اٹل بہاری واجپئی: ایک سیاسی قائد

ضیاء ؔالرحمن

(مظاہرعلوم وقف سہارنپور)

ہندوستان کی سیاست کے شہسوار جناب اٹل بہاری واجپئی اب ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں اس منزل سے جسے لوگ موت اور اجل کے نام سے یاد رکھتے ہیں انہیں بھی گزرنا تھا اس صداقت و حقیقت سے اختلاف قطعاً نہیں مگر ان کی شخصیت ایسی تھی کہ ان کی یادیں، باتیں اور تقریریں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی۔ برسوں تک ہندوستان کے اقتدار پر مستحکم رہنے والے اس شخص نے دلوں پر حکومت کی ہندوستانی سماج کے مزاج کو انہوں نے بخوبی سمجھا اور جس چیز کی سماج کو ضرورت ہوئی ویسے ہی مزاج میں خود کو ڈھال لیا۔ سیاست کی نبض شناسی اس قدر تھی کہ بڑے بڑے مسائل کو چٹکیوں میں حل کر دیا کرتے تھے ایوانانِ علیا و عظمیٰ میں جب وہ گرجتے، حزب اختلاف پر برستے اور مسکت دلیلیں پیش کرتے تو خموشی کا بسیرا ہو جایا کرتا تھا ان کی باتوں کو بغور سنا جاتا، ان کی دلیلوں پر غور کیا جاتا اور ان کو عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔

یقیناً ان کی شخصیت سیاسی تھی سیاست کی دنیا میں وہ دقیق النظر تھے الٹتی بازی کو اپنے بس میں کرنا ان کو اچھی طرح آتا تھا حالات سے نبرد آزما ہونے کا فن وہ اچھی طرح جانتے تھے تین بار وزارت عظمیٰ کو انہوں نے زینت بخشی یقینا وہ ملک قائد اور وزیراعظم تھے دلوں پر حکمرانی کرنے کا فن ان کو اچھی طرح آتا تھا مزاج شاعرانہ رکھتے تھےاس کی بدولت وہ عوام کی نفسیات کو باحسن وجوہ قابو میں کر لیا کرتے تھے۔

جہاں جاتے ان کے نام کے جیکارے ہوتے پارٹی کے اندر ان کی حیثیت سربراہ اور منتظم کی تھی ایک مخصوص جماعت کا ساتھ ان کو کلیۃً حاصل تھا لہذا ان کے مطلب کی بات کرنا یا تو ان کی ضرورت تھی یا ان کی مجبوری برادران وطن کو اس کا قلق رہے گا۔ نیز بعض ایسے امور کی وجہ سے ان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا عہدے سے مستعفی بھی ہوئے الیکشن میں سافلی نتیجہ بھی سہنا پڑامگر ملک کی یہ بدقسمتی رہی ہے کہ عظیم آزادی کے بعد یہ ملک خانہ جنگی و تعصب پرستی کا شکار بن کر رہ گیا لہٰذایہاں اقتدار پاؤں جمائے رکھنے کے لئے اکثریت کو قابو میں رکھنا سیاسی رہنماؤں کی مجبوری بن گئی جس کی وجہ سے ان کو راہِ اقتدار ہموار کرنی پڑتی ہے جس کے لیے متعدد بار ایسے کارنامے سرزد ہو جاتے ہیں جن پر تاریخ افسوس بکف ہوتی ہے۔

بہرحال آج جب وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے لہذا ان کے بارے میں چند معروضات بطور خراجِ تحسین و کلماتِ تزیین رقم کر دیے ہیں اس موقع پر وہ مذہبی کلمہ تحریر کرنا موزوں ہے کہ خدا سب کا بھلا کرے(ईश्वर सबका भला करें) بالیقین جس نقطۂ نظر سے انہوں نے یہاں کی سیاست کو دیکھا بھالااور پرکھا اسی پر انہوں نے اپنی زندگی کو ڈھالاجیسی سیاست ہندوستان میں آزادی کے بعد سے اب تک ہوتی آرہی تھی اسی سیاست کو انھوں نے اپنا مزاج و عادت بنایا اور وہ اس میں مکمل کامیاب بھی ہوئے۔

تاریخ ہمیشہ تجھے محفوظ رکھے گی

چرچا ترا میخانہ میں ہر روز ہی ہوگا

ان کے تلامذہ جنہوں نے ان سے سیاست کے نشیب و فراز سے آگاہی حاصل کی وہ بھی اسی روش پر چل رہے ہیں آخر عمر میں جب وہ ہرم سنی کی انتہا کو پہنچ گئے تھے تب شاید وہ اس بات کو سوچا کرتے ہوں گے کہ ملکِ ہندوستان کسی خاص قوم کا ملک نہیں بلکہ یہاں اس فضا میں سانس لینے والا ہر جاندار ہندوستانی ہے کاش آج کے سیاسی رہنما بھی جو یہاں کی مٹی سے بھی محبت کے دعویدار ہیں اس بات کو سمجھ لے کہ دیگر مذاہب کی اقوام و ملل بھی اسی مٹی کی پیداوار ہیں۔

ہندوستان کی حکومت نے انہیں بھارت رتن سے نوازا اور نہ معلوم کتنے اعزاز ان کی نذر ہوئے مگر آج جب دنیا کو انہوں نے الوداع کہا تو نہ ان کے یہ اعزاز کام آئے اور نہ اعزاء۔ حکومت سات یوم کے نوحہ کا اعلان کرے یا سات سو اب آخری منزل سے ان کی واپسی غیر متوقع ہے یہ موقعہ ہے ان کی حکمتِ عملی کو اپنانے والوں کے لئے کہ وہ بھی اس منزل کے لئے سامان سفر تیار رکھے بہت ممکن ہے کہ اگلا کجاوہ آپکا ہی اٹھ جائے لہذا احبابِ وطن سے محبت کو اپنا معیار اور ترقی کو اپنا نشانِ انتخاب بنائے تشدد و تعصب سے حکومت جیتی جاسکتی ہے مگر دل نہیں اور جب دل ٹوٹتا ہے تو حکومتیں ہی نہیں گرتی بلکہ قیامتیں برپا ہوجاتی ہے۔

1 تبصرہ
  1. محمد عثمان کہتے ہیں

    عید مبارک کہنا ۔
    عید کی مبارک باد دینے میں کوئی حرج نہیں لیکن گفتگو کا آغاز سلام سے ہی ہونا چاہیے بغیر سلام کے عید مبارک نہ کہا جائیے

تبصرے بند ہیں۔