آہ میری کتابیں

 ام ہشام نوریہ

 میرے بچے اکثر مجھ سے پوچھا کرتے ہیں کہ امی! ‘آپ کے لیے آپ کی اسٹوڈنٹ لائف میں سب سے اچھا Fun time کونسا ہوا کرتا تھا اور آپ کے لیے سب سے پسندیدہ Activity کونسی ہوا کرتی تھیاور میں بہت پر جوش ہو کر ان کو بتاتی ہوں ’لائبریری‘میری بات سن کر وہ تعجب میں پڑجاتے ہیں کہ بھلا لائبریری کب سے Fun place ہونے لگی۔ انکی حیرت پر میں مسکراتے ہوئے کہتی ہوں کہ اس وقت میرے لیے سب سے بڑی تفریح کتابیں ہی ہوا کرتی تھیں۔ کتابیں جو تفریح فراہم کرسکتی ہیں وہ دنیا میں کوئی اور نہیں کرسکتا ۔کتابیں اب بھی میری دوست ہیں یہ اور بات کہ ایک خاتون خانہ اس شوق کو بڑی دقت کیساتھ پورا کرپاتی ہے۔ میری بڑی خواہش ہے کہ میرے بچے بھی مطالعہ کے عادی بنیں- صبح کا ناشتہ وہ مولانا آزاد کی ’’ترجمان القرآن‘‘ کے ساتھ کریں تو دوپہر کے لنچ پر وہ ڈیل کارنیگی سے ملاقات کریں۔ ان کی شام کی چائے Nick vujicic کے ساتھ طے پائے جس میں انکی مشہور زمانہ کتاب Life without limits سے میرے بچے اپنے آپ کو ترو تازہ کرسکیں۔ رات کو بستر پر وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب کے حیات طیبہ کے نظارے دیکھیں۔

 لیکن افسوس ہے یہ محض میری خواہش ہے, بچوں کا تو ابھی کچھ پتہ نہیں۔ ہاں یہ اور بات ہیکہ میں ان میں مطالعہ کا ذوق اور شعور کیسے پیدا کرسکتی ہوں، یہ پوری طرح میری تربیت پر منحصر ہے۔ ہمارے غیر معیاری ہونے میں اس بات کا سب سے بڑا دخل ہوتا ہے جب آدمی مطالعہ کرنا ترک کردے۔نہ جانے آخری کتاب ہم نے کب خریدی تھی،یاد نہیں! مشرق ومغرب کے ترقیاتی تضاد کے فرق کو اسی سے سمجھ لینا چاہیے کہ یورپی ممالک میں کوئی بھی کتاب ایک لاکھ سے کم نہیں چھپتی۔ اور ہمارے یہاں ایک ہزار سے زیادہ نہیں اسمیں سے بھی آدھی کتابیں بطور انعام و اعزاز یا حاصل ثواب کی خاطر اِن کو اُن کو مفت تھمادی جاتی ہے۔

  نسل نو اور خارجی کتابوں کے مطالعہ کے بیچ صدیوں کے فاصلے حائل ہوگیے ہیں،کچھ فاصلے اور لکیریں تو ہماری خود کی قائم کردہ ہیں ہوتا یہ ہے کہ جب بچہ پڑھنا شروع کرتا ہے تو بجائے ترغیب وحوصلہ کے ہم ڈانٹ ڈپٹ شروع کردیتے ہیں جس سے بچہ بد دل ہوکر کتاب ہی پڑھنا چھوڑدیتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ پہلی مرتبہ بچوں کو انتخاب کرنے کی،سوچنے کی،فیصلہ لینے کی آزادی اور اختیار دینا چاہیے تاکہ انکے ذوق و شعور کا پتہ چل سکے اور اسے صحیح رخ دیا جاسکے- اس مسا فت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے عالم یہ ہیکہ مہنگے ترین موبائیل ہماری اولین ضرورت بن چکے ہیں,لیکن سو دو سو کی کتاب ہمیں پیسوں کا ضیاع لگتی ہے۔

اس کے نتائج بھی ہم بھگت رہے ہیں کیونکہ تعمیر و تخلیق کے وقت ہم کمبل رضائی لیکر ہاتھ پیر پسار لیتے ہیں اور موازنہ کرتے وقت انکی کامیابی کو ’غصب‘ کا نام دیکر بغلیں جھانکتے ہیں۔ کہیں پڑھا ہوا جملہ یہاں نقل کرتی ہوں:

 ’’جو کتاب پڑھ نہیں سکتا اور جو پڑھنا نہیں چاہتا ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے۔کہتے ہیں کہ اگر کسی قوم کے زوال یا ترقی کا اندازہ کرنا ہو تو اس کے کتب خانے اور ہوٹلز دیکھ لیں۔ اگر کتب خانے بھرے ہیں تو وہ قوم ترقی یافتہ ہے لیکن اگر ریسٹورینٹس اور ہوٹلز بھرے ہیں تو اس قوم کا اللہ ہی حافظ ہے۔ آپ کو ہزاروں روپے کی کتابیں سڑکوں پر رُلتی نظر آئیں گی لیکن جوتے شیلف میں چمکتے نظر آئیں گے۔ جو قوم کتابوں کے ساتھ یہ سلوک کرے تو اس قوم کو واقعی جوتوں کی ضرورت ہے اور وہی مل بھی رہے ہیں۔‘

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ہمارا علم مستعار ہے ہم فکر سے کوسوں دور فکری غلام ہیں ہمارا رویہ مقلدانہ ہے بلکہ اندھی تقلید کو ہم نورِ بصیرت خیال کرتے ہیں۔ ہمارا علم تحقیقی نہیں حوالہ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہمارا سماج سوچ کے فقدان کا شکار ہے, مفاد پرست مادہ پرستانہ ذہنیت نے انسانوں کو آدم خور بنا دیا ہے کسی بڑے ادارے سے فارغ التحصیل یا کسی بڑی یونیورسٹی کا اعلی تعلیم یافتہ اور کسی تھڑے پہ بیٹھنے والا سب ایک ہی روش کا شکار ہیں کسی بھی طبقے میں زندگی کے اعلی نصب العین کے حصول کی فکر نہیں۔

    مطالعہ سوچ کو نکھارنے فکر کو پروان چڑھانے کے لئے ہوتا ہے اس کا مقصد ہر گز فکری غلامی کا طوق سجانا نہیں ہوتا مگر ہمارے سماج میں مطالعہ کا مقصد فقط حوالہ جات اکٹھےکرنا اور بوقت ضرورت مرعوب کرنا ہے، نئی سوچ نئے افکار پیدا کرنا نہیں بلکہ انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اگر خدانخواستہ کسی بندہ خدا کی فکری صلاحیتیں بیدار ہو جائیں تو وہ منہ چھپاتا پھرتا ہے جیسے تمام ننگوں میں کپڑے پہنے ہوئے ایک انسان باعث تضحیک ہوتا ہے ٹھیک اسی طرح حوالہ جاتی طبقہ اس کا فکری قتل کر دیتے ہیں یا اس کی اتنی تضحیک کرتے ہیں کہ اسے دوسروں کے لئے نشان عبرت بنا دیتے ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔