استفسار اور اعتراض میں فرق؟

قمر فلاحی

استفسار سوال کو کہتے ہیں جس میں ایک ایک سائل اپنے اشکالات بڑے ادب واحترام اور طلب کی نیت سے اپنے سے زیادہ جانکار سے کیا کرتاہے، صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین سوال و استفسار کیا کرتے تھے۔

اعتراض بال کی کھال نکالنا،عیوب تلاش کرکے سوال کرنا،مخاطب کو گمراہ کرنا،اور مخاطب کی باتوں کے انکار کیلئے کیا جاتاہے یہ یہودیت اور شیطنت ہے۔

ایسے لوگوں کو کسی بھی دلیل سے سمجھایا نہیں جاسکتا اور نہ ایسے لوگ کبھی کسی دلیل کو مان کر دیں گے۔ایسے لوگوں کے پاس جب کسی دلیل کے انکار کی کوئ وجہ نہیں ہوگی جب بھی اپنی باتوں پہ اکڑے ہوں گے، ایسے لوگ لا علم نہیں بلکہ جاھل [اڑیل] ہوا کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے پیچھے اپنا وقت ضائع کرنا ناسمجھی ہے۔

منھج اہل حدیث بالمقابل دیگرتمام مسالک،دیوبندیت بالقابل غیر مقلدیت، بریلویت بالمقابل غیرمقلدیت و دیوبندیت،  شیعیت بالمقابل غیر شیعیت جو استفسار کیے جاتے ہیں در اصل و استفسار نہیں بلکہ اعتراض ہے اسے آپ دلائل سے کبھی حل نہیں کرسکتے۔

ایسے موقعوں کیلئے اسلاف میں مولانا مودودی علیہ الرحمۃ کا منھج یہ رہا ہے کہ انہوں نے اپنی دفاع میں کوئ کتاب نہیں لکھی، حتی کہ جس مسجد میں انہیں مودودیت کہہ کہہ کر گالیاں دی جاتی تھیں آپ اس مسجد میں برابر نماز ادا کرتے رہے اور جب کسی نے کہا کہ آپ ان کے پیچھے کس طرح نماز ادا کرتے ہیں اور اس معترض کا جواب کیوں نہیں دیتے تو مولانانے بڑی سادگی سےیہ فرمایا کہ ” آج تک میں نے دین کا جس قدر مطالعہ کیا ہے اس میں کہیں یہ نہیں لکھا ہے کہ جو شخص مودودی کو گالی دے اس کے پیچھے نماز جائز نہیں ہے” ۔ سبحان اللہ کیا ظرف پایا تھا مولانا نے۔

سوشل میڈیا پہ اکثر ہم ان لوگوں کو مطمئن کرنے میں اپنا بہت قیمتی وقت ضائع کردیتے ہیں جو معترض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی کی نصرت خاص سے ہی ایسے لوگوں کو سمجھایا جاسکتاہے۔ ایسے لوگوں کے پیچھے قطعی اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔

ایسے لوگ شیطانی مشن پہ گام کر رہے ہیں جن کا مقصد کچھ نہیں تو کم از کم مخاطب کو confuse کرنا ہوتا ہے۔

جماعت اسلامی اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کو جس قدر میں نے پڑھا ہے اس کے مطابق میں کہہ سکتا ہوں کہ اس جماعت نے کبھی بھی مخالف جماعت کو جہنم رسید کرنے کی کوئ سند نہیں بانٹی ہے۔ بلکہ مثبت انداز میں اپنی فکرعام کیا ہے، یہ ایک منہج ہے جسے پسند بھی کیا جاسکتاہے اور ناپسند بھی۔

ایک بہت بڑا التباس جماعت اسلامی اور مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ کے تعلق سےیہ ہے کہ مخالفین و معترضین یہ سمجھتے ہیں کہ جماعت کے اراکین اور وابستگین مولانا کا کلمہ پڑھ کر جماعت میں داخل ہوتے ہیں نعوذ باللہ۔ ایسے لوگوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ جماعت کی پالیسیوں پہ جس قدر اعتراضات تحریری شکل میں جماعت کے اراکین نے کئے ہیں یقین کے ساتھ کہہ سکتاہوں کہ کسی جماعت نے اپنے پیش رووں پہ نہیں کیے ہیں۔

جماعت کے حلقہ میں مولانا مودودی علیہ الرحمہ ایک مصلح ایک مفکر اور دین کے جانکار کے طور پہ جانے جاتے ہیں نہ کہ امام اور پیشوا کے طور پہ۔

آج تک مولانا کی کسی بھی علمی خامی کو کسی رکن نے دین کا حصہ نہیں مانا ہے، اور ہر کسی کو یہ حق حاصل ہے کہ مولانا کی کاوشوں کو قرآن وسنت کی روشنی میں پرکھے اور نکارنے والی باتوں کو جوتیوں کی نوک پہ رکھے۔

مولانا کی نظروں میں جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہ اجمعین معیار نہیں ہیں بلکہ کتاب وسنت کی کے ترازو پہ انہیں بھی تولا جائیگا تو مولانا پہ یہ اعتراض کرنا کہ ان کے یہ اقوال گمراہ کن ہیں خود اپنے آپ میں معترضین کو ساکت کردیتے والا جواب ہے۔

نقائص سے کوئ جماعت اور تحریک خالی نہیں ہے اس لئے ہمیں لوگوں کے اعتراضات پہ دھول چھڑکتے ہوئے گزرجانا چاہیے اور اپنا وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ ہاں جوشخص واقعی سوال کرتا ہے اور ان کا مقصد استفسار ہے انہیں خوب موقع دینا چاہیے اور انہیں براہ راست مولانا کی کتابوں کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔