’آپ بیتی علامہ اقبال‘ کا ایک ورق

عبدالعزیز

1918ء:  ایک شخص نے بیان کیا کہ خواجہ حسن نظامی صاحب نے یہ مشہور کر رکھا ہے کہ ’اقبال نے اپنی ٹوپی ہمارے قدموں میں رکھ کر ہم سے معافی مانگی ہے اور آئندہ کیلئے توبہ کی ہے‘۔ میں نے انھیں یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنت ہے، اقبال ان کے قدموں پر ٹوپی کیا سر رکھنے کو تیار ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو دنیا تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتا ہے لیکن جو بات خواجہ حسن نظامی کی طرف سے منسوب کرتے ہو تو اس کے لغو ہونے میں کوئی شبہ نہیں ۔

حیدری صاحب تو اقبال کو بلاتے بلاتے رہ گئے۔ یونیورسٹی کے کاغذات ان کی طرف سے کبھی کبھی آجاتے ہیں کہ یہیں سے مشورہ لکھوں ۔ اُدھر سے مولوی عبدالحق صاحب اصطلاحاتِ علمیہ کی ایک طویل فہرست ارسال کرتے ہیں کہ ان کے تراجم اردو پر تنقید کرو؛ گویا ان بزرگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ اقبال کا کوئی اور کام نہیں ۔

 ٭ پرسوں رات خواب میں دیکھا کہ …[شاد] کی طرف سے ایک والا نامہ ملا ہے، جس کی ہیئت و صورت ایسی ہے جیسے کوئی خریطہ شاہی ہو۔ تعبیر اس خواب کی تو معلوم نہیں مگر خواب کو امر واقعہ سمجھ کر اس خریطہ کا جواب لکھتا ہوں ،گو مضمون خریطہ کا اب ذہن سے اتر گیا ہے۔ شاد کی طرف سے اقبال کو شاہی خریطہ آئے، یہ بات خالی از معنی نہیں ، انتظار شرط ہے اور اللہ کی رحمت ہمارے خیالوں سے وسیع تر ہے۔ حضور نظام علی گڑھ تشریف لے گئے تھے، وہاں نواب اسحاق خاں صاحب، سکریٹری [اینگلو محمڈن] کالج [علی گڑھ] کا تار بھی آیا تھا کہ حضور کے خیر مقدم میں چند اشعار یہاں آکر پڑھو۔ یہ ایک بہت بڑی عزت تھی مگر افسوس کہ علالت نے مجھے اس سے محروم رکھا۔ امید تھی کہ … [شاد] بھی ان کے ہمراہ تشریف لائیں گے مگر یہ امید بھی پوری نہ ہوئی۔ کیا عجب کہ ایک ہی وقت میں بہت سی امیدیں پوری ہوجائیں ۔

سنا ہے کہ داتا گنج بخش کی درگاہ میں آج کل کوئی بہت روشن ضمیر بزرگ قیام رکھتے ہیں ، ان سے ایک سوال کا جواب چاہتا ہوں ۔ سوال یہ ہے کہ ’جب مسلمانوں سے یہ وعدۂ ایزدی ہے کہ وہ اقوام عالم میں سرفراز اور سربلند ہوں گے تو آج کل یہ قوم اتنی ذلیل و خوار کیوں ہے‘۔ [پھر یوں ہوا کہ] آج صبح میں یہیں بیٹھا تھا کہ علی بخش نے آکے اطلاع دی کہ کوئی درویش صورت آدمی ملنا چاہتا ہے۔ میں نے کہا ’بلالو‘۔ ایک درویش صورت اجنبی میرے سامنے خاموش آکھڑا ہوا۔ کچھ وقفے کے بعد میں نے کہا ’فرمائیے؛ آپ کو مجھ سے کچھ کہنا ہے‘۔ اجنبی بولا ’ہاں ؛ تم مجھ سے کچھ پوچھنا چاہتے تھے۔ میں تمہارے سوال کا جواب دینے آیا ہوں ‘۔ اور اس کے بعد مثنوی [مولانا روم] کا مشہور شعر پڑھا  ؎

گفت رومی ہر بنائے کہنہ کا باداں کنند

تو ندانی اوّل آن بنیاد را ویراں کنند

 چند لمحوں کیلئے مجھے قطعی اپنے گرد و پیش کا احساس جاتا رہا۔ ذرا حواس ٹھکانے ہوئے تو بزرگ سے مخاطب ہونے کیلئے دوبارہ نظر اٹھائی، لیکن وہاں کوئی بھی نہ تھا۔ علی بخش کو ہر طرف دوڑایا لیکن کہیں سراغ نہیں ملا۔

  انگلستان کے پروفیسر نیکلسن جنھوں نے ’دیوانِ شمس تبریزؒ‘ کا انگریزی ترجمہ کیا ہے، (کشف المحجوب حضرت علی ہجویریؒ کا بھی انہی بزرگ نے انگریزی ترجمہ کیا ہے) مجھ سے ’اسرارِ خودی‘ کا انگریزی ترجمہ کرنے کی اجازت چاہتے ہیں مگر کوئی نسخہ اس مثنوی کا ان کے پاس نہیں ۔ سوائے ایک نسخہ کے، جس پر میں نے بہت سی ترمیم کر رکھی ہے، جو دوسرے ایڈیشن کیلئے ہے۔

مجھے رونا آگیا کہ جس قوم کے دل میں احساسِ خودی پیدا کرنے کیلئے میں نے یہ کتاب لکھی تھی، وہ نہ تو پوری طرح اس کا مطلب سمجھ سکتی ہے اور نہ اس کی قدر کرسکتی ہے۔ دوسری طرف ولایت والوں کا یہ حال ہے کہ وہ میرے پیغام کو اپنے ملک کے لوگوں تک پہنچانا چاہتے ہیں ، حالانکہ یہ کتاب میں نے ان کیلئے نہیں لکھی۔

اس مثنوی کا دوسرا حصہ ’رموزِ بے خودی‘ زیر طبع ہے، فروری یا مارچ میں شائع ہو جائے گا۔ تیسرے حصے کا بھی آغاز ہوگیا ہے، یہ ایک قسم کی نئی ’منطق الطیر‘ ہوگی۔

 ایم اے کا زبانی امتحان لینے کیلئے الہ آباد جانے والا ہوں اور یہ ممتحنی میں نے اس واسطے قبول کرلی کہ مولانا اکبر کی زیارت کا بہانہ ہوجائے گا، مگر مولانا اکبر کے خط سے معلوم ہوا کہ وہاں پلیگ (طاعون)زوروں پر ہے۔ والد مکرم نے جو چند روز ہوئے، یہاں تھے، یہ خط دیکھ کر مجھے الہ آباد جانے سے روک دیا۔ دہلی جانے کا قصد تھا مگر وہاں بھی نہ گیا۔

 مثنوی ’رموزِ بے خودی‘چھپ کر تیار ہے۔ مولانا ابوالکلام نے میری اس ناچیز کوشش کو بہت پسند فرمایا ہے۔ [دوسری طرف] ’اسرارِ خودی‘ کا دوسرا ایڈیشن تیار کر رہا ہوں ۔ [تاہم] میرا قصور شاعری سے شاعری نہیں بلکہ یہ کہ اوروں کے دلوں میں بھی وہی خیالات موج زن ہوجائیں ، جو میرے دل میں ہیں اور بس!

یہ بات انصاف سے بعید ہے کہ میں …[سردار بیگم] کا زیور لے کر …[آفتاب اقبال] کی تعلیم پر صرف کردوں جس سے نہ اسے کچھ توقع ہوسکتی ہے، نہ مجھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنا زیور اس خیال سے نہیں دیتی کہ کل کو اسے اس کا معاوضہ ملے گا بلکہ وہ محض اس غرض سے دیتی ہے کہ مجھ پر کوئی شخص حرف گیری نہ کرے؛ لیکن اگر کوئی شخص مجھ پر حرف گیری کرے تو اس کا مطلب صرف اس قدر ہے کہ وہ شخص مجھ سے ناخوش ہے۔ برخلاف اس کے ناانصافی میں خدا اور رسولؐ کی ناخوشی ہے، جس کا برداشت کرنا میری طاقت سے باہر ہے۔ باقی رہے وہ لوگ جو مجھ سے مدد چاہتے ہیں ؛ افسوس ہے کہ وہ اسے احسان نہیں جانتے بلکہ قرض تصور کرتے ہیں ۔ میں نے پینتیس روپئے ماہوار اس کم بخت …[آفتاب اقبال] کو دیئے تھے اور کالج کے اور لڑکوں سے اخراجات کے متعلق دریافت کرکے یہ رقم مقرر کی تھی مگر آج تک ہر شخص کے پاس یہی رونا رویا جاتا ہے کہ خرچ ناکافی ملتا ہے۔ ان کو مد د دینا، نہ دینا برابر ہے۔ شیخ گلاب دین صاحب کو بھی اس نے خط لکھا تھا مگر انھوں نے اسے یہ جواب دیا ہے کہ حالات مجھے معلوم ہیں ، اس واسطے میں ڈاکٹر صاحب سے اس بارے میں گفتگو نہیں چاہتا۔ گزشتہ سالوں میں بھی وہ لوگ [کریم بی بی اور آفتاب اقبال] اپنی شرارتوں سے باز نہیں آئے،مگر باوجود ان تمام باتوں کے میں اسے مدد دیتا مگر اس وقت مشکلات کا سامنا ہے۔ جنگ کی وجہ سے آمدنیاں قلیل ہوگئی ہیں اور یہ شکایت کچھ مجھی کو نہیں ، اوروں کو بھی ہے اور وہ پچاس روپئے ماہوار اس طرح مانگتے ہیں جیسے میں مقروض ہوں اور وہ قرض خواہ۔ میں نے …[آفتاب کو] مشورہ دیا تھا کہ وہ کہیں ملازمت کرلے اورکچھ کمانے کے قابل ہوجائے کہ بی اے کے امتحان کی اب وہ وقعت نہیں رہی جو پہلے تھی۔

میں نے تجربے سے دیکھا ہے کہ جو لڑکے انٹرنس یا ایف اے پاس کرکے ملازمت کرتے ہیں ، وہ بی اے، ایم اے پاس کرنے والوں سے بہتر رہتے ہیں مگر اس نے مشورے پر عمل نہیں کیا اور کالج میں داخل ہونے کیلئے دہلی چلا گیا، پھر بھی مجھے کچھ اعتراض نہیں ۔ بہتر ہے کہ اس کی والدہ اپنا نقرئی و طلائی سرمایہ اس کی تعلیم پر خرچ کرے۔ کم از کم اس کا وہ حصہ خرچ کردے، جو اس نے میرے ماں باپ سے لیا ہے، اپنے ماں باپ کا خرچ نہ کرے اور اگر کچھ عرصے بعد میرے ہاتھ میں روپیہ آگیا تو میں اسے ایک مشت بارہ سو روپئے دے دوں گا۔

  گزشتہ دس سال کے عرصے میں بیس پچیس ہزار میرے ہاتھوں میں آیا ہے مگر یہ سب اپنے اپنے موقع پر مناسب طور پر خرچ ہوا، جس کیلئے اللہ تعالیٰ کا شکر ہے، تاہم اس وقت تک میں ایک عمدہ مکان کرایے پرنہیں لے سکا، نہ مکان کیلئے فرنیچر اور سازو سامان خرید سکا ہوں ، نہ عمدہ گاڑی گھوڑا خرید سکا ہوں ۔ یہ سب لوازمات اس پیشے [وکالت] کے ہیں ۔ اب میں نے تہیہ کرلیا ہے کہ جس طرح ہوسکے، یہ لوازمات بہم پہنچائے جائیں ۔ اب حالات اس قسم کے پیدا ہوگئے ہیں کہ ان کا بہم پہنچانا لازم اور ضرور ہے۔ میں نے اپنے دل میں عہد کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ مجھ پر فضل کرے تو اپنی نظم و نثر سے کوئی مالی فائدہ نہ اٹھاؤں گا کہ یہ ایک خداداد قوت ہے، جس میں میری محنت کو دخل نہیں ، خلق اللہ کی خدمت میں اسے صرف ہونا چاہئے مگر ضروریات سے مجبور ہوکر مجھے اس عہد کے خلاف کرنا پڑا۔

پنجاب یونیورسٹی میں اب فارسی میں ایم اے کا امتحان بھی ہوا کرے گا۔ میں اس کیلئے کورس تجویز کر رہا ہوں ۔ میرا ارادہ ہے کہ اس امتحان میں ایک پرچہ ہندستان کے فارسی شعرا کا ہو۔

کل رمضان کا چاند یہاں دکھائی دیا، آج رمضان المبارک کی پہلی ہے۔ بندۂ روسیاہ کبھی کبھی تہجد کیلئے اٹھتا ہے اور بعض دفعہ تمام رات بیداری میں گزر جاتی ہے۔اس وقت عبادتِ الٰہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    انٹرنیٹ کی دُنیا میں اور بالخصوص فیس بُک پر اقبال کے نام سے بہت سے ایسے اشعار گردِش کرتے ہیں جن کا! اقبال کے اندازِ فکر اور اندازِ سُخن سے دُور دُور کا تعلق نہیں۔ کلامِ اقبال اور پیامِ اقبال سے محبت کا تقاضا ہے، اور اقبال کا حق ہے کہ ہم ایسے اشعار کو ہرگز اقبال سے منسوب نہ کریں جو اقبال نے نہیں کہے۔ ذیل میں ایسے اشعار کی مختلف اقسام اور مثالیں پیشِ کی جاتی ہیں.

    ۔ پہلی قسم ایسے اشعار کی ہے جو ہیں تو معیاری اور کسی اچھے شاعر کے، مگر اُنہیں غلطی سے اقبال سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ ایسے اشعار میں عموماََ عقاب، قوم، اور خودی جیسے الفاظ کے استعمال سے قاری کو یہی لگتا ہے کہ شعر اقبال کا ہی ہے۔ مثالیں

    تندیِ بادِ مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
    یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
    – سید صادق حسین

    اسلام کے دامن میں اور اِس کے سِوا کیا ہے
    اک ضرب یَدّ اللہی، اک سجدہِ شبیری
    – وقار انبالوی

    خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
    نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
    – ظفرعلی خان

    ۔ پھر ایسے اشعار ہیں جو ہیں تو وزن میں مگر الفاظ کے چناؤ کے لحاظ سے کوئی خاص معیار نہیں رکھتے یا کم از کم اقبال کے معیار/اسلوب کے قریب نہیں ہیں۔ مثالیں

    عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی
    یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے گا؟
    سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی
    حشر میں کس سے عقیدت کا صلہ مانگے گا؟
    – نامعلوم

    تِری رحمتوں پہ ہے منحصر میرے ہر عمل کی قبولیت
    نہ مجھے سلیقہِ التجا، نہ مجھے شعورِ نماز ہے
    – نامعلوم

    سجدوں کے عوض فردوس مِلے، یہ بات مجھے منظور نہیں
    بے لوث عبادت کرتا ہوں، بندہ ہُوں تِرا، مزدور نہیں
    – نامعلوم

    ۔ بعض اوقات لوگ اپنی بات کو معتبر بنانے کے لئے واضح طور پر من گھڑت اشعار اقبال سے منسوب کر دیتے ہیں۔ مثلاََ یہ اشعار غالباََ شدت پسندوں کے خلاف اقبال کے پیغام کے طور پر استعمال کئے جاتے ہیں جبکہ اِن کا اقبال سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں

    اللہ سے کرے دور ، تو تعلیم بھی فتنہ
    املاک بھی اولاد بھی جاگیر بھی فتنہ
    ناحق کے لیے اٹھے تو شمشیر بھی فتنہ
    شمشیر ہی کیا نعرہ تکبیر بھی فتنہ
    – نامعلوم

    ۔ اِسی طرح اقبال کو اپنا حمایتی بنانے کی کوشش مختلف مذہبی و مسلکی جہتوں سے بھی کی جاتی ہے۔ مثلاََ

    پوچھتے کیا ہو مذہبِ اقبال
    یہ گنہگار بو ترابی ہے
    – نامعلوم

    وہ روئیں جو منکر ہیں شہادتِ حسین کے
    ہم زندہ وجاوید کا ماتم نہیں کرتے
    – نامعلوم

    بیاں سِرِ شہادت کی اگر تفسیر ہو جائے
    مسلمانوں کا کعبہ روضہء شبیر ہو جائے
    – نامعلوم

    نہ عشقِ حُسین، نہ ذوقِ شہادت
    غافل سمجھ بیٹھا ہے ماتم کو عبادت
    – نامعلوم

    قتل حسین اصل میں مرگ یزید ھے
    اسلام زندہ ھوتا ہےہر کربلا کے بعد۔
    مولانہ محمد علی جوہر
    ۔ پانچواں گروپ ‘اے اقبال’ قسم کے اشعار کا ہے جن میں عموماََ انتہائی بے وزن اور بے تُکی باتوں پر انتہائی ڈھٹائی سے ‘اقبال’ یا ‘اے اقبال’ وغیرہ لگا کر یا اِس کے بغیر ہی اقبال کے نام سے منسوب کر دیا جاتا ہے۔ اِس قسم کو پہچاننا سب سے آسان ہے کیونکہ اِس میں شامل ‘اشعار’ دراصل کسی لحاظ سے بھی شعری معیار نہیں رکھتے اور زیادہ تر اشعار کہلانے کے لائق بھی نہیں ہیں۔ مثالیں

    کیوں منتیں مانگتا ہے اوروں کے دربار سے اقبال
    وہ کون سا کام ہے جو ہوتا نہیں تیرے پروردگار سے؟

    تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کر دیں اقبال
    تُو جُھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے!

    دل پاک نہیں ہے تو پاک ہو سکتا نہیں انساں
    ورنہ ابلیس کو بھی آتے تھے وضو کے فرائض بہت

    مسجد خدا کا گھر ہے، پینے کی جگہ نہیں
    کافر کے دل میں جا، وہاں خدا نہیں

    کرتے ہیں لوگ مال جمع کس لئے یہاں اقبال
    سلتا ہے آدمی کا کفن جیب کے بغیر

    میرے بچپن کے دِن بھی کیا خوب تھے اقبال
    بے نمازی بھی تھا، بے گناہ بھی

    وہ سو رہا ہے تو اُسے سونے دو اقبال
    ہو سکتا ہے غلامی کی نیند میں وہ خواب آزادی کے دیکھ رہا ہو

    گونگی ہو گئی آج زباں کچھ کہتے کہتے
    ہچکچا گیا میں خود کو مسلماں کہتے کہتے
    یہ سن کہ چپ سادھ لی اقبال اس نے
    یوں لگا جیسے رک گیا ہو مجھے حیواں کہتے کہتے

    تحریر: ابن منیب

تبصرے بند ہیں۔