یادِ رفتگاں: بیادِ شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبالؔ 

احمد علی برقیؔ اعظمی

گزرے ہوئے یوں اُن کو ہوئے کتنے مہ و سال
ہر سمت نظر آتے ہیں اقبالؔ ہی اقبالؔ

کب تک رہے یہ ملتِ مظلوم زبوں حال
اب تک نہ ہوا پیدا کوئی دوسرا اقبالؔ

پیتے رہے وہ خونِ جگر اپنا ہمیشہ
ہر وقت انھیں فکر تھی ملت رہے خوشحال

وہ درسِ عمل دیتے تھے اشعار سے اپنے
اُن سا نہ ہوا اہلِ نظر کوئی بھی تاحال

ماضی بھی پسِ پُشت تھا،فردا پہ نظر تھی
تھا ذہن میں اُن کے نہ رہے کوئی بھی بدحال

سب راہِ ترقی پہ رواں اور دواں ہیں
زردار جو ہیں اُن کو ہے بس فکرِ زرو مال

کرتا ہی نہیں درد کا کوئی بھی مداوا
ہے عہدِ رواں اپنے لئے جان کا جنجال

اسلاف سے ہے نسلِ جواں اپنے گریزاں
برقیؔ ہے یہی وجہہ کہ ہم آج ہیں پامال

تبصرے بند ہیں۔