغیرہ دیتا اور اس طرح بےحساب مال و دولت اکٹھا کر رکھا تھا-

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ سے روایت ہے کہ ساٹھ مزدور طاقتور اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھانے پر معمور تھے- اور توریت کے مضمون کے مطابق ساٹھ اونٹ طاقتور اس کے خزانوں کی کنجیاں اٹھائے رکھتے تھے- ایک کنجی سے ستر ستر خزانوں کے قفل کھلتے تھے اب خود حساب لگا لیں کہ کس قدر مال اور خزانہ تھا اس کے پاس-

اس قدر مال و دولت نے قارون کو حریص اور لالچی ہونے کے ساتھ متکبرر بھی بنا دیا تھا- چنانچہ جب اسے شہر کے مومن لوگ سمجھاتے کہ وہ اپنے مال اور دولت پر نہ اترائے کہ یہ دنیا کی چیز دنیا میں ہی رہ جانے والی ہے- پس اس کے لیے خلق خدا کو نہ ستائے اور بیجاہ منافع خوری اور جھوٹ سے باز آئے اور اپنے مال پر تکبر کرنے کی بجائے عجز و عاجزی سے رہے اور غریب مساکین کی مدد کرے اپنے مال سے نہ کہ ان پر سود لگائے-

جب مومن لوگ قارون کو یہ باتیں سمجھاتے اور اسے اللہ کا پیغام پنہچاتے تو قارون بجائے ان کی باتیں سننے اور ماننے کہ الٹا ان کا مذاق اڑاتا اور ان کی باتوں پر ہنستا اور کہتا کہ میرے پاس مال و دولت اس لیے زیادہ ہے کہ مجھے کاروبار اور تجارت کا تجربہ ہے اور تم لوگ یہ سب اس لیئے کہتے ہو کہ تم مجھ سے میرے مال و دولت کیوجہ سے حسد کرتے ہو اور چاہتے ہو کہ کسی طرح میری دولت لٹ جائے اور میں بھی تم لوگوں جیسا ہو جاوں- اور میں کوئی دھوکہ دہی نہیں کرتا بلکہ یہ سب مال دولت تو میں نے اپنی ہوشیاری اور چالاکی سے کمائی ہے سو اس میں کسی کا کوئی حق نہیں ہے-

ہر چند کہ علماء اور مومنین اسے سمجھاتے اور نفع نقصان سے آگاہ کرتے رہتے لیکن قارون ان کی باتوں پر غور نہ کرتا اور مزید سے مزید تر کی حوس و حرص میں لگا رہتا-

روایت ہے کہ قارون نے اپنے لیے ایک محل عالیشان بنوایا جو مکمل سونے چاندی اور ہیرے جواہرات سے مزین تھا- تمام سامان اس میں سونے اور ہیرے موتیوں سے مزین تھا- قارون کے محل میں کام کرنے والے نوکر چاکر بھی سونے کی پوشاکیں پہنتے اور جو لوگ کہ جنہیں دولت دنیا مرعوب تھی اور وہ دنیاوی لذتوں اور دکھاوے وغیرہ کو ہی اصل زندگی سمجھتے تھے قارون کے چاپلوسوں میں سے ہوئے اور اس کے گن گاتے۔

تبصرے بند ہیں۔