ورزش سے ملتی ہے صحت و تندرستی اور طاقت

ڈاکٹر نازش احتشام اعظمی

ایک خوشگوار زندگی بسر کرنے کیلئے انسان کا صحت مند ہونا ضروری ہے، لیکن صحت اور تندرستی ورزش کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔ ورزش دو طرح کی ہوتی ہے۔ ایک جسمانی اور دوسری دماغی، دماغی ورزش بھی انسان کیلئے اتنی ہی ضروری ہے، جتنی کہ جسمانی کیونکہ جس طرح ایک بے کار آدمی جسمانی طور پر نکما اور کاہل بن جاتا ہے اس طرح اگر دماغ سے کام نہ لیا جائے تو وہ بھی نکما ہوکر انسان کی فطرت کو بگاڑ دیتا ہے۔ بے کار آدمی کا دماغ ایک طرح کا شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ ورزش انسان کو چاک وچست اورپھرتیلا بننے میں بڑی مدد دیتی ہے۔ اس سے ہمارا انسانی جسم توانا اور مضبوط ہوتا ہے جو لوگ ورزش نہیں کرتے وہ جلدی تھک جاتے ہیں، ان کے جسم کا گوشت نرم پڑ جاتا ہے اور اعصاب کمزور پڑ جاتے ہیں۔ پیٹ عموماً بڑھ جاتے ہیں، معمولی کام کرنے سے بھی سانس پھولنے لگتا ہے، کھانا صحیح طرح سے ہضم نہیں ہوتا جس کی وجہ سے خون میں کمی واقع ہوجاتی ہے، مختلف کھیل بہترین ورزش کا کام دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلباء کوا سکول میں مختلف کھیلوں میں حصہ دلواتے ہیں، فٹ بال، ہاکی، والی بال، کرکٹ وغیرہ کھیلنے کی ترغیب دی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں چہل قدمی بھی ورزش میں شمار کی جاتی ہے اس سے انسان کا دماغ بھی روشن ہوتا ہے۔ معدہ اور جگر کا عمل درست کرنے کیلئے ہمیں چاہئے کہ روزانہ ورزش کیا کریں کیونکہ ہماری صحت اور تندرستی کا انحصار اسی پر ہے۔ لہٰذا ورزش سے غفلت نہیں برتنی چاہئے ورنہ ہم کاہل اور سست ہوکر رہ جائیں گے۔ واضح رہے کہ دنیا میں ابتدائی زمانے سے انسان سختی اور جفاکشی کا عادی رہا ہے۔ درختوں کو کاٹنا، گرانا، چیرنا، کنویں کھودنا، شہ سواری اور زراعت وغیرہ اس کے مشغلے رہے ہیں۔ کروڑوں برس سے انسان جس طرح اپنے اعضا سے کام لے رہا ہے ان کو یکایک تبدیل نہیں کیا جاسکتا اور کیا جائے گا تو کہیں نہ کہیں زد پڑے گی، اس لیے دڑبے کی مرغیوں کی طرح زندگی گزار نا خلافِ فطرت ہے۔

ورزش زندگی باقی رکھنے کیلئے اسی طرح ضروری ہے جس طرح ہوا، پانی غذا اور نیند۔ یہ بات دل چسپی سے پڑھی جائے کہ ایک تندرست آدمی کو ایک ہفتے کے لئے بستر پر لٹا دیا جائے تواس کی طاقت اس قدر زائل ہو جائے گی کہ اسے اپنی پہلی حالت پر آنے کیلئے تین ہفتے درکار ہوں گے۔ ورزش سے غذا ہضم ہوتی ہے۔ وزن مناسب ہو کر برقرار رہتا ہے۔ اسی وجہ سے ورزشی لوگ خوش خوراک ہونے کے باوجود تندرست رہتے ہیں، ورزش دل کو جس قدر قوت پہنچاتی ہے اس قدر قوت کسی چیز سے نہیں پہنچتی نہ ڈاکٹر حکیم کی دواؤں سے اور نہ جرائح کے نشتر سے کیونکہ ورزش سے متبادل رگیں قدرتی طریقے پر حاصل ہوتی ہیں۔

تندرست آدمی کوکسی بھی روزش سے نقصان نہیں پہنچتا۔ جن مشہور لوگوں نے بڑی عمریں پائی ہیں مثلاََ مولوی عبدالحق، مولانا غلام رسول مہر وغیرہ یہ سب صبح ہوا خوری کے عادی تھے۔ جوش ملیح آبادی صاحب صبح کو اس قدر روزش کر لیتے تھے کہ پسینا گرنے لگتا تھا۔ وہ اپنے زمانے کے سب سے طویل العمر شاعر تھے۔

یہ ضروری ہے کہ ہر عمر، موسم او رزمانے میں جسمانی مشقت کی ترغیب اور ترویج کی جائے، کیونکہ ورزش سے فرحت اور تازگی کی کیفیت طاری ہوتی ہے۔ جو لوگ پریشان ومضطرب ہوتے ہیں ان میں خوش دلی آتی ہے حوصلہ، اْمید اور اعتماد بڑھتا ہے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ ورزش سے عمر میں اضافہ ہو نہ ہو اس سے زندگی کو توانائی ضرور ملتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ورزش سب سے اچھی خواب آور (نیند لانے والی) شئے ہے۔

ورزش شروع کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ورزش نہ صرف موزوں ہو، بلکہ اس میں پابندی اور باقاعدگی ہو قابل عمل ہو، بے خطر ہو اور روزش کرنے کا ضروری سامان موجود ہو۔ موسم، مزاج اور ماحول کو بھی پیش نظر رکھا جائے۔ ورزش کیلئے ضروری ہے کہ متحرک ہو، یعنی رفتار اور حرکت ہو اور جسم کے بڑے پٹھوں کا خاطر خواہ استعمال ہو، تاکہ خون کی گردش سے زور اور قوت پیدا ہو۔ یہ ضروری ہے کہ ورزش میں ٹانگیں بھرپور حصہ لیں، کیونکہ ٹانگوں کے پٹھوں کی حرکت سے خون کی روانی دل کی طرف ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے دورانِ خون میں بازوؤں سے زیادہ اہم ٹانگیں ہیں اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ایک دل ٹانگوں میں بھی ہے۔

ورزش کو ہمت کے مطابق رفتہ فتہ اس قدر بڑھایا جائے کہ اچھی معلوم ہو اور چہل قدمی بڑھ کر تیز قدمی ہو جائے۔ ایک گھنٹے میں تین میل کا فاصلہ طے کر لیا جائے۔ دوسری ورزشوں میں سائیکل چلانا، تیرا کی گھڑ سواری، باغ بانی، سیڑھیاں چڑھنا اور ایک جگہ کھڑے کھڑے دوڑ لگانا شامل ہیں۔ ورزش اس وقت کی جائے جب معدہ خالی ہو او ر کھانا کھائے ہوئے کم از کم چار گھنٹے سے زیادہ گزر چکے ہوں۔ بہتر ہے کہ علیٰ الصباح نہار منہ ورزش کی جائے۔ ورزش سے نبض او رسانس کی رفتار دونوں میں تیزی آجاتی ہے۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ جسم کا تمام نظام متحرک ہو گیا ہے اور یہ رفتار ورزش ختم کرنے کے تین منٹ بعد اپنی اصلی حالت پر آجانا چاہیے۔ ورزش جب ختم کے قریب ہوتو اس کو ایک دم ختم نہیں کر دیں، بلکہ کچھ وقت جسم کو ٹھنڈا ہونے کیلئے بھی دیں، تاکہ جسم یکایک حرکت سے سکون میں نہ آجائے۔

ورزش ہفتے میں کم سے کم تین دفعہ اور زیادہ سے زیادہ چھ دفعہ کی جائے۔ اگر ورزش زوردار ہو تو پندرہ منٹ اگر آرام سے کی جائے تو ایک گھنٹے تک ہونا چاہیے، یعنی چہل قدمی تین میل فی گھنٹے کی رفتار سے ایک گھنٹے تک، تیز قدمی جس میں ہلکی دوڑ لگائی جائے بیس منٹ اور سخت اور زور دار دوڑ جس میں پسینا آجائے سانس چڑھ جائے دل کی رفتار تیز ہو جائے یا ہلکی سی تھکن ہو جائے8 سے12 منٹ کی جائے۔ وقت ہو تو چہل قدمی جو تیز رفتاری سے کی جائے سب سے اچھی ورزش ہے، لیکن سب سے مناسب قابل عمل اور سست روزش یہ ہے کہ گھر کے کسی گوشے میں کھڑے کھڑے سائیکل چائیں یا ایک جگہ کھڑے ہو کر دوڑ لگائیں یعنی ایک مقام پر کھڑے ہو کر اْچھلیں کودیں۔ بچوں میں شروع ہی سے ورزش کی عادت ڈالنی چاہیے۔ اب ہم ذیل میں قدرے تفصیل کے ساتھ ورزش سے نکلنے والے فوائدبیان کئے جاتے ہیں جس کی افادیت کا اعتراف جدید سائنس نے بھی کیا ہے جس میں کہا گیاہیکہ ایسی خبریں آتی رہتی ہیں کہ سائنس دان ایک ایسی گولی بنانے میں کامیاب ہونے والے ہیں جس سے بغیر حرکت کیے ورزش جیسے فوائد حاصل ہوں گے۔ تاہم سچ یہ ہے کہ کوئی دوا یا سپلیمنٹ وہ فوائد نہیں دے سکتا جو ورزش سے مل سکتے ہیں۔ شاید ایسی دوا کبھی بھی نہ تیار ہو سکے۔ ہم اکثر سنتے رہتے ہیں کہ باقاعدگی سے ورزش دل کی صحت بہتر بناتی ہے اور پٹھوں کو مضبوط کرتی ہے۔ البتہ اس سے معیارزندگی کئی طرح سے بلند ہوتا ہے۔ ورزش کے پانچ فوائد ایسے ہیں جو شاید آپ کو حیران کر دیں۔

اچھی نیند:

امریکی تنظیم نیشنل سلیپ فاؤنڈیشن کے ایک جائزے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ ’’ورزش نیند کے لیے اچھی ہے‘‘ ایک ہزار افراد پر مشتمل اس جائز ے سے معلوم ہوا کہ جو افراد بھرپور ورزش کرتے ہیں ان کی نیند کا معیار بہترین ہوتا ہے۔ جائزے سے یہ بھی پتا چلا کہ جو افراد ورزش نہیں کرتے ان کی نسبت ورزش کرنے والوں کو گزشتہ دو ہفتوں کے دوران نیند نہ آنے یا رات کے وقت چلنے کی شکایت نہیں ہوئی۔ ورزش اور نیند کے درمیان تعلق پر ہونے والی 66 تحقیقات اس امر کی تائید کرتی ہیں۔ ان سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ نیند کے آغاز، عرصے اور معیار کے لیے باقاعدگی سے ورزش نیند کی ادویات یا کرداری تھراپی جتنی مفید ہے۔ محققین اس کی وجہ معلوم نہیں کر پائے لیکن ان کا اندازہ ہے کہ جسمانی سرگرمی جسم کے درجہ حرارت، نظام انہضام، دل کی دھڑکن اور تشویش کی سطح پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ چونکہ ورزش سے ہمارا جسم چاک و چوبند ہوتا ہے اس لیے عام طور پر یہی خیال کیا جاتا ہے کہ شام کے وقت ورزش کرنے سے نیند خراب ہوتی ہے لیکن نوجوانوں کے ساتھ ساتھ عمررسیدہ افراد پر ہونے والی تحقیق سے اس امر کی تصدیق نہیں ہوسکی۔ بلاشبہ ہر انسان مختلف ہے اس لیے ممکن ہے رات کے وقت ورزش سے کچھ کو سونے میں مشکل ہوتی ہو لیکن یہ جاننے کے لیے ایک بار خود تجربہ کرنا پڑے گا۔

زکام کم ہونا:

شاید ورزش کے کسی شوقین نے آپ کے سامنے دعویٰ کیا ہو کہ وہ بیمار نہیں ہوتا۔ بظاہر یہ جھوٹا لگتا ہے لیکن اس میں سائنسی سچ بھی موجود ہے، متعدد تحقیقات سے یہ پتا چلا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش زکام کے امکان کو کم کردیتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ہزار بالغوں پر تین ماہ تک کی جانے والی تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو افراد ہفتے میں پانچ روز ایروبک ایکسرسائز کرتے ہیں ان میں یہ ورزش نہ کرنے والوں کی نسبت زکام کا امکان نصف ہوتا ہے۔ نیز جب ورزش کرنے والوں کو زکام ہوتا ہے تو اس کی شدت کم ہوتی ہے۔ جانوروں اور انسانوں دونوں پر ہونے والی تحقیق بتاتی ہے کہ زکام نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ورزش سے مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ اسی کے ساتھ شدید جسمانی سرگرمی دباؤ پیدا کرنے والے ہارمونز کورٹیسول اور ایڈرینالین کو حدود میں رکھتی ہے جس سے مدافعتی نظام کی کارکردگی بہتر ہو جاتی ہے۔

صحت مند آنکھیں :

جب بہتر نظر اور ورزش کے تعلق کی بات کی جاتی ہے تو خیال یہی آتا ہے کہ آنکھوں کی کسی ورزش کا ذکر ہو رہا ہے۔ لیکن یہاں یہ بات نہیں ہو رہی۔ آپ کو اپنی آنکھوں کی بجائے اپنی ٹانگوں کو حرکت دینے کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے یہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جسمانی سرگرمی سے نظر کی کمزوری کا خطرہ کم ہو جاتا ہے۔ مثال کے طور پر 50 ہزاردوڑ لگانے والوں اور چہل قدمی کرنے والوں کا جائزہ لیا گیا۔ پتا یہ چلا کہ جو زیادہ شدت کے ساتھ ورزش کرتے ہیں ان میں نظر کی کمزوری کے امکانات ہلکی پھلکی ورزش کرنے والوں کی نسبت 42 فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔ اسی طرح کی ایک اور تحقیق میں عمر کے بڑھنے کے ساتھ پٹھوں میں ہونے والی کمزوری کے بارے میں جاننے کے لیے 42 ہزار دوڑ لگانے والوں کا جائزہ لیا گیا۔ نظر کی کمزوری میں پٹھوں کی کمزوری کا بہت عمل دخل ہوتا ہے۔ تحقیق سے معلوم ہوا کہ جو جتنا دوڑتا ہے اس میں اس مسئلے کا شکار ہونے کا امکان اتنا کم ہوتا ہے۔ ایک اور تحقیق چار ہزار افراد پر 15 ہزار سال تک ہوتی رہی جس سے پتا چلا کہ جو افراد جسمانی طور پر متحرک رہتے ہیں ان میں نظر کی کمزوری کے امکانات کم ہوتے ہیں۔

بہتر قوت سماعت:

شاید آپ پہلی بار جان رہے ہوں کہ سماعت کو ورزش سے فائدہ پہنچتا ہے۔ 68 ہزار نرسوں کا 20 سال تک جائزہ لیا گیا اور معلوم یہ ہوا کہ کم از کم ہفتے میں دو گھنٹے چہل قدمی کرنے والیوں میں سماعت کی کمی کا امکان کم ہوگیا۔ بعض دیگر تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ اچھی فٹنس ہو تو سماعت میں خرابی کا مسئلہ بھی کم ہوتا ہے۔ ورزش سے کان کے اندرونی حصوں میں خون کی گردش بہتر ہوتی ہے جو قوت سماعت کے لیے مفید ہے۔ ورزش سے ذیابیطس اور دل کے امراض کم ہوتے ہیں۔ یہ امراض قوت سماعت کو متاثر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔ بلاشبہ ورزش کے دوران زوردار موسیقی سے کانوں پر برا اثر پڑتا ہے۔

باتھ روم کا بہتر استعمال:

مناسب اور متوازن ورزش سے غیرارادی طور پر پیشاب نکلنے کے مسئلے پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ اس بارے میں عمررسیدہ نرسز پر تحقیق کی گئی جس سے اس امر کی تصدیق ہوئی۔ پیشاب سے متعلق مسائل درمیانی عمر اور بڑھاپے میں زیادہ ہوتے ہیں لیکن ورزش کی مدد سے ان سے بچا جا سکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق نیکٹوریا جیسی بیماری ورزش کرنے سے کم ہوتی ہے یا زیادہ شدید نہیں ہوتی۔ عورتوں اور مردوں میں قبض ایک عام مرض ہے لیکن ورزش کافی حد تک اس مسئلے کو حل کرتی ہے۔ 62 ہزار عورتوں پر ہونے والی ایک تحقیق سے معلوم ہوا کہ روزانہ کی بنیاد پر ورزش کرنے والی عورتوں میں ایسا نہ کرنے والوں کی نسبت قبض کا امکان نصف تھا۔

تبصرے بند ہیں۔