تین طلاق کے خلاف قانون سازی کی کوشش فی الحال ناکام

ڈاکٹر مظفرحسین غزالی

طلاق ثلاثہ بل پارلیمنٹ کے ایوان بالا میں آخرکار لٹک ہی گیا۔ بل کا جو حشرہوا،وہ بہت زیادہ خلاف حیرت بھی نہیں ہے۔ویسے یہ تو طے ہے کہ طلاق بدعت کا خاتمہ قانون کی روشنی میں ہوچکاہے کیونکہ سپریم کورٹ 22اگست کو اسے غیر قانونی قرار دے چکا ہے۔ ایک نشست میں تین طلاق کے خلاف فوجداری قانون بنائے جانے کی کوششوں سے کئی خواتین خوش ہیں تو کئی فکرمند، سب کے پاس اپنی دلیلیں ہیں۔ رہا سوال علماء کا تو وہ اپنے مسلک کے ساتھ ہیں۔ نئے قانون کے فائدے ونقصان کی عملی صورت تو اس کے عمل میں آنے کے بعد سامنے آئیں گے، لیکن یہ بل لوک سبھا میں جس جلد بازی میں پاس کرایاگیا اس سے کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔

شریعت کے تحت شادی دو خاندانوں کے دو فریق کے درمیان معاہدے کا نتیجہ ہے۔ اسلام میں عورت ’دان ‘کی چیز نہیں بلکہ اسے سماج میں وہی مقام حاصل ہے جو مرد کودیاگیاہے۔ اس لئے اس کا دوسرے خاندان سے رشتہ معاہدے کی بنیاد پر جڑتا ہے۔عجیب بات ہے کہ مسلم سماج میں نکاح نامہ کی شکل میں معاہدے کا چلن نہیں ہے۔ معاہدے کے نام پر نکاح کی جو رسید ملتی ہے، اس میں گواہ،وکیل کے علاوہ صرف مہر کا ذکر ہوتا ہے۔ اس میں شوہر، بیوی کے حقوق،ساتھ رہنے یا علیحدگی اختیار کرنے کی شرائط اور شوہر کی ملکیت میں حق کا کوئی ذکرنہیں ہوتا۔ شادی کے بعد لڑکی کااپنے والدین یا خاندان سے رشتہ ختم نہیں ہوتا۔ اگر کسی وجہ سے اسے اپنے شوہر سے علیحدہ ہونا پڑتا ہے تو اس کی کفالت اور حفاظت کی ذمہ داری اس کے والدین، اگر والدین نہیں ہیں تو بھائیوں کی یا پھر خاندان کی ہوتی ہے۔ اگر بھائی یا خاندان ان کی کفالت کرنے کی حیثیت نہیں رکھتا تومسلم سماج پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بیت المال سے ایسی خواتین کے وظائف مقرر کئے جاتے ہیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ جس کا سروکار ہی خاندانی معاملات سے ہے، وہ بھی اپنے قیام کے بیس سالوں میں اس طرف توجہ نہیں دے سکا۔ شاید اسی لئے سرکار کو مسلمانوں کے خاندانی معاملات میں دخل دینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔

لوک سبھا میں بل پیش کرتے ہوئے سرکار کی طرف سے کہا گیا کہ سپریم کورٹ کے ذریعہ تین طلاق کو غیر قانونی قراردئیے جانے کے باوجود 100سے زیادہ مسلم خواتین کو طلاق دی جاچکی ہے۔ حد تو یہ ہے کہ فون اور واٹس ایپ پر بھی تین طلاق دینے کا ظالمانہ عمل جاری ہے۔ وزیرموصوف نے کہاکہ مسلم خواتین کے ذریعہ سرکار سے تین طلاق پر سخت قانون لانے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ 22 مسلم اکثریتی ممالک میں تین طلاق کے غیر قانونی ہونے کا ذکر پارلیمنٹ میں کیا گیا۔ کیا ان ملکوں میں طلاق بدعت پر تین سال کی قید کی سزا ہے؟ شائد کہیں بھی نہیں۔ اس لحاظ سے لوک سبھا میں جو بل پیش کیاگیا، اسے سب سے سخت کہیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پارلیمنٹ میں جن 22 ممالک میں طلاق بدعت کے غیر قانونی ہونے اوراسے قانون کے دائرے میں لانے کی بات کی گئی، کیا سرکار نے ان ملکوں کے قانون کا مطالعہ کرایا ہے کہ وہاں قانون کس طرح لاگو ہوتا ہے؟۔ ان ملکوں کے اوپر ہمارے قوانین، حالات میں کیا کوئی یکسانیت پائی جاتی ہے؟ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ سخت سے سخت قانون کی مانگ کرنے والی خواتین کون ہیں ؟ کیا سپریم کورٹ میں مقدمہ لڑنے والی خواتین کی مالی حالت ایسی ہے کہ وہ کپل سبل جیسے وکیل کو کھڑا کرسکیں ؟

سوال یہ ہے کہ سخت قانون سے کیا دنیا میں کوئی جرم رکا ہے؟ اگر قانون سے جرائم رک سکتے تو نربھیاواقعہ کے بعد عصمت دری کے خلاف جو سخت قانون اپریل2013 میں نافذ ہوا، اس کے بعد عصمت دری کے واقعات میں کوئی کمی آئی۔ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کی رپورٹ بتاتی ہے کہ اس قانون کے بعد بھی ہر سال اوسطاً 24923(فی گھنٹہ 26) کیس ہورہے ہیں۔ شکار ہونے والی خواتین میں 7200 نابالغ بھی ہیں، جو زیادہ تر اپنے پڑوسی، خاندانی ملنے والوں یا پھر رشتہ داروں کے ذریعہ ہوس کا شکار بنتی ہیں۔ اسی طرح سڑک ایکسیڈنٹ کا معاملہ ہے۔ قانون کے باوجود اس میں کسی طرح کی کمی واقع نہیں ہوپارہی ہے۔ دنیا سخت قانون کی تھیوری کومستردکرچکی ہے۔ سماجی سائنس دانوں کا ماننا ہے کہ جرائم سماجی سوجھ بوجھ، بیداری اور اصلاح سے ہی رک سکتے ہیں۔

سپریم کورٹ کے ذریعہ تین طلاق کو غیرقانونی قرار دینے کے بعد بھی سوسے زیادہ طلاق کے واقعات پیش آئے تو اس کی جوابدہی سول ایڈمنسٹریشن پر بھی ہونی چاہئے۔ اس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ قانون بن جانے کے بعد طلاق بدعت جیسی برائی ہمیشہ کیلئے ختم ہوجائے گی۔ تین طلاق پر بنے اس قانون کا غلط استعمال نہیں ہوگا۔ پارلیمنٹ میں بھی یہ سوال اٹھا کہ اس قانون کے ذریعہ مسلم مردوں کو پریشان کیا جاسکتا ہے،جس طرح جہیز قانون کا سماج میں غلط استعمال کیاجاتا ہے۔ اس کو لے کر انتظامیہ کا دوہرا رویہ بار بار سامنے آتا رہا ہے۔ اگر گھر کا کمانے والا مرد جیل چلاجائے گا تو پھر عدت کے دوران عورت کا نان نفقہ کون ادا کرے گا؟ اگر یہ شخص گھر کا اکیلا کمانے والا ہوا تو اس خاندان کا گزارا کیسے ہوگا، اس کا جواب کون دے گا۔ اس نئے قانون سے سمجھوتے کے امکانات بھی کم ہوں گے۔فوجداری قانون میں ایک دن کی سزا یا ایک روپیہ جرمانہ بھی تباہ کن ہوتا ہے۔مجرم قرارپاتے ہی ملزم کی سرکاری ملازمت جاتی رہتی ہے اور پاسپورٹ ضبط ہوجاتاہے۔اس لئے طلاق کے سول معاملے کوضابطہ فوجداری کے تحت لانے کی کوششوں کی مخالفت ہورہی ہے۔

قانون کی کامیابی کا انحصار اس پر ہوگا کہ ملک کی ریاستیں اسے کس طرح قبول کرتی ہیں۔ مثلاً تمل ناڈو تین سال کی جیل کے حق میں نہیں ہے۔ تمل ناڈو کے چیف سکریٹری نے وزارت قانون کے سکریٹری کو بھیجے خط میں اس سزا کو ہٹانے کی درخواست کی۔ مرکزی حکومت نے طلاق قانون کے ڈرافٹ پر سبھی ریاستوں سے رائے مانگی تھی، مگر صرف 11 صوبوں سے جواب آیا۔ اتر پردیش، آسام، اروناچل پردیش، گجرات، جھارکھنڈ، منی پور، اتراکھنڈ، مہاراشٹر، چھتیس گڑھ اور مدھیہ پردیش نے اسے لاگو کرنے کی رضامندی دی کہ طلاق بل کے قانون بنتے ہی اسے ہم لاگو کریں گے۔ ان میں میگھالیہ کو چھوڑ کر باقی سبھی صوبوں میں بی جے پی کی سرکار ہے۔77 فیصد مسلم آبادی والی ریاست جموں کشمیر جہاں بی جے پی مخلوط سرکارمیں ہے، بالکل چپی سادھے ہوئے رہی۔ محبوبہ مفتی اس بارے میں کیا کہتی ہیں، اس کا سب کو انتظاررہا۔

اس صورتحال کیلئے مسلمانوں کا ایک طبقہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ذمہ دار مانتا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اگر عورتوں کے حقوق کو لے کر بورڈ نے سنجیدگی دکھائی ہوتی تو یہ نوبت ہی نہیں آتی۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد بورڈ کو مہم چلاکر تین طلاق کی مخالفت کرنی چاہئے تھی نہ کہ یہ کہنا چاہئے تھا کہ کورٹ اس معاملہ میں دخل نہیں دے سکتا۔ پارلیمنٹ قانون بناسکتی ہے۔ کئی لوگوں کو بورڈ میں سیاسی حضرات کی شمولیت سے بھی کسی ان ہونی کا امکان تھا۔

خواتین ریزرویشن کامسئلہ برسوں سے پارلیمنٹ کی توجہ کا منتظر ہے۔ موجودہ حکومت میں اس کے پاس ہونے کی امید کی جارہی تھی۔ اس کے بجائے تین طلاق بل کو پاس کرانے میں اتنی تیزی دکھائی گئی کہ اسے اسٹینڈنگ کمیٹی میں لے جانے کی مانگ کو نظرانداز کردیاگیا۔ اس عجلت کی وجہ وزارت خارجہ میں وزیر مملکت ایم جے اکبر کے اس جملے سے معلوم ہوتی ہے جو انہوں نے بل پر گفتگو کے دوران کہا’’ نوکروڑ ملک کے شہریوں کی تقدیر، اور تکلیف کا سوال ہے‘‘ اس سے بی جے پی کی پوری حکمت عملی سامنے آگئی۔ 2011 کی مردم شماری میں مسلمانوں کی تعداد17.22کروڑ تھی جس میں قریب ساڑھے آٹھ کروڑ خواتین تھیں۔ اب یہ بڑھ کر نو کروڑ کے آس پاس ہوگئی ہے۔ بی جے پی اس ووٹ بینک کو لے کر اپنی منصوبہ سازی کررہی ہے۔ وہ 2019 میں مسلم ووٹوں کے ایک حصہ کو اپنے حق میں کرنا چاہتی ہے۔ تین طلاق اور حلالہ سے متاثر خواتین سرکار کے اس قدم کو اپنے حق میں مان رہی ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ مسلم سماج اپنی سابقہ غلطیوں پر غور کرے۔ نکاح نامہ تیار کیا جائے جس میں تمام شرائط واضح طورپر لکھی ہوں۔ طلاق بدعت کو سماجی برائی کے طورترک کیا جائے۔ اگر ضروری ہوتو طلاق کے احسن طریقہ کو اپنانا چاہئے کیوں کہ اسی میں سماج کی بھلائی ہے اوریہی طریقہ قرآن کے عین مطابق بھی ہے۔ مسلمان اپنے ہم وطنوں سے متاثر ہوکر کوئی غلط طریقہ اپنانے کے بجائے قرآن کے طریقہ کو اپنائیں۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ سماج کو بیدار کیا جائے۔ شاید اسی کے بہانے ہم صحیح راستہ پر چلنے والے بن جائیں۔

اب جبکہ طلاق ثلاثہ کے خلاف بل کی منظوری کا معاملہ پارلیمان کے غیرمعینہ مدت تک ملتوی ہوجانے کی وجہ سے لٹک گیاہے،یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ اگلے سیشن میں اب یہ ایشوکس انداز میں قانون سازی کی جانب آگے بڑھتا ہے۔فی الحال تو یہی کہاجاسکتا ہے کہ تین طلاق کو فوجداری قانون کے بندھن میں باندھنے کی سرکاری کوشش ایک طرح سے کچھ عرصہ کیلئے ٹھنڈے بستے میں چلی گئی ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔