9؍نومبر:عالمی یوم اردو کے حوالے سے

عبدالرشیدطلحہ نعمانیؔ

9؍ نومبر،بیسویں صدی کے معروف مفکر،مایہ ناز فلسفی، شاعر مشرق،علامہ اقبال کا یوم پیدائش ہے، اس دن بہ طور خاص اقبال کو یاد کیا جاتا ہے اور ان کے روشن کارناموں  کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے، اس دن کو اب یوم اردو بھی کہا جانے لگا ہے ؛کیوں کہ اقبال مرحوم نے اپنی زندہ و پائندہ شاعری کے ذریعہ دنیائے اردو میں ایسا انقلاب برپا کیا اورایسی روح پھونکی جسے محبان اردو کبھی فراموش نہیں کرسکتے۔

 9؍نومبر جہاں اقبال کی شاعری اور ان کے فکر وفن پر پروگراموں کے انعقاد سے عبارت ہے وہیں وہ اردو کے حوالے سے اہل اردو کے رویوں اور اردو سے ان کی محبت کے دعووں کے احتساب کا بھی دن ہے۔

9؍نوبر کو یوم اردو منانے کا آغاز ایک غیر سرکاری اور نجی تنظیم نے کیا تھا؛ جس کا نام اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن ہے پھر ایک اور نجی تنظیم یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا نے بھی اس کے ساتھ اشتراک کیا اور اس کازمیں برابر کی حصہ دار رہی، اس طرح ان دونوں تنظیموں کے قابل قدراور لائق تحسین اقدام سے1997میں یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع ہوا اور آج یہ ننھا سا پودا ایک تناور درخت بن چکا ہے۔

 پہلے اس دن صرف ہندوستان ہی میں یوم اردو منایا جاتا تھا؛ لیکن جب اس چراغ کی روشنی دوسرے ملکوں میں پہنچی تو وہاں موجود محبان اردو نے بھی اس چراغ سے اپنے چراغ جلائے اور انھوں نے بھی اسی تاریخ کو یوم اردو منانے کا سلسلہ شروع کر دیا، آج ان تمام ملکوں میں جہاں جہاں بھی اردو والے موجود ہیں 9؍نومبر کو پورے تزک و احتشام کے ساتھ اردو ڈے منایا جا تاہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے کہ محض ڈیڑھ دہائی کے اندر یوم اردو نے عالمی یوم اردو کا جامہ پہن لیا اور یہ تاریخ اردو کے حوالے سے ایک یادگااور قابل رشک تحریک بن گئی۔

اردو ڈیولپمنٹ آرگنائزیشن اور یونائٹیڈ مسلم آف انڈیا کے زیر اہتمام ہر سال ایک یادگاری مجلہ بھی شائع کیا جاتا ہے۔ مجلے کو یا تو کسی شخصیت کے نام معنون کیا جاتا ہے یا پھر کسی خاص موضوع پر ایک خصوصی اشاعت کی شکل میں اسے چھاپا جاتا ہے۔ اب تک جن شخصیات پر مجلہ شائع کیا جا چکا ہے ان میں علامہ اقبال کے علاوہ آزاد ہندوستان کے عظیم صحافی مولانا محمد عثمان فارقلیط، جناب محفوظ الرحمن،مولانا محمد مسلم اور مولانا عبد الماجد دریابادی وغیرہ قابل ذکر ہیں ۔

اردو کی ابتداء:

اردو زبان کی ابتداء، جائے پیدائش اور نشوونما کے بارے میں اردو کے عالموں ، محققوں اور ماہرلسانیات نے اب تک کافی غور و فکر اور چھان بین سے کام لیا ہے ؛جس سے اس موضوع پر اردو میں لسانیاتی ادب کا ایک وقیع سرمایہ اکٹھا ہو گیا ہے۔

اس بات سے کسی کو اختلاف نہیں کہ جب ایک قوم دوسری قوم کے ساتھ بودوباش اختیار کرتی ہے تو یہ امر ناگزیر ہے کہ بول چال اور کام کاج میں ایک کے الفاظ دوسرے کی زبان میں منتقل ہوں ۔ ہندوستان کی سرزمین ہمیشہ غیراقوام کی آماجگاہ رہی ہے، آرین قوم نے شمالی ہند پر حملہ کیا اور یہاں کے قدیم باشندوں کوجنوب کی طرف ڈھکیل دیا،ان لوگوں کی زبان،تمل،اُڑیا،اورتلگو وغیرہ تھی، چناں چہ آج تک دکن میں یہ قدیم زبانیں مروج ہیں ،فاتحوں نے خیال کیا کہ عام شودروں (مفتوح) کی زبان سے اپنی زبان بلند پایہ ہونی چاہئے، چناں چہ انھوں نے قواعد واصول ترتیب دیئے، اور اپنی زبان کا نام سنسکرت رکھا،لیکن ان کی سنسکرت زبان کا مخرج،اور تلفظ یہاں کے لوگوں میں آکرکچھ اورہوگیا اور ہوتے ہوتے پراکرت زبان خودبخود پیدا ہوئی، پھر ایک زمانہ آیا کہ پراکرت زبان ہی کل شاہی دفاتر اور دربار کی زبان بن گئی، عام طور سے مذہبی کتب وغیرہ اسی زبان میں مرتب ہونے لگیں ؛ لیکن تقریباً پندرہ سول سال کے بعد جب کہ راجہ بکر ما جیت کے سرپر تاج شاہی آیا توقدیم سنسکرت زبان کو پھر سے عروج حاصل ہوا اور وہ آب وتاب کے ساتھ چمکنے لگی، غرض اس طرح شاہی دربار امراء اور پنڈتوں کی زبان سنسکرت رہی مگر عوام میں وہی پراکرت مروج رہی اور بالآخر یہی زبان اردو کا مخرج و ماخذ بنی۔

مرزا خلیل احمدبیگ "اردو زبان کا تاریخی تناظر "میں لکھتے ہیں کہ :”اردو کے ان تمام ادیبوں ، عالموں ، محققوں اور ماہرینِ لسانیات کے خیالات و نظریات کا خلاصہ یہ ہے کہ اردو ایک مخلوط یا "ملواں ” زبان ہے جو ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد کے بعد شمالی ہندوستان میں معرضِ وجود میں آئی اور اس پر دہلی اور اس کے آس پاس کی بولیوں کے نمایاں اثرات پڑے۔ ان میں سے مسعود حسین خاں اردو کی پیدائش کو "دہلی اور نواحِ دہلی” سے، حافظ محمود خاں شیرانی "پنجاب” سے، سید سلیمان ندوی "وادیِ سندھ” سے، اور سہیل بخاری "مشرقی مہاراشٹر” سے منسوب کرتے ہیں ۔ اسی طرح محمد حسین آزاد کے خیال کے مطابق "اردو زبان برج بھاشا سے نکلی ہے "۔ گیان چند جین کے نظریے کے مطابق "اردو کی اصل کھڑی بولی اور صرف کھڑی بولی ہے "۔ اور مسعود حسین خاں کی تحقیق کی روسے "قدیم اردو کی تشکیل براہِ راست دو آبہ کی کھڑی اور جمنا پار کی ہریانوی کے زیرِ اثر ہوئی ہے "۔ علاوہ ازیں شوکت سبزواری اس نظریے کے حامل ہیں کہ اردو کا سرچشمہ "پالی” ہے۔ ان تمام عالموں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اردو ایک خالص ہندوستانی زبان ہے۔ اس کا ڈھانچا یایہیں کی بولیوں کے خمیر سے تیار ہوا ہے۔ اس کے ذخیرۂ الفاظ کا معتدبہ حصّہ ہند آریائی ہے، لیکن عربی اور فارسی کے بھی اس پر نمایاں اثرات پڑے ہیں ۔ یہ ہندوؤں اورمسلمانوں کی مشترکہ میراث ہے، کیوں کہ اس کی پیدائش کے دونوں ذمہ دار ہیں "۔

اردو کا عروج وارتقاء:

اردو زبان کی ترقی و ترویج کا آغاز مغلیہ دور سے شروع ہوا اور یہ زبان جلد ہی ترقی کی منزلیں طے کرتی ہوئی ہندوستان کے ہندوؤں اور مسلمانوں کی زبان بن گئی۔ اردو کی ترقی میں مسلمانوں کے ساتھ ساتھ ہندو ادیبوں نے بھی بہت کام کیا۔ اس کی آب یاری اور ترویج و ترقی میں شمالی ہند کے تمام علاقوں نے حصہ لیا، یہیں کے لوگ اسے دکن میں لے گئے اور یہ وہاں دکنی اور گجراتی زبان کہلائی۔ اس کے فروغ میں حیدرآباد دکن اور پنجاب کی خدمات اتنی ہی اہم ہیں جتنی دہلی اور یوپی کی۔ خصوصاً پنجاب نے اس کے علمی و ادبی خزانوں میں بیش بہا اضافہ کیا۔ برصغیر پر قبضے کے بعد انگریزوں نے جلد ہی بھانپ لیا تھا کہ اس ملک میں آئندہ اگر کوئی زبان مشترکہ زبان بننے کی صلاحیت رکھتی ہے تو وہ اردو ہے اسی لئے فورٹ ولیم کالج میں نووارد انگریزوں کو اردو کی ابتدائی تعلیم دینے کا سلسلہ شروع کیا اور یوں اردو کی بالواسطہ طور پر ترویج بھی ہونے لگی۔ مگر انگریزی اقتدار آنے کے بعد 1867میں ہندوؤں نے اردو زبان کی مخالفت شروع کر دی۔ اردو زبان کی مخالفت کے نتیجے میں اردو ہندی تنازعہ شروع ہواجو تا ہنوز جاری ہے۔

 کچھ لفظ اردو کے بارے میں :

اردو، ترکی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی لشکر یا فوج کے ہیں ، اس کے اور بھی کئی معانی ہیں ؛مگرعام طور پر لشکر، پڑاؤ، خیمہ،بازار، حرم گاہ اور شاہی قلعہ اور محل کے لئے ستعمال عام ہے۔ اردو کا لفظ سب سے پہلے بابر نے تزک بابری میں استعمال کیا ہے۔ ۔ 1637ء کے بعد جو شاہی لشکر دہلی میں مقیم رہا وہ اردوئے معلی کہلاتا تھا؛اس لئے اس کو عام طور پر لشکری زبان بھی کہا جاتا تھا۔ کیونکہ یہ ہندی،ترکی،عربی،فارسی اور سنسکرت زبانوں کا مرکب تھا؛ لیکن بعض محققین کا خیال ہے کہ یہ آریاؤں کی قدیم زبان کا لفظ ہے۔

 سر سید احمد خان اور سید احمد دہلوی کا دعوی ہے کہ اردو زبان کی ابتدا شاہجہانی لشکر سے ہوئی اس لئے اس کا نام اردو پڑا۔ بہرصورت اس وقت اس زبان کو ہندوی، ہندوستانی، ریختہ، دکنی اور گجراتی کے ناموں سے یاد کیا جاتا تھا۔ اردو زبان کو مختلف اوقات میں مختلف ناموں سے یاد کیا جاتا رہا۔ اس زبان نے ارتقا کی جتنی بھی منزلیں طے کیں اتنے ہی اس کے نام پڑتے چلے گئے۔ ناموں کی اس تبدیلی کے پس پردہ مختلف ادوار کی مخصوص تہذیبی و سیاسی روایات کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔

مرزا اسداللہ غالبؔ کے ہاں اردو دیوان میں کئی مقامات پر ریختہ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے اپنے ایک شعر میں کچھ یوں اس کا ذکر کیا ہے۔

ریختہ کے تمہیں استاد نہیں ہو غالب !

کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا

الغرض:اردو زبان ایک ایسی زبان ہے جس نے مختلف قوموں میں رابطے کی زبان کا کردار ادا کیا،اردو زبان کی ارتقاء کے بارے دیکھا جائے تو اس کو اولیاء کی زبان کہا جاتا ہے۔

ضرورت اور اہمیت:

زندگی کے تلخ و شیریں حقائق کا اظہار الفاظ کے ذریعے ہی ہوتا ہے اور کسی خطے کی زبان وہاں کے باشندوں کے جذبات کی عکاس بھی ہوتی ہے نیز ”زبان“تہذیب کا وہ حصہ ہے جو انسانی معاشرے کی بنیاد ہے، زبان معاشرے کے قیام کے لیے وہ خون ہے ؛جس کے بغیر زندگی کی نبضیں سکڑ جاتی ہیں اور قومی و مادری زبان احوال کی نذر ہوجاتی ہے۔ ”اردو“ ہماری قومی زبان ہے، اردو میں ہمارا علمی ورثہ موجود ہے، ہماری تہذیب ومعاشرت کی تاریں اردو زبان سے جڑی ہوئی ہیں ۔عربی زبان کے بعد شائد کسی زبان میں اتنا علمی ذخیرہ نہیں ہے جتنا اردو میں موجود ہے، اس وقت کوئی ایسا موضوع نہیں ہے جس پر اکابرواسلاف نے کوئی کتاب تصنیف نہ فرمائی ہو،یہ لاکھوں تصانیف اردو کی اہمیت و افادیت کو خوب واضح کرتی ہیں ۔

آج جب کہ اردو زبان دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل کو اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب دیں ؛ کیونکہ اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر رہی ہے، اور آج کل کے زمانے میں غیر زبان کی لپیٹ میں اردو لکھنا اور بولنا نئے بچوں کے لیے کسی محاذسے کم نہیں رہا۔

لہذا اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہم سب اس مہم میں شریک ہوں ۔ اگر ہم اردو سے محبت کرتے ہیں اور اس کی بقا اور تحفظ اور اس کو اس کا حق دلوانے میں سنجیدہ ہیں تو ہمیں اس مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے۔

تھا عرش پہ اک روز دماغِ اردو

پامالِ خزاں آج ہے باغِ اردو

غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم

وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغِ اردو

تبصرے بند ہیں۔