آہ! ساحل ؔمقبول: مر جائے تو بڑھ جاتی ہے انسان کی قیمت

ایم شفیع میر

 بے شک انسان اِس دار ِ فانی سے کوچ کرنے کے بعد جتنا مقام لوگوں کی نظروں میں پاتا ہے وہ سب وہ جیتے جی کبھی نہیں پا سکتا۔ لیکن دنیا میں کچھ انسان ایسے میں آتے ہیں جو دنیا میں بھی نام کما کر چلے جاتے اور ممکن ہے کہ آخرت میں بھی اللہ اُنہیں اچھے مقام سے نوازتے ہونگے۔اسی طرح ساحل مقبول  بھی ریاست جموں و کشمیر کا وہ نام ہے جو اپنی صلاحیتوں اور کارناموں کی وجہ سے ہمیشہ روشن رہا،ساحل مقبول  صحافتی دنیا کا وہ روشن ستارہ تھا جو کافی مدت تک دنیائے صحافت پر چمکتا رہا۔ جسے صحافتی دنیاسے منسلک حضراتکبھی بھی بھول نہیں پائیں گے۔

 مرحوم مقبول نے صحافتی دنیا میں قدم رکھتے ہی ایسے گل کھلائے جو لا مثال ہیں۔ ساحل مقبول صحافتی دنیا کا ایک مقبول نام بن کر رہ گیا۔صحافت کی وساطت سے ساحل مقبول نے عوامی خدمات کے وہ کار ہا نمایاں انجام دیئے جن کا صلہ انہیں بس اللہ ہی دے سکتا ہے۔دنیا میں انھوں نے جس قدر عوامی مسائل کو ترجیح بنیادوں پر اُجاگر کیا وہ نا قابل ِ فراموش ہے گوکہ مقبول کی انسان دوستی نے انہیں دنیا میں مقبول تو کر دیا لیکن مقبول مرحوم نے جو مقبول کارنامے انجام دیئے اور صحافتی دنیا میں جو جھنڈے گاڑے اس کے عوض انہیں وہ اُجرت نہیں مل پائی جس کا وہ حق دار تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ مرحوم کی انسان دوست خدمات کو اُس کے جانے کے بعد حد درجہ سراہا گیاجوکہ بنی نوع انسان کا ایک فطری عمل ہے کہ ہر اُس انسان کو اِس دنیا سے کوچ کرنے بعد اچھے الفاظوں میں یاد کیا جاتا ہے چاہے وہ انسان دنیا میں بہت ساری برائیوں کا مرتکب بھی کیوں نہ ہو لیکن دنیا سے کوچ کرنے کے بعد اُسے اچھے القاب میں یاد کر انسان کا ایک فطری عمل ہے۔ لیکن میرے خیال سے دنیا میں آئے ہوئے ہر انسان کا ایک بہت بڑا مقام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی بھی چیز کو بے مطلب پیدا نہیں کیا، پھر انسان تو انسان ہے جسے اللہ تبارک تعالیٰ نے اشرف المخلوقات کے درجے سے نوازہہے۔ اس لئے ہر انسان کے دنیا میں آنے کا کوئی مقصد ہو تا ہے۔ گو کہ انسان ایک بہت قیمتی شے ہے جس کے جیتے جی جتنی قدر کی جائے کم ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جیتے جی انسان کو وہ عزت و اکرام نہیں دیا جاتا جو اُس کے جانے کے بعد دیا جاتا ہے۔

الغرض لمبی بحث میں نہ جاتے ہوئے ناچیز کے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جیتے جی انسان کے اصل مقام سے آگاہ ہونے کی کوشش کی جائے۔ ان تمام باتوں کا اظہار اس لئے کرنا پڑا کہ ساحل مقبول بھی ایک ایسا انسان تھا جس کے زندہ ہوتے ہوئے اُس کے اصل مقام سے آگاہ ہونے میں ہم لوگ مکمل طور سے ناکام رہے اگر یوں کہا جائے کہ اُس کو سمجھنے کی کوشش ہی نہ کی گئی تو بیجا نہ ہوگا۔ انھوں نے عوامی خدمات کو انجام دینے کیلئے جس قدر مشکلات کا سامنا کیاوہ نا قابل ِ فراموش ہیں۔ حق گوئی، ایمانداری، دیانتداری اُن کا خاصہ تھا۔ اُن میں خدمت ِ خلق کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھراہوا تھا جبھی تو انہوں نے اپنی مالی حالت کی فکر کئے بغیر حق گوئی اور خدمت خلق کے جذبے سے آنکھیں نہ چرائیں۔ وہ پر خطر اور خار دار ایسی راہوں پر دیوانہ وار محو ِ سفر رہے جہاں انہیں بے پناہ اذیتیں بھی جھیلنی پڑیں لیکن انھوں نے اِ ن تمام مشکلات کا جواں مردی سے مقابلہ کیا۔آج اگر ساحل مقبول لوگوں کے دلوں میں مقبول ہیں تو وہ اُن کی حق پرستی، بیباکی اور سچائی کا نتیجہ ہے۔

 یہ سچ ہے کہ مرحوم مقبول صاحب کی علمی شخصیت سے ریاست اور خاص کر وادی کا ہر انسان متاثر ہے اور واقف ہے لیکن اگر ہم نے نئی نسل کے سا منے ان جیسی شخصیتوں کا صحیح تعارف نہیں کرایا تو یہ ایک بہت بڑی نا انصافی ہو گی کیونکہ نئی نسل ان کی سیرت و کردارسے یکسر محروم ہو جائیگی جسکا سب سے بڑا نقصان یہ ہو گا کہ ماضی حال سے جدا ہو جا ئیگا کیونکہ حا ل اور مستقبل سے آگا ہی ماضی کو جا نے بغیر ممکن نہیں۔ جبکہ حال اور مستقبل کوجوڑ نے وا لی یہی وہ عظیم شخصیتیں ہیں جن کی فکر انگیز تحریروں اور نگاہ بلند تجربات سے ہم ا پنے حال کو ماضی کے آئینے میں نہ صرف دیکھتے ہیں بلکہ ما ضی میں ہو ئی غلطیوں سے عبرت بھی حا صل کر تے ہیں پھر آج مقبول صاحب جیسی شخصیتیں ہمارے درمیان سے چلی جا تی ہیں ان کا نعم البدل تو کیابدل ہی مشکل سے ملتا ہے۔

 23جولائی1968کو جنوبی کشمیر کے کوکرناک علاقہ کے گاؤں اڈہال میں پیدا ہوئے ساحل مقبول کاپورا نام محمد مقبول کھوکھر ہے اور قلمی نام ساحل کے نام سے جانے جاتے تھے۔ وہ کھوکھر راجپوت قبیلہ سے تعلق رکھتے تھے۔ مرحوم کے والد محمد جمال الدین کھوکھر اپنے فرزند مقبول کو ساحل نام سے پکارتے تھے اور بعد میں مقبول اپنے والد کے پکارے جانے والے نام سے ہی مشہور ہوئے اور اِ س طرح سے انھوں نے (ساحلؔ )اپنا قلمی نام رکھالیا۔مقبول نے سائنس سٹریم میں ایس پی کالج سے گریجویشن کی اور مقامی روزنامہ’مارننگ ٹائمز‘سے کیرئرکی شروعات کی جہاں انہوں نے 1986سے 1989تک کام کیا۔ اسی طرح سے مقبول نے اخبار’اذان ‘میں اپنی خدمات انجام دیں۔ ریڈیو کشمیر سرینگر اور ڈی ڈی کاشرمیں بھی اپنا وقت دیا۔ مقبول نے پہاڑی پروگرام’لشکارے‘میں بھی اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا کر مقبولیت حاصل کی اور اس پروگرام کو کامیاب بنانے میں مرحوم کا اہم کردار رہا۔25برس کے ایک طویل عرصے تک مرحوم اسی پہاڑی پروگرام کی شان دوبالا کرتے رہے۔ 89کی دہائی میں مرحوم نے اردو روزنامہ ’ڈیلی آفتاب‘میں بطور اسسٹنٹ ایڈیٹر کام شروع کیا۔اسی دوران مرحوم نے نامور فلمساز مظفر علی کا سرینگر کے سینٹور ہوٹل میں انٹرویو کیاجو کافی معلوماتی تھا۔مرحوم کی اُردو زبان پر دسترس سے فلم ساز مظفر علی کافی متاثر ہوئے اور اپنی فلم ’’زونی‘‘ کو مقبول ہونے کا خواب دیکھ کر مقبول کو فلم میں کام کر نے کی پیشکش کر دی لیکن وادی میں نا مساعد حالات کی وجہ سے یہ فلم ادھوری رہ گئی۔ اسکے بھی علاوہ مرحوم کو بہت ساری فلموں میں پیشکش کی گئی۔

مرحوم کی صلاحیتوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اُن کے اندر کچھ کر گزرنے کی دھن کس قدر سوار تھی وہ کس قدر عملی طور کام کرنے میں یقین رکھتے تھے۔ دہلی بیسڈ نیوز چینل اور میگزین، جیون ٹی وی کیرلہ، انڈین ایکسپریس، بی بی سی اخبار’چٹان‘جیسے اخباروں و نیوز چینلوں کے ساتھ وابستہ رہنا عملی طور کام کرنے کی وہ مثال ہے جو ساحل مقبول اپنی محنت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر قائم کر کے گئے۔

 قارئین حضرات کو بتاتا چلو ں کہ راقم کی مرحوم کے ساتھ وابستگی صرف چند دنوں کی ہے۔ 21فروری 2018کو میں نے انہیں فیس بک پر فرینڈ ریکوسٹ بھیج دی چند ہی لمحوں کے اندر مرحوم نے میری التجا کو قبول کرتے ہوئے مجھے اپنا فیس بک دوست بنا ڈالا اور یوں دعا سلام کا سلسلہ شروع ہوا۔ چند دن بعد میں نے مرحوم سے اُن کا فون نمبر مانگا تو انھوں نے دے دیا۔ کچھ دن گزرنے کے بعد سرینگر سے شائع ہونے والا ہفتہ وار ’’کشمیرپرچم‘‘ میں مضمون شائع کروانے سے متعلق مرحوم سے میری فون پر بات ہوئی۔بات کرتے وقت مرحوم کی شریں زبانی اور دھیما لب و لہجہ مجھے بہت کچھ سیکھنے کو دے گیا۔ اتنی بڑی شخصیت اور پھر زبان میں شرینی، گفتار میں مٹھاس، واپنائت یوں لگا جیسے میں برسوں پرانے کسی دوست سے ہمکلام ہوں۔ میں اُن کے اس قدر سنجیدہ ذہن سے کافی متاثر ہوا۔ اُن کی باتوں میں مجھے خود کو جھنجوڑنے کا پیغام ملا جو شائد کبھی نہ مل پاتا۔ لیکن افسوس ہے کہ دوستی کے اس سفر کو جس قدر میں نے طویل کرنے کا سوچا تھاوہ اُتنا ہی مختصر ہوگیا۔

مرحوم کے بارے میں معلومات حاصل کر نے کے بعد مجھے لگا کہ مرحوم کو جیتے جی زیادہ واسطہ باد صبا سے کم اور مصیبتوں سے زیادہ پڑالیکن مرد آہن اورگو ہر بے بہا تمام حالات کا مقابلہ حسن خو بی اور جواں مردی سے کرتے ہوئے زندگی کی تقریباً50بہاریں دیکھ کر اس خاکی دنیاکو اپنے وجود سے ہمیشہ کے لئے محروم کر دیااور اُس دنیا کی طرف چلا گیاجہاں دنیا کے جھمیلے اور رات دن کی تھکادینے والی مصروفیات، حاکم اور محکوم کا فرق،اپنے معاصر کی نکتہ چینی، عزیز واقارب اور بھائی بہنوں کی ناز آفر یں اب سب کچھ ختم کر کے رحمت اور رمغفرت والے کے دربار میں جہاں صرف ایک حاکم کی حاکمیت ہو گی جہاں ہر معاملہ عدل و انصاف کے ساتھ ہو گا اب وہاں مقبول آسودہ خاک ہو چکے ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فر مائے، کروٹ کروٹ جنت الفردوس عطا فرمائے…آمین !

آہ! مقبول صاحب… آپ کا اس دنیا سے چلا جانا ریاست جموں و کشمیر میں انجام دی ہوئی اپنی بے لوث خدمات کے تعلق سے ایک عظیم سانحہ ہے جس کو یقینا عظیم سانحہ کی طر ح محسوس کیا جا رہا ہے اور ہمیشہ آپ کی اس کمی کو محسوس کیا جائے گا۔

تبصرے بند ہیں۔