آزادیٔ نسواں اور اسلام

 محمد جمیل اختر جلیلی ندوی

 خالقِ کائنات کی ایک بڑی نعمت آزادی ہے،اس نعمت کااندازہ اُسے ہی ہوسکتاہے،جس کے پیروں میں کبھی غلامی کی زنجیریں بندھ چکی ہوں، وہ بھی اندازہ کرسکتاہے، جوکبھی کسی جرم کی پاداش میں آہنی سلاخوں کے پیچھے اپنی زندگی کی کئی بہاریں لُٹاچکاہو،اُس پرندہ سے بھی پوچھاجاسکتا ہے،جوکسی صیادکے جال میں کبھی پھنس چکاہو۔

آزادی ایک فطری چیزہے،کائنات کا ذرہ ذرہ آزاد فضامیں رہنااورسانس لینا پسند کرتاہے،حتیٰ کہ چیونٹی جیسی معمولی مخلوق بھی اپنی جان کانذرانہ پیش کرنے کے لئے تیارہوجاتی ہے؛لیکن قیدوبندکی صعوبتیں برداشت کرناپسندنہیں کرتیں، یہ آزادی ایسی آزادی ہے،جسے لوگ پسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ؛لیکن ایک آزادی وہ بھی ہے، جہاں انسان بے نکیل اُونٹ کی طرح جدھر جی چاہتا ہے،منھ مارتاپھرتاہے،اُسے نہ کوئی روکنے والاہوتاہے اورنہ کوئی ٹوکنے والا،ایسی آزادی نعمت کے بجائے زحمت ہوتی ہے اور یہ آزادی ویسی ہی آزادی ہے، جیسی آزادی ایک شیر کو جنگل میں، ایک مگرمچھ کو پانی میں اور ایک شاہین کوفضا میں حاصل ہوتی ہے کہ جب بھوک لگتی ہے تواپنے سے کمترجانور پر جھپٹامارکراُسے لقمۂ تر بنالیتی ہے۔

 مغرب نے ’’آزادیٔ نسواں ‘‘کاپُرفریب، دلکش اورجاذبِ نظر نعرہ لگاکرایسی ہی آزادی خواتین کے لئے مہیا کی ہے، جہاں بھیڑیانماں انسان اُنھیں ہڑپ کرلینے کی تاک میں لگارہتاہے، جہاں بدقماش مرداُس اژدھے کی طرح منھ کھولے کھڑارہتاہے،جوکئی دنوں سے بھوکاجنگل میں ماراماراپھررہاہو،جہاں شرم وحیاکی پُتلی،حیاباختہ ہوجاتی ہے، جہاں پیارومحبت کی دیوی،ہوس رانی کاشکار بن جاتی ہے اورجہاں ماں، بیٹی اوربہن،جنسی بھوک مٹانے کافقط ایک ذریعہ تصورکرلی جاتی ہے،درحقیقت یہ آزادی نہیں ؛ بل کہ آزادی کے نام پرخواتین کی عزت وناموس پربٹہ اورسفیددامنِ عصمت پرکالادھبّہ لگاناہے؛بل کہ خواتین دُشمنی کاجیتاجاگتاثبوت اور بدترین انتقام کانمونہ ہے، ایساانتقام کہ روئے زمین پرآج تک کسی دشمن نے نہ لیاہوگا،اس انتقام میں براہِ راست تیروتفنگ برسانے کے بجائے ’’آزادی ‘‘ کا حشیش پلا کر اُنھیں مدہوش کیاگیا،پھر ذلت کی اتھاہ گہرائی میں دھکیل دیاگیا۔

  آزادی کے اِس پُرفریب نعرہ کے ذریعہ سے ایک ایسی خاتون کو جو’’چراغِ خانہ‘‘ تھی،’’شمعِ انجمن‘‘ بنادیاگیا،جہاں زرق برق پوشاک پہن کر مردوں کی ہوسناک نگاہوں کوتسکین کاسامان فراہم کرناہوتاہے،ہوٹلوں میں ویٹراوربیرے کے کام پر لگوایا،جہاں برتنوں کی صفائی کے ساتھ ساتھ، مُسکرامُسکراکربہ اندازِ خرام گاہکوں کواستقبالیہ پیش کرنا ہوتاہے،کلبوں میں رقص وسرود کی محفلیں جموائیں، جہاں نیم عریاں لباس زیبِ تن کرکے،انگ انگ کوتوڑکراپنے فن کامظاہرہ کرناہوتاہے، آفسوں میں پرسنل سکریٹری اوراسٹینوٹائپسٹ کی جگہ دلوائی،جہاں ’’Boss‘‘کے ساتھ کبھی لہک کر،کبھی چہک کراور کبھی مہک کرباتیں کرناہوتی ہیں، ہوائی جہاز میں اِیَرہوسٹس بنوایا،جہاں مسافرین کی نازبرداری کر نی ہوتی ہے،Miss WorldاورMiss Universeجیسے خوبصورت،مگر پُرفریب تمغۂ خطاب سے نوازا،جہاں مقابلہ میں شرکت سے پہلے ہی چاہِ زنخداں اورچاہِ غَبْ غَبْ کی گہرائی ناپ لی جاتی ہے، اسپورٹس کے میدان میں اُتروایا،جہاں کالباس ایسا چُست رکھاگیاکہ ہرچیز نمایاں ہوکرخوداپناپتہ بتلا دیتی ہے، پارکوں میں لطف اندوزی کے مواقع فراہم کئے،جہاں Boy Friendکے ساتھ دست بوسی سے آگے بڑھ کر، چشمۂ زِہارکے شیریں پانی کابھی لطف اُٹھالیاجاتاہے، وقت سے پہلے ہی کِشتِ رحم کی سینچائی کرکے، کھاد ڈال کرپھل پیداکرنے کی کوشش کی گئی، جس کے نتیجہ میں پھل میں میٹھاس کے بجائے کڑواہٹ آگئی، خلاصہ یہ ہے کہ آزادی کے نام پرخواتین سے ہر وہ سطحی کام کروالیاگیا،جو ایک مہتر بھی خوش دلی کے ساتھ نہیں کر سکتا،ساتھ میں اُن کاموں سے چھٹی بھی نہیں دی گئی،جو ایک خاتون خانہ کی ذمہ داری ہوتی ہے، کھاناپکاناہی پڑتاہے،بچوں کی نگہداشت بھی کرنی پڑتی ہے،شوہروں کے کپڑے بھی دھونے اور استری کرنے پڑتے ہیں، جوتے بھی صاف کرنے ہوتے ہیں، گویا’’یک نہ شد، دوشد‘‘ کے مصداق آزادی کے نام پردوہری ذمہ داری اُن بیچاریوں کے نازک کاندھوں پرڈال دی گئی۔

  اس کے برخلاف اچھے اورمعاشرہ میں معزز کہے جانے والے کاموں میں اُن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رکھی گئی، کتنی عورتیں عہدہ ٔصدارت پر فائز ہوئی ہیں ؟ کتنی عورتیں وزیرِ اعظم بنی ہیں ؟ کتنی عورتیں منصفی کے مقام تک پہنچی ہیں ؟ کابینہ کے عورت ممبروں کی تعداد کیا ہے؟ کتنی خواتین کو وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کا قلمدان ملا ہے؟ اگر عالمی پیمانہ پر سروے کیا جائے تو شاید پانچ سے چھ فیصد تک ہی خواتین ایسے اعلیٰ مناصب پر فائز ملیں گی،اگرعہدے دئے بھی گئے تو ایسے، جوکام کے نہیں ؛بل کہ شو کے ہو تے ہیں۔

   اب ذرااسلام کے عطاکردہ آزادی پربھی ایک نظر ڈال لیجئے،اسلام نے ایک ا یسے معاشرہ میں زناکی حرمت کااعلان کیا،جہاں دس دس مردوں کے ساتھ ناجائزتعلقات کو ایک قابل فخر کارنامہ سمجھاجاتاتھا،جہاں خاندانی شرافت کے حصول کے لئے اعلیٰ نسب رکھنے والے مَردوں کے پاس خود باپ اوربھائی اپنی بیٹی اوربہن کوبھیجاکرتے تھے، ایسے معاشرہ میں لڑکیوں کوزندہ درگورکرنے سے روکا،جہاں بچی کی پیدائش کے ساتھ ہی باپ اوربھائی کے چہرے لٹک جایاکرتے تھے اور پھراُن کو دفن کرکے ایک طرح کاقلبی سکون اوراطمینان محسوس کرتے تھے،ایسے وقت میں خیرُمتاع الدنیا المرأۃ الصالحۃ(دنیاکی بہترین چیز نیک عورت ہے)کانعرہ لگایا،جب کہ اُن کو جائدادکی طرح وراثت میں تقسیم کیاجاتاتھا، ایسے وقت میں استوصوابالنساء خیراً(عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک کی وصیت قبول کرو)کہاگیا، جس وقت عورتوں کومعاشرہ کی سب سے گھٹیااورگری پڑی چیزسمجھ لیاگیاتھا،ایک بے شرم معاشرہ میں شرم وحیا کی چادر عطاکی، ماں کو مامتا،بیٹی کو محبت،بہن کو پیاراوربیوی کواس کاحق دیا، اس نے کہا المرأۃ راعیۃ فی بیت ِ زوجہایعنی عورت صرف گھر کی ذمہ داری کو سنبھالے گی،باہر کی تمام تر ذمہ داریاں مردوں کو کرناہونگے،نہ یہ کہ مردوں کے کرنے کے کام بھی اُن کے ناتواں کاندھے پرڈال دیاجائے،عورت کو گھر کی رانی بنایا، خادمہ نہیں، پردہ کا حکم دے کر میاں بیوی کے درمیان پیداہونے والے شکوک وشبہات کے تمام دروازوں پرپیتل کاقفل ڈال دیا، بازاروں کاشوپیس نہیں بنایا؛بل کہ ہیرے اورجواہرات سے زیادہ قیمتی قراردے کراس سے بھی زیادہ محفوظ جگہ پر رکھنے کا حکم دیا۔

 اسلام کے عطاکردہ آزادی نے عورتوں کو عزت وشرافت کا بلند مقام عطاکیا،جب کہ مغرب کے فراہم کردہ آزادی نے عورتوں کواس قدرذلیل کیاکہ اب ایک خاتون  کوPlay with our bodiesکہنے میں ذرا بھی باک محسوس نہیں ہوتا،اسلام نے دئے ہوئے آزادی نے گھروں کو ایک مہکتاہواگلدستہ بنایا،جب کہ مغرب کی دی ہوئی آزادی نے خارہی خاربوئے ہیں۔ اسلام کے نوازے ہوئے آزادی نے ایک پاک وصاف معاشرہ عطاکیا،جب کہ مغرب کے فراہم کردہ آزادی نے ہمیں ایڈز زدہ سوسائٹی دیا، اب فیصلہ ترے ہاتھوں میں ہے،کہ کون سی آزادی کاانتخاب کریں ؟ آیاوہ،جوسراسر ہمارے لئے،ہمارے معاشرہ کے لئے؛بل کہ پوری انسانیت کے لئے سودمنداورمفیدہے یاوہ جو سراسر ہمارے لئے نقصان دہ اور مضر ہے۔

تبصرے بند ہیں۔