آ اب لوٹ چلیں!

سیدہ تبسم منظور ناڈکر

 قصبے کے زیادہ تر لوگ پردیس میں ہی رہتے تھے۔ اور اسی قصبے کا کیا ذکر کریں۔ بلکہ آس پاس کے قصبے کے بھی زیادہ تر لوگ پردیس میں ہی رہتے ہیں۔ معدودے چند لوگ ہی اپنےدیس میں ملازمت کرتے۔ کچھ لوگ اپنی چھوٹی موٹی تجارت کرتے، کچھ لوگ کھیتی باری کرتے پر آبادی کے آدھے سے زیادہ لوگ پردیس میں ہی ہیں۔ ایک چلن اور ایک سوچ ہی ہے کہ اپنے دیس میں کوئی بھی ملازمت نہیں کرنا چاہتا۔ اور اگر کرتا بھی ہے تو کچھ دن کے بعد تو وہ اپنے گھر پریوار کو آسائشیں بھری زندگی دینے کے لیے پردیس کا ہی رخ کرتے ہیں۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی نہ جانا چاہے تو بیوی اپنے شوہر کو جانے کے لیے مجبور کردیتی ہے کہ میری سہیلی کے شوہر پردیس میں اتنا کما رہے ہیں، اس کے پاس سب کچھ ہے۔ بہت سارا پیسہ۔۔۔ گہنے۔۔۔ بنگلہ نما گھر۔ ۔۔ اور نہ جانے کیا کیا اور ہمارے پاس تو کچھ بھی نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی کسی طرح پیسوں کا انتظام کرکے اپنا گھر بار۔۔۔۔ اپنا دیس چھوڑ کر پردیس جانے کے لیے مجبور ہو جاتا ہے۔ اور بیوی ہی کیوں۔ ۔۔۔۔۔ کئی ماں باپ بھی یہی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے پردیس میں جا کر ملازمت کریں  اوربہت سارے پیسے کمائیں۔ ۔۔۔۔ پھر وہ پردیس میں چاہے کوئی بھی کام کریں۔

کسی کے گھر جاکر کام کرنا پڑے۔ ۔۔۔ پیٹرول پمپ جا کر پٹرول بھرنا پڑے۔۔۔۔۔۔ یا کوئی کنسٹرکشن کے کام کرنے پڑیں۔ ۔۔۔ روڈ پر جھاڑو ماڑنا پڑے۔ ۔۔۔۔ انہیں سب کچھ منظور ہوتاہے۔ سارا سارا دن دھوپ میں رہیں تو بھی منظور ہے۔ ۔۔کتنی بھی تکلیف میں زندگی گزاریں ۔ ۔۔۔۔ سب کچھ منظور ۔ ۔ ۔ بس اپنے دیس میں سکون کی آدھی روٹی کھانا منظور نہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تھوڑے پیسے میں زندگی گزارنا منظور نہیں۔ ۔۔۔۔دولت کی چاہ نے اپنا دیس، رشتے ناطے سب بھلا دیے ہیں۔ حالانکہ اچھے پڑھے لکھے لوگوں کواچھی ملازمت مل جاتی ہے مگر پھر بھی پردیس تو آخر پردیس ہی ہےنا۔۔۔!

  ایسے ہی کئی لڑکیاں اپنی آنکھوں میں سپنے لیے اپنے جیون ساتھی کے بارے میں سوچتی ہے۔ زیادہ تر رشتے قصبے کے اندر ہی ہوتے ہیں یا پھر آج کل کا ماحول تو یہی ہے کی محبت سے شادیاں ہوتیں ہیں اور محبت کی ہی شادیاں ہوتی ہیں۔ بس لڑکا پردیس میں ہوں تو ٹھیک ہے۔ پہلے ہی سے لڑکیوں کو پتہ ہوتا ہے کہ لڑکا کتنا کماتا ہے اوراس کے پاس کتنا پیسہ ہے۔ ۔ ۔ وہ اس لڑکی کو کس طرح کی زندگی دے سکتا ہے۔ اور نہ جانے کیا کیا۔۔۔! جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو وہ اپنی آنکھوں میں ہزاروں سپنے سجائے سسرال آتی ہے۔ ابتدائی زندگی تو بڑی ہی خوشگوار ہوتی ہے۔۔۔ بس سجنا سنورنا۔۔۔۔۔ شوہر کے ساتھ گھومنا پھرنا۔۔۔ رشتے داروں کے یہاں دعوتیں۔

یہ دن اتنے مسرور اور مصروف ہوتے ہیں کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ پھر شادی کے مہینے  دو مہینے کے بعد ہی شوہر اپنی نئی نویلی دلہن کو چھوڑ کر پردیس چلا جاتا ہے۔ شوہر پردیس میں اپنی نئی نویلی دلہن کو یاد کر کے اپنے تکیے آنسوؤں سے بھگوتا رہتا ہے۔۔۔۔۔ یہاں بیوی شوہر کی جدائی میں آنسو بہاتی ہے۔۔ پتہ نہیں یہ لوگ اس طرح کی زندگی کیسےگوارا کرلیتے ہیں ؟ کیوں دولت کی حرص میں اتنی خوبصورت اور انمول زندگی کو برباد کر دیتے ہیں ؟؟؟؟جو میاں بیوی ایک دوسرے کا سہارا ہوتے ہیں، دکھ سکھ کے ساتھی ہوتے ہیں، جو ایک دوسرے کا لباس ہوتے ہیں وہ جدا کیوں ہوتے ہیں۔ اور جدا کیسے رہ پاتے ہیں۔

 عورتیں تو پھر بھی اپنے گھر میں ہوتی ہیں اپنے لوگوں کے ساتھ ہوتی ہیں۔ اپنے بھائی بہن ماں باپ اور نئے سسرالی رشتے سب ہوتے ہیں۔ ۔۔ پر وہاں پردیس میں اس انسان کے ساتھ کوئی نہیں ہوتا۔ بس کوئی دوست یار مل جائے تو تھوڑا بہت ان کا دل ہلکا ہو جاتا ہے۔ یہاں دیس میں عورتیں یا لڑکیاں، جیسے ہی شوہر نکل کر پردیس گئے ویسے ہی ان لڑکیوں نے اپنے میکے کا رخ کرلیا۔ اب ان کا زیادہ تر وقت اپنے میکے میں ہی گزرتا ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے اسے اولاد کی نعمت سے نواز دیا تو اور بھی نخرے شروع ہو جاتے ہیں۔ کبھی یہ تکلیف کبھی وہ تکلیف۔۔۔۔ پھر مستقل ہی اس لڑکی کی رہائش اپنے میکے میں ہو جاتی ہے۔پتہ نہیں انہیں یہ فکر بھی ہوتی ہے کے نہیں وہاں شوہر کس طرح کماتا ہو گا۔۔۔ کیا کھاتا ہو گا۔۔۔ کیا پیتا ہو گا۔ ۔۔۔۔ بیمار پڑنے پر اسے کون دیکھتا ہوگا۔۔۔۔ وہ بیچارا سارا دن باہر سے تھک ہار کر آتا ہے اور پھر گھر کے کام میں مصروف ہو جاتا ہے۔ پر انہیں اس سے کوئی لینا دینا ہی نہیں ہوتا ۔

انہیں تو بس پیسے چاہیے ہیں۔ یہ کیسی زندگی ہے؟؟؟؟؟ اور کیسے منظور کرتے ہیں ایسی زندگی شوہر پردیس میں ہوتے ہیں اور بیوی یہاں۔ ۔ ۔۔  نہ ہی ایک دوسرے کے غم خوشی میں نہ ہی درد تکلیف میں شریک ہو پاتے ہیں نہ ہی بچے کی پیدائش پر بیوی کے ساتھ ہوتے ہیں۔ اس وقت بیوی کے پاس شوہر کا ہونا ضروری ہے وہ پیار بھرا ہاتھ سر پر ہونا ضروری ہے۔۔۔ شوہر کا مضبوط کندھا اور سہارا ضروری ہے۔ پر ان سب سے زیادہ پیسوں کو اہمیت دی جاتی ہے۔ اللہ تعالی نے ہر ایک کے نصیب میں روزی لکھی ہے اور وہ مل ہی جاتی ہے پر کیا اس کے لئے پردیس ہی جانا ضروری ہے۔۔۔۔تدبیر سے تقدیر بنتی ہے۔ اپنے دیس میں اپنے بیوی بچوں کے ساتھ رہ کر بھی تو کمایا جا سکتا ہے نا۔۔۔!

شوہر سے آئے دن فرمائشیں کرنا اور پیسوں کی مانگ کرنا عورتوں کی عادت ہوتی ہے۔وہ بس وہاں کماتے ہیں اور اپنے بیوی بچوں گھر پریوار کے لئے پیسے بھیجتے رہتے ہیں۔ یہاں بیویاں فضول خرچی کرتی ہیں۔ کبھی بے فضول کی شاپنگ۔ ۔۔۔ذرا ذرا سی تکلیف پر ڈاکٹروں کے یہاں چکر لگائے جاتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں غفلت کی جاتی ہے۔ باپ باہر ہے تو ماؤں کو اپنی ذمے داری نبھانی چاہے۔بچوں کی اچھی پرورش اور  تربیت کرنی چاہئے۔ پر افسوس۔ ۔۔۔۔ صد افسوس۔ ۔۔۔۔بچوں پر ماؤں کا دھیان نہیں ہوتا۔مائیں اپنے آپ میں مگن ہیں اور بچے اپنے دوستوں میں۔ ۔۔۔۔ نہ ہی پڑھائی سے لگاؤ ہے نہ کچھ۔ ۔۔نہ ماں بچے کو سمجھاتی ہے کہ اس کا باپ کس طرح پیسے کما کر بھیج رہا ہے نہ اس کی سینیٹ کا احساس دلاتی ہے۔ الٹا اوروں کی دیکھا دیکھی بچوں کی ہر جائز و ناجائز فرمائش پوری کی جاتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ میں موبائل۔ ۔۔۔بارہ سال کا ہوا نہیں کہ بچے کے ہاتھ میں بائیک آجاتی ہے۔ رات گئے تک بچے باہر دوستوں میں نکڑ پر ہوتے ہیں۔ باپ جب باہر کما رہا ہے تو ماؤں کو اپنے بچوں کی اچھی پرورش کرنی چاہئے تعلیم و تربیت پر دھیان دینا چاہئے۔۔۔ کیوں کہ یہی بچے تو ہمارا مستقبل ہیں۔ خود بھی کفایت شعار ہونا چاہئے اور اپنے بچوں میں بھی یہ عادت ڈالنی چاہئے۔ پر نہیں۔ ۔۔۔۔۔ بے جا اور فضول پیسے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اگر شوہر، باپ، بھائی، بیٹا پردیس چھوڑ کر آنا بھی چاہے تو اسے روک دیا جاتا ہے۔اب کیا کہیں۔ ۔ ۔ ۔

کہیں نہ کہیں مردوں کو بھی بہت زیادہ پیسے کمانے کی ہوس ہوجاتی ہے۔اور یہ اپنے گھروں میں پہلے سے ہی دیکھتے آتے ہیں کیوں کہ کیسی کے باپ کیسی کے دادا کیسی کے بھائی کوئی نہ کوئی پردیس میں ہوتے ہیں۔ ۔۔۔۔ گھر کا ماحول ہی اسی طرح کا ہوتا ہے کہ ان لوگوں کو بے حساب پیسے خرچ کرنے کی عادت ہو جاتی ہے اب تھوڑے پیسوں میں ان کا گذارا تو ممکن ہی نہیں ہو سکتا۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی عالیشان سے عالیشان مکانات بنوائے جاتے ہیں۔ بے جا پیسوں کی بربادی۔۔۔۔۔ تعلیم کے لئے کوئی خرچ کرنے کے لئے  تیار نہیں۔ پہلے لوگ خط لکھا کرتے تب اس خط میں چہرہ نظر آجاتا تھا مگراب تو یہ رواج بھی ختم ہوگیا۔۔۔ اب تو خطوط کی جگہ سوشل میڈیا نے لےلی ہے۔

یہاں بیوی گھنٹوں سوشل میڈیا پروقت گذارتی ہیں وہاں شوہر اپنا اکیلا پن دور کرنے کے لئے سوشل میڈیا پر وقت گذارتا رہتا ہے۔ اس سے دونوں ہی غلط راہ روی پر چلے جاتے ہیں۔ ۔۔ لڑائی جھگڑے شروع ہو جاتےہیں۔ گھر ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔ دنیاوی خوشیوں اور آسائشوں کے لئے آخرت کو بھول جاتے ہیں۔ بیوی یہاں بوڑھی ہوجاتی ہے اور شوہر وہاں بوڑھے ہو جاتے ہیں۔ جب بیماریاں آ گھیرتی ہیں تو دیس اورگھر یاد آتا ہے۔ کئی بار تو ایسا بھی ہوتا ہے جو ایک بر چلا جائے تو پھر اس کا صرف بے جان جسم ہی اپنے دیس اپنے گھر لوٹتا ہے۔ کیا فائدہ ایسی دولت کا۔۔۔۔۔؟؟؟؟ کیا کروگے ایسے پیسوں کا؟؟؟؟

جو وقت ایک دوسرے کے ساتھ گذارنا چاہئے اس کے لیے خود ہی جدائی کا انتخاب کرتے ہیں۔ زندگی صرف  اور صرف ایک بار ہی ملتی ہے۔ آپ ذرا غور کیجئے کہ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ آپ کتنے سال رہ پاتے ہو۔۔۔۔۔غور کیجئے۔ ۔۔۔۔۔!

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    ماشاءاللہ بہت اچھامضمون ہے،چونکہ میں بھی ایک طویل عرصےسےسعودی عرب میں مقیم ہوں،میرےپاس بھی اچھےخاصےتجربات ومشاہدات ہیں,ان شاءاللہ کبھی لکھونگا.سردست یہ لکھناہےکہ میں جب سعودی عرب آرہاتھاتوہوائی جہازمیں ایک گاناباربارذہن میں آرہاتھاوہ یہ کہ,,چل اڑجارےپنچھی اب یہ دیس ہوابےگانہ,,

    لیکن ایک عرصہ گذارنےکےبعداب یہ گاناذہن میں باربارگونجتارہتاہےاورمیں یوٹیوب پرسنتابھی رہتاہوں کہ ,,آاب لوٹ چلیں,,اب پتہ نہیں کب لوٹناہوتاہے..پردیس میں کچھ اچھانہ لگے.

تبصرے بند ہیں۔