وہ سپنا تھا، ادھورا رہ گیا ہے 

عرفان وحید

وہ سپنا تھا، ادھورا رہ گیا ہے
سو اب افسوس کیسا رہ گیا ہے

جو رُت بدلی پرندے اڑ چلے ہیں
شجر پھر سے اکیلا رہ گیا ہے

وہی ہم ہیں، وہی وحشت تماشہ
وہی دنیا کا شیوہ رہ گیا ہے

سفر اپنا بتا اے رائیگانی!
کٹا کتنا ہے، کتنا رہ گیا ہے

بڑے سفّاک ہیں پہرے ہوا کے
لبِ جوُ کوئی پیاسا رہ گیا ہے

مری درماندگی آواز دینا
کہاں میرا قبیلہ رہ گیا ہے

ہیں سب معیارِ وصل و ہجر”اضافی“
دل اس سے مل کے تنہا رہ گیا ہے

پَر افشانی ابھی جاری رہے گی
ابھی کچھ آب و دانہ رہ گیا ہے

کبھی یہ رنگ بکھرے ہیں کبھی خواب
سدا منظر ادھورا رہ گیا ہے

من و تو کا حجاب اٹھنے لگا تھا
خدا کا شکر پردہ رہ گیا ہے

کھلونے لینے اک بچہ نہ آیا
بہت سونا یہ میلا رہ گیا ہے

محبت اٹھ چکی ہے اس نگر سے
محبت کا تماشا رہ گیا ہے

تمھارا غم بچا تنہا حقیقت
مرا غم بس فسانہ رہ گیا ہے

مرے جگنو ابھی کچھ اور چمکو
ذرا سا تو دھندلکا رہ گیا ہے

وہی موتی تو سرمایہ تھا اپنا
جو اس عارض پہ ڈھلکا رہ گیا ہے

جو سرکش ہورہا ہے میرے اندر
اسے تسخیر کرنا رہ گیا ہے

مسافر لوٹ کر آیا نہ عرفاںؔ
دریچہ راہ تکتا رہ گیا ہے

تبصرے بند ہیں۔