آپ سیکھ

شائستہ مسعود

میں اپنی برتھ پر بیٹھا اس عورت کو غور سے دیکھ اور سن رہا تھا جو ٹرین میں گرم کپڑے مسافروں کو بیچ رہی تھی۔ چونکہ اونی کپڑوں کا صنعتی   شہر لدھیانہ آنے والا تھا تو بہت جلدی جلدی اپنا سامان بھی قرینے سے پیک کرتی جا رہی تھی اور ساتھ ہی گراہکوں سے لین دین میں بھی مصروف تھی۔۔۔۔(میری سمجھ میں یہ بات کبھی نہیں آیء کہ اس کڑکڑاتی سردی میں مسافر گھر سے گرم کپڑوں کا انتظام کر کے کیوں نہیں نکلتے۔)چونکہ کافی دیر سے میںاِن کی گفتگو سن رہا تھا تو میں یہ جان گیا تھا کہ خریداروں کا یہ گروپ بہار سے تعلق رکھتا ہے۔ اور ہر چیز کو بڑے نپے تلے انداز میں چیک کر کے بہت ہی کم قیمت خریدنے کی شرط رکھ رہا تھا۔ تقریباً ۵ ۶ گرم سویٹر خریداروں نے الگ کر کے رکھے ہوئے تھے اور کچھ اور بہتر گرم کپڑے تلاش کیئے جا رہے تھے۔ ( شاید اب خاندان کے تحفے بھی خریدنے کی کوشش تھی)عورت کے اندر کمال کا ہنر چھپا ہوا تھا،اور وہ تھا قوت برداشت۔وہ بڑے کاروباری انداز میں اپنی مارکیٹنگ ٹرکس آزما رہی تھی۔ان کی ہر بدتمیزی اور بد تہذیبی کو نظر انداز کر کے سویٹر کی خصوصیات بتائے جا رہی تھی، اس نے بھی جیسے قسم کھائی تھی کہ یہ سویٹر انہیں من چلوں کو بیچنا ہیں۔ ابھی بھی وہ انہیں قائل کرنے کی کوشش کر رہی تھی’ بھائی صا حب ‘ 150 بارا نہیں ہے۔ آپ ہاتھ لگا کے دیکھیں تو کتنا اچھا میٹیریل ہے۔۔بھائی صاحب بھی خوب تھے، جلدی جلدی سارے پیکٹوں پہ نظر دوڑاء اور جب نیلا رنگ نہیں ملا تو کہہ دیا، لیکن ہمیں تو نیلا رنگ چاہئے۔

 عورت نے فوراً اپنے کندھے سے ٹنگا بیگ الٹ دیا اور ایک نیلا سویٹر نکال کے بھائی صاحب کے ہاتھ پے رکھد یا۔پنجابی سوٹ پہنے، چہرے پہ ملاحت لئے  عورت پنجابی تھی۔ اسکا نرم اور شائستہ لہجہ اس بات کی شاندہی کر رہا تھا کہ اس کاروبار میں وہ نئی ہے۔ اس کی آنکھوں میں بے شمار فکریں تیر رہی تھیں۔  روزگار کی فکر سب سے نمایاں دکھائی دے رہی تھی،ورنہ اس کڑکڑاتی سردی میں صبح کے سات بجے اپنے گرم بستر کو چھوڑ کر ، ایک عورت جسے آج بھی ہمارا سماج گھر سنبھالنے کے لئے مخصوص کرتا ہے کیونکر اتنی پریشانی جھیلتی۔ خیر میں نوٹس کر رہا تھا کہ خریداروں کا وہ گروپ بہار سے تعلق رکھتا ہے۔ کافی من چلے قسم کے لوگ تھے۔ بار بار اس عورت کو اپنی من چلی باتوں سے تنگ کر رہے تھے۔ ٹھیک ٹھاک سویٹر کی قیمت وہ محض150 روپے لگا رہے تھے۔میں تو اسے300 میں بھی خرید ہی لیتا۔یہ لیجئے بھائی صاحب۔ صبح کا وقت ہے۔ بونی ہونی ضروری ہے۔آپ بھی انصا ف کی بات کریں۔لینا ہے تو لیں ورنہ میں اگلے گراہک کو دیکھوں۔ ویسے بھی لدھیانہ آنے والا ہے۔ارررے آپ تو ناراض ہو گئیں۔ دوسرے آدمی نے فوراً مداخلت کی۔ آ پ ہمیں دکھائے گا۔ لینا تو ہمیں ہے۔ آپ لال رنگ دکھائے نا، بڑی نرمی سے فرمائش کی گئی۔

  ٹھیک ہے۔ وہ اپنا سامان پیک کرنے میںلگی ہوئی تھی کہ پھر سے اپنا بیگ سائڈ سیٹ پر رکھ کر بیٹھ گئی اور لال رنگ کا سویٹر ڈھونڈنے لگ گئی۔  لال رنگ کے بجائے میرون رنگ کا پیکٹ مل گیا۔ یہ لیجئے بھائی صاحب۔ سویٹر اس آدمی کی طرف بڑھایا گیا۔ ارے یہ تو میرون ہے۔ ہم نے تو لال رنگ مانگا۔آدمی نے بڑے ٹھیٹھ انداز میں کہا۔میرون اور لال رنگ میں کوئی خاص فرق تو ہے نہیں بھائی صا حب۔ دلہن کا جوڑا بھی دونوں ہی رنگوں میں بنتا ہے۔ ایک ہی بات ہے۔ عورت نے فلسفہ جھاڑ دیا۔

ارررے۔۔۔آپکو فرق پتہ نہیں ؟ گراہکوں کو بیوقوف بناؤ گی کیا۔ ویسے آپ کون رنگ پہنی تھیں اپنی شادی میں؟۔ بہاری لہجے میں بڑا ذاتی سا سوال کیا۔ میرا دل چاہ رہا تھا کس کے ایک تھپّڑ جڑ دوں اس آدمی کو۔۔اس کی رنگین مزاجی مجھے سلگائے جا رہی تھی لیکن مداخلت مناسب نہیں تھی۔ ہم دونوں ہی پہنے تھے۔ جواب دیتے ہوئے ہاتھ تیزی سے بیگ پیک کرنے میں مصروف تھے۔ 7/8سویٹر کے پیکٹس ان کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنا بیگ کندھوں سے لٹکایا۔ یہ گن لیں بھائی صاحب۔ پورے ہیں۔جلدی حساب کریں۔200روپے کا ایک پیس ہے۔ جلدی پیسے دیں لدھیانہ بس آنے ہی والا ہے۔ عورت اب بہت جلدی میں تھی۔ارے۔جلدی کاہے کی ہے ِآپکو میڈم ؟ (ایک بات نوٹس کی تھی میں نے،ہمارے سماج میں بھلے عورت ہر چلتے انسان کو بھائی کہہ دے پر بہن جی بہت کم لوگوں کو کہتے سنا ہے !!فیشن کا زمانہ بھی ایسا آیا کہ اب عورتیں بھی بہن جی کے نام پہ ایسے دیکھتیں ہیں جیسے انہیں اپاہچ بنا دیا ہو )

خیر بھائی صاحب نے سارے پیکٹ ایک طرف کرتے ہوئے فرمائش کر دی۔ کاہے کو جلدی ہے۔بیٹھ جائے گا آپ۔ ایک اور شال دکھائے ہمیں۔ عورت نے کمال کی پھرتی سے ایک شال نکالی اور بھائی صاحب کے آگے رکھ دی۔ یی لیجئے 300 سو کی ہے ۔ بڑی گرم ہے۔ نیا ڈیزائن ہے۔ابھی مارکٹ میں آیا بھی نہیں ہے۔

  ہمہم۔ پر ہم تو 200میں ہی لیں گے۔ گرم بھی ہے اور نرم بھی ہے۔ بھائی صاحب کی ِآنکھوں میں رنگینیاں تیر رہی تھیں۔ لیکن وہ عورت قطعی لا پرواہ نظر آنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اور بار بار پھر یاد دلا رہی تھی کہ لدھیانہ آنے والا ہے۔ آپ جلدی پیسے دو۔ مجھے  فیکٹری جا کے حساب دینا ہے صا حب کو۔ لدھیانہ سٹیشن نکل گیا تو بڑی پریشانی ہو گی بھائی صاحب۔ آج بیٹی کی اسکول کی فیس بھی دینی ہے مجھے۔ اس کے ساتھ اسکول بھی جانا ہے۔ باہر دیکھتے ہوئے وہ کھڑی ہو گئی۔ یہ لو پلیٹ فرم آنے والا ہے۔ جلدی پیسے دو۔ ہاتھ آگے کئے وہ کھڑی ہو گئی۔بھائی صاحب نے پھر وہی رٹ لگائی 150 میں لیں گے بس۔

ابھی بھائی صاحب کی بات پوری ہوئی بھی نہیں کہ عورت نے بیگ پٹکا اور کمر پر ہاتھ دھرے بھائی صاحب کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے پنجابی گا لیوں کی وہ ڈکشنری سنا رہی تھی جو بھائی صاحب سمجھ رہے تھے کہ ان گالیوں کا کاپی را ئٹ صرف ان جیسے آدمیوں کا ہے۔ وہ منہ کھولے پھٹی آنکھوں سے اس چھوئی موئی عورت کو دیکھ اور سن رہے تھے۔ ان کے ہاتھ اپنی جیب سے باہر نکالے اور جتنے نوٹ  ہاتھ میں آئے عورت کی طرف بڑھا دئے۔عورت نے پیسے ہاتھ میں لئے اور اپنا حساب کر کے بقایا اس بھائی صاحب کے ہاتھ پے رکھ دئے۔ بس مجھے اسکی آواز سنائی دے رہی تھی، ٹھرکی کہیں کے۔ اس کی چال میں بلا کا اعتماد ابھر آیا تھا۔جو اس کی مارکیٹگ سکلز نے نہیں کیا تھا اس کی فطری دفاعی طریقے نے کر دکھایا تھا۔ اس کے ساتھ والی عورتوں کے ہونٹوں پے مسکراہٹ تھی جیسے اسے اعزاز بخش رہی ہوں۔ اور میں بھی مسکراتے ہوئے اسے پلیٹ فارم کی طرف جاتاسکون سے دیکھ رہا تھا۔

تبصرے بند ہیں۔