نداے دشتِ جنوں کا یہ پاس کیسا ہے

عرفان وحید

نداے دشتِ جنوں کا یہ پاس کیسا ہے

درونِ شہر کوئی بے لباس کیسا ہے

فضا میں کس نے یہ نفرت کا زہر گھول دیا

ہرا بھرا تھا شجر، بے لباس کیسا ہے

کہ کھل رہا ہے دمادم طلسمِ ہست و نبود

فریبِ ذات قرینِ قیاس کیسا ہے

خبر جو دیتا تھا اچھے دنوں کی روز ہمیں

کہو، وہ اپنا ستارہ شناس کیسا ہے

دیے ہیں جس نے زمانے کو بار بار فریب

وہ شخص اب بھی زمانے کو راس کیسا ہے

اگر یہ دعوٰی ہے کہ عرفاں کو جانتا ہی نہیں

ہمارے ذکر پہ وہ بدحواس کیسا ہے!

تبصرے بند ہیں۔