آزادی وطن کے لیے مسلمانوں کی سرفروشانہ جدوجہد

 مفتی رفیع الدین حنیف قاسمی

انگریزوں کی جابرانہ وظالمانہ حکومت اور ان کے ظلم واستبداد کے خلاف غیور وباحمیت مسلمانوں نے روزِ اول ہی سے جو قربانیاں پیش کیں، ان سے مزاحمت اور مقابلہ جاری رکھا اور پھر یہ مزاحمت کا سلسلہ ہوتے ہوتے ایک تحریک کی شکل اختیار کر گیاجو آگے چل کر ہندوستان کی آزادی کا پیش خیمہ ثابت ہوا، مسلمانوں نے انگریزوں کی ایک صدی پر مشتمل حکمرانی کو کبھی بھی بنظر تحسین نہیں دیکھا، انہوں نے ہمیشہ ہی مختلف تحریکات، تنظیموں اور براہِ راست میدانِ کارزار میں ان سے تیروتفنگ سے مقابلہ آرائی کے ذریعہ اپنی جدوجہد اور ملک ووطن کی آزادی کی لو اور شمع جلائی رکھی، یوں تو اس تحریک آزادی میں ہر ہندوستانی نے بطور محب وطن کے شامل اپنا کردار اداکیا، لیکن مسلمانوں کی مخلصانہ وسروفروشانہ جدوجہد کی داستاں ایک انفرادی حیثیت رکھتی ہے، ہمارے اسلاف اور آباء واجداد نے ہندوستان کی عظمت رفتہ کی بحالی اور اپنے خون وپسینے سے سے سینچے ہوئے چمن کی آبیاری اور سفید فام قوم کو اپنے ملک ووطن سے بیدخل کرنے کے لئے خون کے آخری قطرے تک جو نذرانہ پیش کیا، دوسروں قوموں نے شاید پوری جنگِ آزادی میں اتنا پسینہ بہایا ہو، ۱۸۵۷ ؁ ء کے بعد نصف صدی تک انگریزی سامراج کو شکست دینے کے لئے مسلمان صرف جنگِ آزادی کے میدان میں زور آزمائی کرتے رہے، ایسا کیوں نہ ہو تا؟جس ملک کے نوک وپلک کو سنوارنے اور سجانے اور اور اس کوخوش رنگ اورخوبرو بنانے بنانے میں ہم نے ہی دس صدیوں پر مشتمل دور حکمرانی میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی، اس کی عظمت پر بٹہ لگے اور اس پر کوئی دوسری قوم دوسرے ملک سے آکر قابض ہوجائے اور اس پر حکمرانی کرے اس کو مسلمان کیوں کر برداشت کرسکتے تھے ؟

آج بھی ہندوستان کے چپے چپے میں بلند وبالا، فلک بوس، فن تعمیر کی عظیم شاہکار عمارتیں مسلمانوں کی عظمت رفتہ کی یاد دلارہی ہیں، اس چمن کا ذرہ ذرہ او ر گوشہ گوشہ زبان حال سے اس ملک کے وقار کو بلند کرنے میں اور یہاں کی مٹی کو سونا بنانے میں مسلمانوں کے کردار کا بین اور واضح ثبوت پیش کر رہا ہے، ملک کے گوشہ گوشہ اور چپے چپے میں ہر جگہ پر اسلامی طرزِ تعمیر کی شاہکارعمارت ضرور ایسی ملے گی جو مسلمانوں کی طویل اور عظیم حکمرانی کی یاد دہانی کراتی ہے ؛ لیکن آج صورتحال یہ ہے کہ مسلمانوں اور خصوصا علمائے دین نے ہندوستان کی آزادی میں جو کردار ادا کیا اس کو پسِ پشت ڈالا جارہا ہے، سوائے چند مسلمان رہنماؤں کے جنگ آزادی عظیم مسلمانوں سورماؤں کا نام تک لینا گوارا نہیں کیا جاتا اور یہ ان کا تذکرہ نہ کیا جانا اس لئے نہیں ہے کہ موجودہ سیاسی قائدین کو اس کا علم نہیں ہے ؛ بلکہ سبھی جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے اس ملک کی آزادی میں بالکل ناقابل فراموش کردار رہا ہے، اس کے تذکرے کے بغیر تاریخِ آزادیٔ ہند کی تاریخ تشنہ اور ناتمام ہی رہے گی ؛ لیکن یہ بارو کرانے کی کوشش کی جارہی ہے کہ یہ ملک مسلمانوں کا نہیں ؛ بلکہ یہاں کے حقیقی باسی تو صرف ہندو قوم ہے، شاید انہوں نے ہندوستان میں اسلام کی آمد کی تاریخ کو بھلادیا ہے، یا اس سے تجاہل عارفانہ برت رہے ہیں، اسلام کی آمد کے بعد اس ملک کے باشندوں نے مسلمانوں کی مذہبی اور اخلاقی تعلیمات سے متاثر ہو کر برضا ورغبت بغیر کسی جبر واکراہ کے دامنِ اسلام میں پناہ لی ہے، یہاں کے مسلمان خود یہی کے باسی ہیں، جہنوں نے انگریز کو یہاں سے بھگانے اور اس ملک سے بے دخل کرنے کے لئے ایک صدی پر مشتمل طویل جدوجہد کی ہے، بہر حال یہ مسلمان حکمرانوں ہی کی ناعاقبت اندیشی تھی کہ انہوں نے انگریزوں کو بغرض تجارت یہاں قدم جمانے کا موقع دیا، جو آہستہ آہستہ اس ملک پر قابض اور حکمراں ہوگئے، لیکن مسلمانوں نے ان کی اس ملک میں بے جامداخلت کو ہرگز برداشت نہیں کیا، اور انہوں نے انگریزوں کے خلاف ہر طرف سے جہاد کے محاذ کھول دیئے، اور خصوصا علماء نے عوام کے درمیان آزادی کی جدوجہد کے لئے ہوش جگایا اور مختلف تحریکوں اور دوبدو مقابلہ کے ذریعہ انگریزوں کو پسپا کرنے کی پوری کوشش کی، حضرت شاہ ولی محدث دہلوی سے لے کر حضرت مولانا حسین احمد مدنی تک ایک طویل تاریخ ہے جس میں علمائے ہند کے زیر نگرانی جدوجہد آزادی کے پروانوں نے بے دریغ اپنی جانوں کی قربانی پیش کی۔

جس میں آزادیٔ ہند کا صف اول کا سپہ سالار شہید وطن شیر ہند شیر میسور حضرت ٹیپوسلطانؒ شہید ہیں، جن کے ذکر کے بغیر آزادیٔ ہند کی تاریخ نامکمل رہتی ہے، جنہوں نے ہندوستان میں انگریزوں کا جینا حرام کردیا تھا، وہ نڈر سلطان وسپہ سالار تھے، جنہوں نے گیڈر کی سوسالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی کو ترجیح دی، جن کی پیدائش ۱۷۵۰ء میں ہوئی جن کی تربیت ان کے والد بزگوار حضرت حیدر علیؒ کے زیرسایہ ہوئی، جنگی فنون جنگ کی مشق ان کے استاذ رفیق حیدر علیؒ سالار غازی باباشہیدؒ نے کی، جن کی ساری زندگی انگریز حکومت کے خلاف نبردآزما رہی، ٹیپو سلطانؒ شہید نے بھی اپنے والد حیدرعلیؒ اور استاذ غازی باباشہیدؒ کی طرح ساری زندگی آزادیٔ ہند کے خاطر قربان کی، جنہوں نے کئی معرکوں میں انگریزوں کو شکست فاش دی، انگریزوں کے پاؤں ہندوستان سے اکڑنے لگے، ان حالات میں ان ہی کے نمک خوار غدار اور دغاباز نکلے جنہوں نے انگریزی حکومت سے ملی جلی شازش رچی جس کے خاطر سلطان شہید ؒ۱۷۹۹ء میں آخر دم تک انگریزوں سے لڑتے ہوئے جام شہادت نوش کیا، وہ آزادیٔ ہند کے صف اول کے شہید تھے، جن کے خون کو ہندوستان کی زمین کبھی فراموش نہیں کرسکتی، جو سرزمین ہند کے لعل وگوہر تھے۔

اسی طرح سے بہت سارے علماء کرام ومسلمانانِ نے قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں، پھانسیوں پر چڑھائے گئے، تختۂ دار کو سینے سے لگایا، مسلمانوں کو جلا وطن کیا گیا، حبسِ دوام بعبور دریائے شور جوپھانسی کی سزا سے زیادہ اذیت رساں تھی، کالے پانی بھیجنے کا مطلب یہ تھاکہ مجرم اپنے وطن، اپنے گھر، اپنے دوست واحباب، عزیز واقارب، اپنے خاندان اور بیوی بچوں کے لئے زندہ رہتے ہوئے بھی مرجاتا تھااور ایسے گھٹ گھٹ کر زندگی گذارنے پر مجبور ہوتا تھاکہ موت کو اس زندگی پر ترجیح دینے لگتا تھا، ہندوستان کے مشاہیر علماء ومشائخ، رؤساوامراء جن کی راہوں میں عوام آنکھیں بچھاتے تھے، جن کے اعزاز واحترام کا یہ عالم تھاکہ مسلمانوں میں ان کو سر اور آنکھوں پر بٹھایا جاتا تھا، خوش حال گھرانوں کے افراد جن کی خدمت کے لئے نوکر دست بستہ کھڑے رہتے تھے، ایسے معزز رؤساء علماء ومشائخ کو جزیرۂ انڈومان، کالے پانی کی مسموم فضا میں بھیجا جاتا، جہاں ان سے ذلیل کام لیا جاتا، یہ جزائر جدوجہد آزادی کے پروانوں کے بڑے بڑے قید خانہ تھے، جس میں چہار دیواریاں اور فصیلیں تو نہیں تھیں ؛ لیکن چاروں طرف حدِ نگاہ تک سمند ر لہریں مارتا تھا، ان جزیروں میں ان معزز شخصیتوں سے لکڑیاں کٹوائی جاتی تھیں، سڑکیں بنوائی جاتی تھیں، نالیاں اور گندگیاں صاف کرائی جاتی تھیں، کوڑے کرکٹ کی ٹوکریاں ان کے سروں پر لاد کر پھنکوائی جاتی تھیں، مولانا فضل حق خیرآبادی جو علمی دنیا میں بے تاج کے بادشاہ تسلیم کئے جاتے تھے ؛ لیکن جب ایک شخص جزیرہ انڈومان میں ان کی ملاقات کے لئے پہنچا تو دیکھاکہ علامہ غلاظت کی ٹوکری اٹھائے ہوئے پھینکنے کے لئے جارہی ہیں، جزائرے انڈومان میں تمام مسلمان قیدیوں سے اسی طرح کے جبری کام لئے جاتے تھے، انگریزوں نے کتنے مسلمان مجاہدین آزادی کو جزیرہ انڈومان بھیجا اور کالے پانی کی سزادی، ان کی فہرست بتانی مشکل ہے، مگر تاریخ کے جستہ جستہ واقعات کے مطالعہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کی تعداد چار ہزار سے کسی طرح کم نہیں تھی (تحریک آزادی اور مسلمان : ۳۶)

ان مسلمان مجاہدین آزادی کے لئے جزیرۂ انڈومان کے حبس دوام کی سزا سے بڑھ کر یہ درد ناک عذاب یہ ـتھاکہ جو ان مجاہدین آزادی کو بھگتنا پڑا جو ان کی لاکھوں لاکھ کی جائداد وں کو مفت کے دام حکومت نے نیلام کر کے ان کے معصوم بچوں، پردہ نشیں، عفت مآب خواتین کو نانِ شبیہ کا محتاج بنادیا، یہ تصور ہی مجاہدین آزادی کے لئے بڑا روح فرسا تھا، انہوں نے اپنی پھانسی کا حکم سن کر مسکرادیا تھا، لیکن ان کی آل واولاد کو درد بھیک مانگنے پر مجبور کردینا خون کے آنسو رلاگیا جیسا کہ عظیم آباد کے امیر کبیر مولانا احمد اللہ صاحب کے ساتھ ہوا کہ ان کی ساری جائیداد پر انگریزی حکومت نے قبضہ کر کے ان کے خاندان کے ایک ایک فرد کو عین عیدکے دن گھر سے اس حال میں نکال باہر کیا کہ اکی سوئی بھی اٹھانے کی اجازت نہیں دی (تحریک آزادی اور مسلمان :۹۳)

بہر حال ۱۹۰۰ ء تا ۱۹۱۷ء تک جن مسلمان علماء نے خصوصا عوام کے ہمراہ جدوجہد آزادی میں حصہ لیا، اور اس کے خاطر کئی دفعہ جیل کی صعوبتیں برداشت کیں، ان کے ناموں کی فہرست طویل ہے، مولانا محمد جعفر تھانیسری، مولانا فضل حق خیر آبادی، حاجی امداد اللہ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مفتی کفایت اللہ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، مولاناحسین احمد مدنی، مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا احمد علی لاہوری، مولانا سعید احمد دہلوی، عطا ء اللہ شاہ بخاری، مولانا عبد الحلیم صدیقی، مولانا شاہ عبد الرحیم رائپوری، مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مولانا حبیب الرحمن لدھیانوی، مولانا محمد علی جوہرمولانا شوکت علی، مولانا محمد میاں، اور مولانا ابو الکلام آزاد،ڈاکٹر ذاکر حسین  وغیرہ کی کے نام سرفہرست ہیں۔

بیسوی صدی کے آغاز سے سیاسی بیدا ری شروع ہوئی، تعلیم یافتہ طبقہ میں غلامی کی ذلت اور آزادی کی قدر وقیمت کا احسا س ہوا، اس میں ہندو بھی تھے اور مسلمان بھی اور سکھ بھی اور بعض دوسری اقلیتیں بھی ؛ لیکن غدر ۱۸۵۷ء کے بعد سے پچاس پچپن سال بعد تک وہ سرفروشانہ جذبہ عام نہ ہوا تھاکہ انسان انجام سے بے نیاز ہو کر اس کانٹوں بھر وادی میں قدم رکھ دے؛ کیوں کہ اس دور میں آزادی کا لفظ زبان سے نکالنے کا مطلب یہ تھاکہ انگریزی مظالم کی اذیتوں سے انسانوں کو خون اگل اگل کر مرنا پڑے گا، پھانسی پر چڑھادینا، صف میں کھڑا کر کے گولی ماردینا تو برطانوی حکومت کے یہاں معمولی سزائیں ـتھیں وہ اس سے زیادہ درد ناک اور اذیت ناک سزاؤں پر یقین رکھتے تھے، ان سزاؤں کو بھگتنے کے لئے ابھی برادران وطن میں جرأت وہمت نہیں پیدا ہوئی تھی، وہ ابھی انگریزی تعلیم حاصل کر کے برطانوی حکومت میں معزز عہدوں کی تلاش میں سرگرداں تھے، وفاداریوں کا سرٹیفکٹ لے رہے تھے، البتہ بردران وطن میں سے چند سر پھر ے نوجوان ضرور ایسے تھے جنہوں نے جنہوں نے انگریزوں پر قاتلانہ حملہ کر کے ان سے اپنی نفرت اور بغض کا اظہار ضرور کر دیا تھا؛ لیکن ایسے نوجوانوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی، بردران وطن کا عام طبقہ ابھی مصائب کے اس سمند ر میں چھلانگ لگانے کے لئے ساحل پر ہی کھڑاسوچ رہا تھا؛ لیکن مسلمان اس قدر مصلحت اندیش اور عواقب پر نظر رکھ کر اپنے جذبات کو قابو میں رکھنے کی قوت برداشت اپنے اندر نہیں پاتا تھابمصداق : بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق۔ یہی وجہ ہے کہ ۱۹۱۵  ؁ ء تک جنگ آزادی کے میدان میں صرف مسلمان ہی صف آرا تھے  البتہ دستوری جنگ کے نقشے ضرور بنائے جانے لگے تھے، کانگریس پر ترقی پسندوں کا قبضہ شروع ہوچکا تھا، کمیونسٹ پارٹی کے چند جیالے نوجوان بھی میدان میں آرہے تھے، لیکن ابھی تک آزادی حاصل کرنے کا کوئی واضح راستہ دریافت نہیں ہوسکا تھا کہ کھلے بند کوئی ایسی تنظیم بنائے جائے کہ اس کے پلیٹ فارم سے حکومت کی زیادتیوں پر برملا حرف گیری کی جاسکے، جلسے جلوس اور احتجاجی مظاہرے اور دھرنے اور بھوک ہڑتال اس طرح کے طریقے تو بعد میں دریافت ہوئے، لیکن ان کے موجد بھی مسلمان ہی تھے (تحریک آزادی اور مسلمان : ۱۶۹)

۱۹۱۹ ؁ء میں جب حکومت نے ’’قانون تحفظ ہند ‘‘ کے نام سے ایک مستقل قانون بنایا، اس قانون کے تحت آزادی اور حریت کے خواہاں جیالوں کے خلاف کے خلاف سخت قوانین اور احکامات جاری کئے گئے جیسے نظر بند کرنا، اخبار نویسی، پرچے اورپمفلٹ کی تقسیم اور جلسے جلسوں میں شرکت پر پابندی، مشتبہ شخص وقتا فوقتا اپنے موجودگی کی رپورٹ پولیس کو دیتا رہے، گرفتاری، خانہ تلاشی، بطور تعزیر کے حراست، اس قسم کے ظالمانہ قوانین کو برداشت کرنا ہندوستانیوں کے بس میں نہیں تھا، زبان بندی کا حکم پہلے سے نافذ تھا، اب ہر طرح کی پابندی، نہایت غور وفکر کے بعد ہندوستان کی دو عظیم شخصیتوں نے ملک کو ایک نئے طریقۂ جنگ سے واقف کرایاجسے عقل نے تو تسلیم نہیں، ان دو شخصیتوں میں سے ایک گاندھی جی تھے اور دوسری شخصیت مولانا ابوالکلام آزاد کی تھی، اس طریقۂ جنگ کا نام ’’ستیہ گرہ‘‘ رکھاگیا ( سچائی کا عہد ) یعنی ہم ان ظالمانہ قوانین کو قبول نہیں کریں گے چاہے پولیس کی لاٹھیاں برسیں یا ان کی گولیاں ہمارے سینوں کو چھلنی کردیں، جس کا ہر شخص نے حتی الامکان عہد لینے کی کوشش کی، اب جنگ آزادی کا نیا دور آچکا تھا، سیاسی بیداری عام ہوچکی تھی، اعلی تعلیم یافتہ طبقہ سے لے کر عوام تک سیاسی مسائل پر پوری بصیرت اور بڑے جوش سے بحثیں کرنے لگا تھا، حکومت کے ایوانوں میں بیٹھ کر ہندوستان کے گلے میں غلامی کا پھندا کسنے والے ہاتھ عوامی جوش وخروش اور ان کے تیز وتند نعروں سے تھراگئے، سیاست محلوں اور بنگلوں سے نکل کر جھوپڑوں اور گلیوں اور سڑکوں پر آنے کے لئے تیار کھڑی تھی، ظلم وجوار کا مقابلہ اب تلواروں کے بجائے نہتے عوام کو کرنا تھا، تنی ہوئی رائفلوں کے سامنے سے نہتے عوام کو گذرنا تھا؛لیکن اس وقت بھی گنے چنے برادران وطن کے علاوہ اس تحریک کا ساتھ دینے والے اکثر مسلمان ہی تھے۔ (تحریک آزادی اور مسلمان : ۱۶۹)

جس سال جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی وحشت وبربریت نے نہتے جلسے میں شرکت کرنے والے عوام کے خون سے ہولی کھیلی تو اسی سال یعنی ۱۹۱۹  ؁ ء میں مسلمانوں نے خلافٹ کمیٹی قائم کی اور اسے اپنے جذبات کے اظہار کے لئے فارم بنایا، یہ تحریک طوفان کی طرح ابھر ی اور آندھی کی طرح بڑھی اور سیلاب کی طرح پھیلی، اس کے رہنمابجلی کی طرح کڑکے اور رعد کی طرح گرجے، اس کی وجہ سے پورے ملک میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک انگریزی حکومت کے خلاف نفرت وحقارت اور غم وغصہ کی ایک تیز لہر چل پڑی، اس تحریک کو دو عظیم المرتبت اور قدآور رہنما مل گئے، مولانا محمد علی، مولانا شوکت علی، سیاسی تاریخ میں یہ دونوں علی برادران کے نام سے مشہور ہیں، ان کی گرم قیادت نے مسلمانوں کے دلوں میں آتش سیال بھردی، ان کی قومی، ملی غیرت وحمیت کی رگوں میں گرم خون دوڑنے لگا جو ۱۸۸۷  ؁ ء کے بعد ہونے والے مظالم اور کربناک سزاؤں کی وجہ سے رگوں میں منجمد ہوگیا تھا،خلافت کا مسئلہ خاص مسلمانوں کا ذاتی مسئلہ تھا، لیکن اس کے دور رس اثرات کی وجہ سے گاندھی جی نے بھی اس کی تائید کی اور اس طرح ہندومسلم اتحاد کا مظہر ہندوستانیوں کو دیکھنے کو ملا، پورے ملک میں خلافت تحریک اس طرح چھا گئی کہ اس کے فلک شگاف نعروں کے سامنے دوسری کوئی آواز دور دور تک سنائی نہیں دیتی تھی، غرضیکہ خلافت تحریک ایک زلزلہ افگن اورہولناک طوفان کی طرح ہندوستان میں ابھری، مسلمانوں میں غیرت وحمیت کا جاگ اٹھی اور مادر وطن کی حرمت وعزت بچانے کے لئے سرسے کفن باندھ کر جدوجہد آزادی کے میدان میں اتر چکے تھے، انگریزوں کے اسکولوں اور ان کی کچہریوں کا بائیکاٹ کیا گیا، ہر گاؤں میں الگ پولیس، پڑھانے کا نظم اور پنچایتیں قائم کی گئیں۔

اسی ۱۹۱۹  ؁ ء میں مسلمانوں کی اور تحریک اور جماعت وجود میں آئی جو جنگِ آزادی میں مسلمانوں کی قیادت ورہنمائی کی ذمہ داری سنبھالنے لگی، اس کا نام ’’جمیعۃ علماء ہند‘‘ رکھاگیا، اس کے بانی وہی علماء اکرام کے سرخیل جماعت تھی جنہوں نے شروع ہی سے تحریک آزادی کو اپنا مقصد حیات بنایا ہوا تھا، مفتی کفایت اللہ صاحب، مولانا ثناء اللہ امرتسری، مولانا احمد سعید دہلوی، مولانا داؤود غزنوی، مولانا محمد صادق کراچی، مولانا آزاد سبحانی ے مولانا عبد الباری فرنگی محلی لکھنوی وغیرہ نے اس تحریک کو پروان چڑھایا، بدیسی مال کا بائیکاٹ کیا اور دیسی کپڑے کا رواج دیا، اس سلسلہ میں جوش وجذبہ کا یہ عالم تھاکہ چوراہوں پر ولایتی کپڑوں کے انبار لگاکر ان میں آگ لگادی جاتی تھی اور لوگ اپنے کپڑے اتار اتار کراس آگ میں جھونکتے تھے۔

ان تحریکوں نے سیاسی شعور اور عوامی بیدار کی وہ لہر پیدا کی تھی کہ اس سے قبل یہ دیکھنے میں نہیں آئی، یہ سیاسی بیداری آگے چل کر بڑھتی ہی رہی، بیس برس کے بعد ۱۹۴۲  ؁ ء میں ہنگامہ خیز داستان پر جاکر پایۂ تکمیل کو پہنچی، جس نے برطانوی حکومت کو اس قدر خوف زدہ کردیا کہ لند ن سے پے درپے مشن آنے لگے اور مسلمانوں کے غصہ کو ٹھنڈا کیا جانے لگا، ہندوستان میں ابھی تک تعلیم یافتہ اور اونچا طبقہ تھرتھراتے ہونٹوں اور لڑکھڑاتے ہونٹوں کے ساتھ آزادی کی بھیک مانگ رہا تھا، ان تحریکوں نے ہندوستانیوں کے تیور بدل دیئے، اس نے غیرت وخودداری کا جوہر پیدا کردیا، تحریک خلافت کے بعد محمد علی نے انگریزوں کے پایۂ تخت، لندن میں گرج کر کہا تھا۔

’’میں غلام ہندوستان میں واپس نہیں جاؤں گا، میں یہاں سے اس وقت لوٹوں گاجب میرے ہاتھ میں ہندوستان کی آزادی کا پروانہ نہ ہوگا اور اگر تم مجھے آزادی کا پروانہ نہیں دے سکتے تو میرے لئے اسی سرزمین میں ایک قبر کی جگہ تو دینی ہی پڑے گی‘‘یہ کامل آزادی کا پہلا نعرہ تھا، محمد علی جوہر اور خلافت تحریک کے رہنماؤں نے مرعوبیت اور خوف ودہشت کے اس دور میں نعرۂ حق بنلد کر کے ہندوستانیوں کے دلوں میں حریت وآزادی، جرأت وبیباکی کی آتشِ سیال بھردی تھی اور یہ جوش وجذہ کی آگ اس وقت تک دہکتی رہی جب تک کہ ۱۵؍اگست ۱۹۴۷  ؁ ء کو حریت وآزادی کا ابرنیساں ہندوستان پر ٹوٹ کر نہ برسا ؛ اس لئے کہا جاتا ہے کہ ۱۹۲۵  ؁ ء تک جدوجہد آزادی کی جرأتمندانہ قیادت مسلمانوں کے ہاتھ میں رہی اور پورا ہندوستان اس کے پیچھے چل رہاتھا، لیکن ۱۹۴۰ ؁ ء کے بعد مسلمانوں کی جدوجہد آزادی کی تاریخ میں فرقہ وارنہ منافرت اور محاذ آرائی کے اضافہ نے( جس میں کچھ تو انگریز کی سازش اور کچھ بردران وطن کی ناعاقبت اندیشی اور کچھ خود مسلمانوں کی خودسری)ان کی خدمات کے روشن بات کو دھندلا کردیا، ان کے کارناموں کی تابناکی ماند پڑگئی، ان کی سیادت وقیادت کا آفتاب گہن میں آگیا، ایک طرف تو پاکستان کا فلک شگاف نعرہ لگانے والے تھے تودوسری طرف نیشنلسٹ مسلمانوں کا طبقہ تھا جو پوری دلسوزی اور درمندی کے ساتھ اس تحریک کے جلو میں آنے والے تباہیوں اور بربادیوں پر انگلی رکھ رکھ کر اس اس طلسم سامری میں گرفتار ہونے سے روک رہا تھا۔ (تحریک آزادی اور مسلمان )

بہر حال جنگِ آزادی کے تمام مراحل میں مسلمانوں کے کردار کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، مسلمانوں نے ہر موقع پر آزادی ہند کے لئے اپنی جانی اورمالی ہر طرح کی قربانی پیش کرنے سے باکل دریغ نہیں کیا ؛ لیکن جب ہندوستان آزاد ہوا، تو اب یہ کہا جارہے کہ ہندوستان مسلمانوں کا نہیں، پھل تو کوئی اور لگائے اور اس کا پھل کوئی اور کھائے کے مصداق آج ہندوستان کا مسلمان اپنے ملک میں اپنے حق کو مانگنے پر مجبور ہے، جدوجہد آزادی کی اس مختصر تاریخ کو اس لئے بیان کیا گیا کہ مسلمانوں کو یہ پتہ چلے کہ آزادیٔ ہند کی جدوجہد میں مسلمانوں کا کردا ر برادران وطن کے مقابلہ میں بہت اونچا اور بہت شاندار ہے، وہ اپنے حقوق کے مطالبہ کے لئے کسی بھی طرح پش وپیش نہیں کریں گے، اپنے ملک میں کھلی آزادی کے ساتھ برابر اپنے آئینی حقوق کا مطالبہ کرتے ہوئے جیئے گے ؛ لیکن ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہندوستان کی آزادی کو ۶۵؍ سال کا عرصہ ہوچکا ہے ؛ لیکن مسلمانوں کوآج تک اس ملک میں برابر کے حقوق نہیں دیئے گئے ؛ بلکہ ان کو ہمیشہ یکاوتنہا کرنے کی کوشش کی گئی، کچھ فرقہ وارنہ جماعتوں نے تو ان پر دہشت گردی وغیرہ کے الزامات کے ذریعہ ان کو اپنے ملک میں خوف زدہ کرنا شروع کردیا یا تو تاریخ پر صحیح نظر نہ ہونے کی وجہ سے وہ یہ مسلمانوں کے یہ ساتھ سوتیلا سلوک کرتے ہیں، یا ان کے دل میں پوشیدہ تعصب اوفر فرقہ واریت کازہر ہے جو وہ مسلمانوں کے خلاف اگلتے رہتے ہیں۔ اس شعر کے مصداق اس وقت مسلمانوں کی حالت کر دی گئی ہے۔

جب پڑا وقت گلستان پہ تو خون ہم نے دیا

جب بہار آئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

تبصرے بند ہیں۔