لاکھوں آنکھوں کو روشنی دے کر ڈاکٹر دلجیت سنگھ بھی گئے

حفیظ نعمانی

20 ویں صدی کے آٹھویں دہے کے 1986 ء میں محسوس ہوا کہ اپنی آنکھوں کی روشنی کچھ کم ہورہی ہے۔ ڈاکٹر کو دکھایا تو انہوں نے بتایا کہ پانی آنا شروع ہوگیا ہے اور اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ جب آنکھ تیار ہوجائے گی تو آپریشن کیا جائے گا۔ میرا کاروبار پریس تھا جس میں ہر وقت نظر کا کام ہوتا ہے۔ جب تک چل سکا کام چلایا اس کے بعد بچوں کی مدد لینا شروع کی۔ بڑے بیٹے شمعون مدینہ میں تھے انہوں نے کہا کہ جب آنکھ کے تیار ہونے کا انتظار ہی کرنا ہے تو مدینہ منورہ آجایئے یہاں حرم نبویؐ میں نمازوں کا ثواب کمایئے۔

شمعون میاں کی فرمائش پر میں مدینہ منورہ چلا گیا اور حج بیت اللہ کی سعادت کے ساتھ مسجد نبویؐ میں نماز اور روضہ اطہر پر حاضری نصیب ہوتی رہی۔ وہاں قیام کا آٹھواں مہینہ تھا کہ مراد آباد سے ایک قریبی عزیز نے ٹیلیفون پر اطلاع دی کہ یہاں جو پنجاب سے آئے ہوئے سکھ ہیں اور زیادہ تر موٹر پارٹ اور ٹرانسپورٹ کا کام کرتے ہیں ان میں سے کئی لوگوں نے امرتسر میں آنکھوں کے آپریشن کرائے ہیں اور ان سب کا کہنا ہے کہ ایک دن بھی نہ پٹی باندھی نہ آرام کیا بس کالا چشمہ لگا رہتا ہے اور سب کام کرتے ہیں۔ ان کا اصرار تھا کہ فوراً آجایئے۔

میرے وہ عزیز بہت ذمہ دار تھے ان کے بلانے پر میں واپس آیا اور خود مراد آباد جاکر ایسے لوگوں سے بات کی جو آپریشن کراکے آئے تھے۔ اور اطمینان کرکے میں ایک بیٹے کو لے کر امرتسر چلا گیا۔ میں نے مراد آباد میں جب معلوم کیا کہ وہ ڈاکٹر کس محلہ میں ہیں اور ان کے پاس کس سواری سے جایا جائے گا تو سب نے بتایا کہ آپ تو امرتسر اسٹیشن پر اُتر جایئے اور جو قلی سامنے پڑے اس سے کہئے کہ ڈاکٹر دلجیت سنگھ کے پاس جانا ہے وہ آپ کو ان کی گاڑی میں بٹھا دے گا اور آپ وہاں پہونچ جائیں گے۔ اسٹیشن کے باہر تین اسٹیشن ویگن طرفی کی بڑی گاڑیاں کھڑی تھیں جن پر لکھا تھا ڈاکٹر دلجیت سنگھ۔ اس گاڑی نے ایک ہوٹل میں اُتارا جو ڈاکٹر صاحب نے لے رکھا تھا اور ہمیں کمرہ دے دیا گیا۔ اور کہا گیا کہ سامان رکھ کر فوراً نیچے آیئے اسپتال جانا ہے۔

ہم کپڑے بدل کر اُترے اور ان کی ہی گاڑی نے اسپتال پہونچا دیا۔ اسپتال میں آپریشن کی فیس 1500  روپئے جمع ہوئے بی پی دیکھا گیا دوسرے ٹسٹ ہوئے اور بتادیا گیا کہ کل آپریشن ہوگا۔ دوسری صبح چار بجے بیرے نے اُٹھایا کہ منھ ہاتھ دھو لیجئے میں ناشتہ لارہا ہوں اور فوراً جانا ہے۔ اور آدھے گھنٹے کے بعد ہم اسپتال میں تھے۔ جہاں پھر ٹسٹ ہوئے اور آپریشن تھیٹر میں داخل کردیئے گئے جہاں چھ مریض لیٹے تھے اور باری باری ڈاکٹر آپریشن کررہے تھے۔ ایک بیڈ خالی ہوا تو ہمیں لٹا دیا گیا اور نرسوں نے اپنا کام شروع کردیا بائیں آنکھ میں ایک کے بعد ایک دوا ڈالتی رہیں اور پندرہ منٹ کے بعد کسی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب سے کہو کہ چار نمبر آنکھ تیار ہے اور پانچ منٹ کے بعد ڈاکٹر صاحب آئے آپریشن کیا اور نرس سے کہا کہ ٹانکے لگادو اور آدھے گھنٹہ کے بعد ہمیں اپنی گاڑی سے ہوٹل پہونچا دیا۔ آنکھ پر روئی رکھی تھی اور ٹیپ لگا تھا۔ اسی ہوٹل کے باہر کھانے کے ہوٹل تھے جہاں بغیر مرچ کا کھانا ملتا تھا۔ شام کو وہ تمام مریض جن کا صبح آپریشن ہوا تھا وہ ایک ہال میں بٹھا دیئے گئے جن کی تعداد 70  تھی اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم آئی باری باری آنکھ دیکھی اور دو چار کو چھوڑکر سب سے کہا کہ کائونٹر پر سے کالا چشمہ لے لو اور جو گاڑی ملے اس سے چلے جائو۔ واپسی کے ٹکٹ پاس تھے رات کو روانہ ہوکر لکھنؤ آگئے۔

لکھنؤ میں آنکھوں کے مشہور ڈاکٹر کے سی گرگ ہمارے دوست تھے ایک سال کے بعد دوسری آنکھ کا بھی آپریشن کرانا تھا۔ مشورہ کے لئے ہم ڈاکٹر گرگ کے پاس گئے باتوں باتوں میں انہوں نے کہا کہ سنا ہے کہ ڈاکٹر دلجیت اپنا بنایا ہوا لینس لگاتے ہیں۔ ہم جب دوسرے سال پھر امرتسر گئے اور ڈاکٹر دلجیت کا سامنا ہوا تو ہم نے ڈاکٹر گرگ کی بات سنائی۔ ڈاکٹر بگڑ گئے اور کہا کہ اس بنئے سے کہہ دینا کہ تیری تو بنیا سرکار بھی اتنی کنجوس ہے کہ آپریشن کے لئے مجھے نشتر نہیں لانے دیتی میں تو بلیڈ سے آپریشن کرتا ہوں۔

یہ وہ زمانہ تھا کہ ملک میں کوئی ڈاکٹر لینس نہیں لگاتا تھا اور ڈاکٹر دلجیت کی مقبولیت کا یہ حال تھا کہ ہر طرف سے آنے والی ٹرین میں ان کے مریض ہوتے تھے اور ان کا ہوٹل ہو یا اسپتال دونوں جگہ لگتا تھا کہ بارات آئی ہوئی ہے مریضوں میں ہر عمر کے مریض بوڑھے جوان اور بچے سب اپنی اپنی کہانی سنا رہے ہوتے تھے۔ میرے  لینس لگے ہوئے 30  سال سے زیادہ ہوچکے ہیں اور اب جبکہ آنکھ کا ہر ڈاکٹر لینس لگاتا ہے اور مریض کی جیب خالی کرتا ہے ان کا مطب اپنی خدمت کررہا ہے۔

میری چھوٹی بہن جب آنکھ کے آپریشن کے لئے ایک ڈاکٹر کے پاس گئیں تو انہوں نے معلوم کیا کہ کون سا لینس لگے گا 10  سال، 15  سال یا 25  سال کا اور سب کی قیمت الگ الگ۔ میرے ایک بیٹے لکھنؤ کے بہت مشہور ڈاکٹر کے پاس گئے اور بتایا کہ گاڑی چلانے میں صاف نظر نہیں آتا اور میرے پاس آرام کا وقت نہیں ہے انہوں نے آپریشن کرکے ساٹھ ہزار کا Bill  پکڑا دیا اور کہا کہ اب یہاں سے خود گاڑی چلاتے ہوئے جائیے مگر زیادہ تیز نہیں اور رات کو 2  دوائیں ڈال لیا کیجئے۔ الغرض جو جس کی  جیب سے جتنا نکلوا سکتا ہے نکلوا رہا ہے اور ہم دونوں آنکھوں کے تین ہزار دے کر تیس برس سے کام کررہے ہیں۔ اور یہ سب اس لئے لکھا کہ ڈاکٹر دلجیت سنگھ ایک لاکھ  25 ہزار آپریشن کرکے وہیں چلے گئے جہاں باری باری سب کو جانا ہے پروردگار اُن کی غریب نوازی کا اور محنت کا انہیں صلہ دے۔

تبصرے بند ہیں۔