آغوش سے انجمن تک: کامران غنی صباؔ

مشتاق سیوانی

        اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ماں کی آغوش وہ پہلا مدرسہ ہے جہاں بچے کی پرورش کے ساتھ ساتھ تعلیم و تربیت بھی ہوتی ہے۔اسلام کی مثالی اور پاکباز مائیں جن کا ذکر تاریخ کے صفحات پر مرقوم ہے۔ان کے بطن سے خالد بن ولید، محمد بن قاسم، صلاح الدین ایوبی اور ٹیپو سلطان جیسے بے شمار مردان حق جنم لئے وہیں ان کی کوکھ سے سعدی، شیرازی، جامی، رومی اور خسرو جیسی فقیدالمثال شخصیات علم وادب بھی پیدا ہوئیں۔

        ایک ذی شعور اور ذمہ دار ماں کی یہ کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ بچے کے اندر وہ تمام دینی وعصری علوم وفنون آجائیں جن کی ضرورت زندگی کے ہر قدم اور مقصد حیات کے تمام شعبہ جات میں پیش آتی ہیں ! دینی، ادبی،تعلیمی،سماجی، سیاسی، معاشی کو ئی بھی شعبہ ہو بغیر علم کے داخلہ ناممکن اور زندگی بے مقصد ہے۔

        اللہ کاشکرہے کہ کامران غنی صباؔایک ایسی پاک سیرت، نیک طینت بلند ہمت اور ذی شعور ماں کے فرزند سعید ہیں جو معروف بزرگ پروفیسر وحکیم سید شاہ علیم الدین بلخی، ندوی سجادہ نشیں خانقاہ بلخیہ فردوسیہ (فتوحہ) سابق پرنسپل گورنمنٹ طبی کالج پٹنہ کی بیٹی ہیں۔

        جالان ہائی اسکول پٹنہ میں بحیثیت اسسٹنٹ ٹیچر درس وتدریس پر مامور سلمیٰ بلخی کو دوران ملازمت اپنے ہونہار اور سعادت مند بیٹے کا مران کو اپنے ساتھ رکھنے کا زیادہ موقع ملا۔ اسکول سے لے کر گھر تک کے علمی وتدریسی ماحول وادبی فضا میں ماں کی خصوصی نگہداشت میں کامران غنی صباؔکی پرورش ہوئی۔ ابتدائی تعلیم ماں کے ذریعے ہوئی اور فارسی کی ابتدائی کتابیں انہوں نے اپنے نانا شیخ علیم ا لدین بلخی ندوی سے پڑھیں۔ ماں کی کوشش ومحنت اور نانا کی توجہ و شفقت نے کامران کو نہایت ہی ذہین وفطین اور عمر کے بچوں میں ممتاز بنادیا۔کامران نے بچپن ہی میں اقبال، داغ، غالب، حالی، میر تقی میر کے اشعار یاد اور شکوہ جواب شکوہ از بر کر لئے تھے۔ چونکہ کامران نے عظیم آباد کے ایک علمی وادبی خانوادے میں آنکھیں کھولی تھیں۔ اس وقت کے ایک عالم دین، مشہور بزرگ اور قابل صداحترام شاعر مولانا اسمٰعیل شمسی روح نے ان کا نام کامران رکھا تھا جس نام کے مثبت اثرات نے کامران غنی کو مکمل کامران بنا دیا۔

        کامران غنی صباؔ کو شاعری وراثت میں، ذہانت صحبت میں اور خوبیاں نسبت میں ملیں۔ کیونکہ انہیں پروفیسرو حکیم شیخ علیم ا لدین بلخی ندوی، فردوسی کے دست حق پرست پر سلسلۂ فردوسیہ میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہے۔ یہ سلسلہ جلیل القدر مشائخ و اولیائے کرام اور سادات عظام سے ہوتے ہوئے مولائے کائنات امیر المومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ ا لکریم تک پہنچتا ہے۔ جن کو شہنشاہ کون ومکاں ومعلم کائنات نے ’’باب علم‘‘ کہا ہے۔ اس طرح بزرگوں کی نسبت اور فیض وبرکت نے کامران کی زندگی کو روشن وتابناک بنا دیا۔ انہوں نے اپنی ابھی تک کی مختصر سی عمر میں اپنی ذہانت وفطانت، فہم وفراست، محنت و مشقت سے علم و ہنر اور شعر وادب کے جوراستے طئے کئے ہیں اس کی نظیر اس دور میں دور دور تک نہیں ملتی۔

        شاعری، صحافت، درس وتدریس، تخلیق و تحقیق کے ساتھ ساتھ خدمت خلق کا جذبہ بھی ان کے سینے میں بدرجۂ اتم موجود ہے۔ نام کے غنی اور اخلاق کے دھنی کا مران انسانیت کی خدمت کو عبادت کے زمرے میں شمار کرتے ہیں۔ اعلیٰ وبہتر انسان وہی ہے جس کا اخلاق اعلیٰ ہے۔ لہٰذا اخلاق وکردار کے اعتبارسے بھی کامران کی ایک الگ پہچان ہے۔

        شعروسخن کے موضوعات پر جب ان کا قلم چلتاہے تو لفظوں کے موتی بکھرتے ہیں، شعروادب کے چراغ روشن ہوتے ہیں مگر جب ظلم ونانصافی کے خلاف لکھتے ہیں تو نوک قلم سے آگ کی چنگاریاں نکلتی ہیں۔ ان کی علمی وادبی خدمات وغیرمعمولی صلاحیت کو دیکھتے ہوئے آن لائن اردو اخبار اردو نیٹ جاپان کے مدیر ا علیٰ ناصر ناکاگاواہ نے انہیں ہندوستان میں اردو نیٹ جاپان کا بیورو چیف مقرر کیا بعد ازاں ان کی خدمات کو نظر میں رکھتے ہوئے اردو نیٹ جاپان کامدیر اعزازی برائے ہندوستان بنا دیا گیا اور 2011ء میں اردونیٹ جاپان کی طرف سے انہیں نوجوانوں کا بہترین نمائندہ قلم کار منتخب کیا گیا اور ایوارڈ حاصل کرنے کے لئے جاپان کے شہر کوشی مدعو کیا گیا لیکن دفتری وجوہات کے سبب جاپان نہیں جاسکے۔

        کامران غنی صباؔ ایک مہذب ودیندار، خوش خلق وخوش گفتار، مؤدب وسلیقہ شعار، ذہین و تیز طرار، درویش صفت انسان ہیں۔ چہرے پر معصومیت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ کھلتی رہتی ہے، ایک بار جو ان سے ملتا ہے ایسا متاثر ہوتا ہے کہ ان کا دیوانہ ہوجاتاہے اور یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی ان کے دیوانوں اور مداحوں کی کثیر تعداد ہے۔ ان کی غزلیں ونظمیں برصغیر کے اخبارات ورسائل چھپتی رہتی ہیں۔

        ان کی غزلوں میں روایت اور جدت کا حسین امتزاج ہے۔ اشعار میں کہیں تغزل کا رنگ ہے توکہیں فکری انقلاب کی گرمی بھی ہے۔ تعمیری ذہن اور اسلامی نظریات کے اس جواں سال شاعر نے صنف سخن کے تمام موضوعات پر قلم چلایا۔ نعت، نظم، غزل سب پر طبع آزمائی کی اور اپنی صلاحیت کا لوہا منوایا۔ نظمیں کہنے پر خاص دسترس حاصل ہے۔ ان کی ایک نظم بعنوان ’’مجھے آزاد ہونا ہے‘‘ اندرو ن ملک و سرحد پار بھی بہت پسند کی گئی۔ اس نظم پر علم وادب کے اکابرین نے بے شمار مضامین لکھے اور ان کی شعری وتخلیقی صلاحیت کو سراہا۔

        ان کے اشعار سے آمد کی کیفیت کا پتا چلتاہے۔ نمونے کے طور پہلے ان کے نعتیہ اشعار پیش کررہا ہوں۔ عشق رسول اور حب نبی کی والہانہ کیفیات جب آرزوئوں کے حسیں گلستاں کی سیر کرتی ہیں تو اس طرح کے شعر تخلیق پاتے ہیں۔

سجدۂ شوق کو اورکیا چاہئے

اپنے محبوب کا نقش پا چاہئے

کاش ایسا ہو میدان محشر میں وہ

 پوچھ لیں اُسے صباؔ تجھ کو کیا چاہئے

ان کی ایک غزل کا مطلع اور ایک شعر الگ الگ رنگ میں دیکھیں   ؎

ہر شخص ہے کیوں لرزہ براندام مری جاں

وہ کیا ہے کوئی غازی اسلام مری جاں

لازم نہیں لفظوں سے ہی اظہار وفا ہو

 آنکھیں بھی سنا دیتی ہیں پیغام مری جاں

توکل اور خودداری کا جذبہ جب انگڑائیاں لیتا ہے تو اس طرح کے اشعار بھی وجود میں آتے ہیں   ؎

کبھی زمیں تو کبھی آسماں سے بولتاہے

 وہ اپنے درد کو سارے جہاں سے بولتاہے

میں اعتبار کروں کیسے اس کی باتوں پر

وہ شخص اور کسی کی زباں سے بولتاہے

عشق ومحبت، ہجر وفراق کا تذکرہ اکثر شعراء کے یہاں ملتاہے لیکن کامران غنی صباؔ کا اپنا تجربہ دیکھیں   ؎

درد جس دل میں نہ ہو اس دل کی حقیقت کیسی

ہجر کا غم ہی نہیں ہو تو محبت کیسی

کتنا سمجھایا تھا اس عشق سے باز آجائو

اب اگر ٹوٹ گئے ہو تو شکایت کیسی

عشق کا انجام معلوم ہے مگر معشوق کے گیسوورخسار کا اسیر کرے تو کیا کرے۔ خود کامران ہی سے سنئے   ؎

میں اسے کیسے بھول پائوں گا

وہ مجھے کیسے بھول پائے گی

پھر بھی کوشش یہ ہے کہ چوٹ کھائے ہوئے دل اور محبوب کے درمیان کے تمام راز پوشیدہ رہیں۔

اب نام کیا بتائوں کہ غم کس کا ہے صباؔ

آنکھیں مری ضرور ہیں آنسوپرائے ہیں

یہاں اپنے جواں عزم کے ساتھ بلا خوف وخطر راہ عشق ووفا کا سفر طے کرنے والا شاعر اپنے جذبے کا اظہار یوں کرتاہے   ؎

احسان ناخدا کا اٹھاتے کہاں تلک

لے کر خدا کا نام بھنور میں اترگئے

قاتل بھی ہم کو دیکھ کر حیران رہ گیا

مقتل میں سر کے بل گئے اور بے خطر گئے

الزام تیرگی کے سدا اس پر آئے ہیں

جس نے چراغ اپنے لہوسے جلائے ہیں

 حیراں ہیں وہ بھی وسعت پرواز دیکھ کر

جس نے ہماری فکر پر پہرے بٹھائے ہیں

        یہاں حقیقت سامنے آگئی اور سچائی ظاہر ہوگئی۔ آخری شعر میں شاعرنے اپنی فکر کی وسعت پرداز پر پہرے بٹھانے والوں کو حیران ہی نہیں کیا بلکہ یہ ثابت کردیاکہ جن کی نیت میں اخلاص، ارادے میں استحکام اور عزم میں پختگی ہوتی ہے وہ اپنی منزل پر پہنچ کر ہی دم لیتے ہیں۔

        مجھے امید ہی نہیں یقین کامل ہے کہ آغوش سے ا نجمن تک کا کامیاب سفر طے کرنے والے کو آفاق تک کے سفر میں کوئی دشواری پیش نہیں آئے گی۔

تبصرے بند ہیں۔