مجتبیٰ حسین ہندو پاک میں اردو ظرافت کی آبرو ہیں!

شہاب الدین احمد

 بزمِ صدف کے دو روزہ بین الاقوامی ادبی اور ثقافتی جشن کے موقعے پر بہار اردو اکادمی، پٹنہ میں کافی بہترین پروگرام کا اہتمام کیا گیا۔ بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب ہر سال ادبی خدمات کے لیے بین الاقوامی ایوارڈ دیا جاتاہے۔ اس سال ’’بزمِ صدف بین الاقوامی ایوارڈ‘‘ جناب مجتبیٰ حسین(حیدرآباد) کو، ’’ بزمِ صدف بین الاقوامی نئی نسل ایوارڈ ‘‘ محترمہ عشرت معین سیما کو اور بزمِ صدف خصوصی ایوارڈ براے ادبی خدمات‘‘ ڈاکٹر ایس۔ پی۔ سنگھ اوبراے کو ملے۔

  سال ۲۰۱۷ء کے ایوارڈکے انتخاب کو بالعموم عالمی سطح پر اطمینان بخش تسلیم کیا گیا اور بزمِ صدف انٹرنیشنل کی اس کے لیے پذیرائی ہو رہی ہے۔ گذشتہ سال جب بزمِ صدف کے دونوں ایوارڈ س باالتر تیب جناب جاوید دانش (کناڈا)اور واحد نظیر (جامعہ ملیہ اسلامیہ،نئی دہلی)کو دوحہ(قطر )میں پیش کیے گئے تھے تو اس وقت بھی ایک اطمینا ن کا ماحول تھا اور ہر حلقے سے حق دارکو حق دینے کی بات تسلیم کی گئی تھی۔اس بار کے ایوارڈس میں بھی عوامی طور پر اس بات کے لیے بزمِ صدف انٹر نیشنل کو داد مل رہی ہے کیوں کہ دونوں ایوارڈاپنے حلقے میں نہایت موزوں فیصلے کے طور پر یا د کیے جائیں گے۔

مجتبیٰ حسین کی خدمات کے تعلق سے غور وفکر کرتے ہوئے یہ بات عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے کہ انھیں ساہتیہ اکادمی نے چھ دہائیوں کی خدمات کے باوجود آج تک نوازانہیں یا ان کی کسی کتاب کو اس معیارکا سمجھا ہی نہیں گیا جس پر انھیں سال کی بہترین کتاب ہونے کی فضیلت دی جائے۔مجتبیٰ حسین بھی ایسے کسی صلے کی پروا کیے بغیر اس دوران کم وبیش دو درجن ظرافت کی کتابیں پیش کرنے میں منہمک رہے۔ متعدد انتخابات بھی ان کے چاہنے والے شایع کرتے رہے۔بزمِ صدف کا انعام جناب مجتبیٰ حسین کو پیش کرنے سے ان کے سا تھ ہوئیں بے انصافیوں کا تمام و کمال ازالہ تو نہیں ہو سکتا مگر اسے ایک نقطۂ آغاز سمجھا جا سکتا ہے۔یہ بھی ایک سچائی ہے کہ کئی اور مصنفین بھی ہیں جن کے ساتھ ایوارڈ دینے کے بڑے ادارے اور سرکاری محکمے لگاتاربے انصافیاں کرتے رہے۔ خدا کرے، دوسرے ادارے بھی اس طرف توجّہ کریں اور کم سے کم حق داروں کو ان کے جیتے جی نوازیں تاکہ انھیں جن بے اعتنائیوں کا شکار ہونا پڑا،اس کا کچھ تدارک ہو سکے۔خدا کرے، نام نہاد سرکاری اداروں کے متوازی ایک عوامی لکیر بھی کھینچی جا سکے۔

مجتبیٰ حسین کے ساتھ بزمِ صدف نے نئی نسل کا ایوارڈ محترمہ عشرت معین سیما کو پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔گذشتہ سال یہ انعام محقق، شاعر اور نعت گو ڈاکٹر واحد نظیرکو دیا گیا تھا۔عشرت معین سیما کی تعلیم و تربیت اور ادب وتدریس کے احوال سمجھنے سے یہ بات روشن ہو جا تی ہے کہ وہ ہمارے لکھنے والوں کی ایسی نئی پَود سے تعلق رکھتی ہیں جو عا لمی اردو بستی میں اپنی زبان کی توسیع و اشاعت کے تئیں سر گرمِ عمل ہے۔پاکستان سے نکل کر جرمنی پہنچنا اور وہاں درس وتدریس اور تحقیق کے کاموں کے ساتھ افسانہ نگاری اور شعر گوئی یا ترجمے کوزندگی کا حصّہ بنانا قابلِ داد ہے۔شعرو ادب میں پچاس برس کی عمر فن کے ابتدائی رموز کو سمجھنے میں گزر جا تی ہے۔عشرت معین سیماتو ابھی اس منزل سے پیچھے ہی ہیں مگر انھوں نے اپنے کام کو کچھ اس اندا ز سے دراز کر رکھاہے جس سے ہمیں یہ بات پورے طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ آنے والے وقت میں وہ کچھ نمایاں کر گزریں گی۔انھوں نے تخلیقی، تنقیدی اور تحقیقی ہر پہلو سے دستکیں دینی شروع کر دی ہیں ۔بزمِ صدف نے نئی نسل کا انعام ایسے ہی جیالے لوگوں کے لیے مخصوص کیا ہے جنھیں اردو کا مستقبل تسلیم کیا جا سکے۔صر ف ہندستان اور پاکستان میں نہیں بلکہ دور اور نزدیک کے بہت سارے ملکوں میں اس زبان کے بولنے والے،شعر وادب تخلیق کرنے والے اور باضابطہ طور پر پڑھنے پڑھانے والے لوگ موجود ہیں ۔کہنا چاہیے کہ اردو کا ایک عالمی کنبہ تیار ہو چکا ہے۔بزمِ صدف نے پچھلا بین الاقوامی ایوارڈ جاوید دانش کو اور اس بار نئی نسل کا انعام عشرت معین سیما کودیتے ہوئے اس پیغام کو عام کرنے کی بھی کوشش کی ہے کہ اردو کا کارواں بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر یہ زبان اپنی ایک واضح پہچان رکھتی ہے۔ایسے لوگوں کو پہچاننا دراصل اپنی زبان کے وسیع منظر نامے کا اعتراف اور اقبال بھی ہے۔

  بزمِ صدف کے اس پروگرام کے افتتاحی اجلاس میں پروفیسر صفدر امام قادری(ڈائرکٹر، بزمِ صدف انٹرنیشنل) نے مہمانوں کا استقبال کرتے ہوئے بزمِ صدف کا تعارف پیش کیا۔ جناب شہاب الدین احمد(چیرمین، بزمِ صدف انٹرنیشنل) نے اپنی تقریر میں بزمِ صدف کے کاموں کی تفصیل پیش کرتے ہوئے یہ بتایا کہ بزمِ صدف انٹرنیشنل اب تک سو کتابوں کو شایع کر چکا ہے اور آیندہ سال مزید سو کتابیں شایع کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ انھوں نے اردو کی ادبی سیاست پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بزمِ صدف ہر ادب میں کسی بھی قسم کی فرقہ واریت کا شکارنہیں ہے اور یہ ہر اچھے ادیب اور شاعر کی خدمات کی تعریف کرتا ہے۔پروگرام میں کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ کے سابق پرنسپل پروفیسر جے نیندر کمار نے بزمِ صدف انٹرنیشنل کے کاموں کو سراہتے ہوئے پروگرام کی کامیابی کی دعا کی۔ پروگرام کی صدارت فرماتے ہوئے کہا کہ مجتبیٰ حسین برسوں پہلے سے ایک شخص نہیں بلکہ شخصیت ہیں اور وہ صرف ایک ادیب ہی نہیں بلکہ تہذیب بھی بن چکے ہیں ۔ وہ ان لوگوں میں ہیں جن کی تحریر کو پڑھ کر ہم نے شگفتہ نثر لکھنا سیکھا۔

  اس افتتاحی جلسے میں بزمِ صدف انٹرنیشنل کی جانب سے شایع پانچ اہم کتابوں کی رسمِ اجرا عمل میں آئی۔ ’’دنیا عجب بازار ہے‘‘ (مجتبیٰ حسین کے منتخب خاکے)،’’ عہدِ سرسید کے ادبی و علمی نقوش‘‘،’’ مشاہدات‘‘(تنقیدی مضامین)، ’’سارا منظر ڈوب جاتاہے‘‘(شعری مجموعہ) اور تفہیم ادب اور ادبی تنقید‘‘(تنقید و تحقیق)  ان کتابوں کے نام ہیں ۔

  افتتاحی اجلاس کے بعدجاوید دانش (کینیڈا) نے داستان گوئی کا پروگرام پیش کیا۔ جس کے بعد بین الاقوامی مشاعرہ منعقد کیا گیاتھا۔ اس مشاعرے کی صدارت جناب سلطان اختر(چیرمین، بہار اردو اکادمی ) نے کی اور مہمانِ خصوصی کے طور پر پروفیسر شہپر رسول کو شریکِ بزم کیا گیا۔ مشاعرے میں بہترین ملکی اور بین الاقوامی شعراے کرام نے شرکت کی۔ جن میں جاوید دانش(کینیڈا)، حسن کاظمی(لکھنؤ)، مدھو گپتا(ناگ پور) اجے سحاب(جمشید پور)، عمیر منظر(لکھنؤ)، خالد مبشر(دہلی)، ظفر کمالی(سیوان) ظفر امام(بتیا)، مرلی دھر طالب(کولکاتا)، تسلیم عارف(دہلی) وغیرہ کے نام قابلِ ذکر ہیں ۔ نظامت کے فرائض یونی ورسٹی آف حیدرآباد  سے تشریف لائے ہوئے ڈاکٹر زاہد الحق نے انجام دیے۔

  دوسرے دن کا پہلے سیشن کے پہلے حصے میں ’’ عشرت معین سیما کی ادبی خدمات‘‘ کے موضوع سے تھا۔ اس موقعے سے جن مقالہ نگاروں نے اپنے مضامین پیش کیے ان میں ڈاکٹر شاہد الرحمن(دہلی)، نوشاد احمد کریمی(بتیا)، ظفر امام (بتیا) اور محمد شہاب الدین(دہلی) کے نام قابلِ ذکر تھے۔مجلسِ صدارت میں جناب مشتاق احمد نوری، جناب شہپر رسول، جناب محمد مختاروفا، جناب فخرالدین عارفی اور ماریشس سے تشریف لائی ہوئی محترمہ شامت علی موجود تھے۔ اس سیشن کی نظامت ڈاکٹر واحد نظیر فرما رہے تھے۔ ڈاکٹر شاہد الرحمن نے اپنے مقالے کے ذریعے عشرت معین سیما کی مجموعی ادبی خدمات کا جائزہ لیا۔ انھوں نے اردو کی نئی بستیوں میں ہو رہی سرگرمیوں کا بھی مختصراً جائزہ پیش کیا۔ محمد شہاب الدین نے اپنے مقالے میں عشرت معین سیما کی افسانہ نگاری کے امتیازات پر روشنی ڈالی۔ ظفر امام نے اپنے مقالے میں عشرت معین سیماکی شاعری کے امتیازات پر روشنی ڈالتے ہوئے ان کی شاعری کی خصوصیات پر باتیں کیں ۔

 پہلے سیشن کے دوسرے حصے میں ’’مجتبیٰ حسین کی ادبی خدمات ‘‘ موضوع کے تحت مقالے پیش کیے گئے۔ اس سلسلے سے ظفر کمالی نے مجتبیٰ حسین صاحب پر لکھی اپنی رباعی سے سماں باندھ دیا۔ انھوں نے اس موقعے سے مجتبیٰ حسین پر اپنا مقالہ بھی پیش کیا۔ ان کے علاوہ قیصر زماں (ہزاری باغ)، علی محمود آصف(ماریشس)، محمد شاہ نواز فیاض، ابوبکر عباد(دہلی) نے بھی اپنے مقالوں کے ذریعے مجتبیٰ صاحب کے فکر و فن پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

  دوسرے دن کا دوسرا سیشن کا موضوع سر سید احمد خاں کا نظریۂ تعلیم تھا۔ اس سیشن میں ڈاکٹر نسیم احمد نسیم( بتیا)، ڈاکٹر دبیر احمد(کولکاتا)، جناب الاں ڈی سویلرس(فرانس)، محترمہ بی بی ابی ناز،محترمہ شامت علی (ماریشس) نے اپنے مضامین پیش کیے۔ اس سیشن کی مجلسِ صدارت میں جناب جاوید دانش، جناب محمد گوہر، جناب الاں ڈی سویلرس اور ڈاکٹر علی محمود آصف شامل تھے۔

 دوسرے شیشن کے بعد جناب جاوید دانش نے ’’عید لاشوں کے دیش میں ‘‘ ڈراما پیش کیا۔ جس سے سامعین کافی محظوظ ہوئے۔ اختتامی تقریب کی صدارت پروفیسر شہپر رسول فرما رہے تھے۔ اس کے علاوہ مہمانِ خصوصی کے طور پر ڈاکٹر علی امام، سابق پرنسپل، پی کے رائے کالج(دھنباد)، بزمِ صدف کے چیرمین جناب شہاب الدین احمد اور ڈائرکٹر صفدر امام قادری بھی اس سیشن میں موجود تھے۔ اختتامی تقریب کی نظامت ڈاکٹر زاہد الحق نے کی اور اظہارِ تشکر کا فریضہ صفدر امام قادری نے ادا کیا۔

جس طرح سے بزمِ صدف نے صرف دو برسوں میں اپنی سرگرمیوں  سے علمی اور ادبی حلقوں میں ایک محترم مقام حاصل کیا ہے وہ قابلِ ستائش ہے۔ یہ بزمِ صدف انٹرنیشنل کا صرف دوسرا سالانہ پروگرام تھا لیکن جس طرح نا گفتہ بہہ حالات اور موسم کی خرابی کے باوجود یہ پروگرام بڑی کامیابی سے اپنے اختتام کو پہنچا، اس سے اندازہ لگایا جا سکتاہے کہ اس ادارے نے اردو کی خدمت کے لیے کس طرح خود کو وقف کر رکھا ہے۔ امید ہے کہ یہ ادارہ مستقبل میں بھی ایسے ہی اردو زبان و ادب کی خدمت کے لیے کوششیں جاری رکھے گا۔

تبصرے بند ہیں۔