اپنی زبان کی حفاظت کیجیے

 مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی

کام کی بات کرنے والاانسان لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتاہے اورزیادہ بولنے والے انسان سے لوگ دور بھاگتے ہیں اورزیادہ بولنے والاشخص اکثر اپنی زبان کی تیزی کی وجہ سے مارکھاجاتاہے زبان کی حفاظت کرنے والے لوگ دلوں میں بس جایاکرتے ہیں چند ضروری باتیں زبان کے بول پرقارئین کی خدمت میں پیش کی جاتی ہیں۔

حضرت سہل بن سعدرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسولﷺنے فرمایا: جو شخص مجھے اپنے دونوں جبڑوں اوراپنے دونوں پیروں کے درمیان کی چیزکی ضمانت دے تومیں اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔

لفظ جنت بڑامحترم، پیارااورمحبوب لفظ ہے،اسے سنتے ہی دل میں عجیب کیفیت پیداہوتی ہے، اور دنیا کاہرمسلمان جس میں ذرہ برابربھی ایمانی نورہے، وہ جنت کے حصول کی تمناضرور کرتا ہے۔ اسے یقین ہے کہ مرنے کے بعداس کاکوئی نہ کوئی ٹھکانہ ضرورہے، اگراللہ نے خاتمہ بالخیرنصیب فرمایاہے تووہ ضر ورجنتی ہوگا۔ اللہ ہمیں خاتمہ بالخیرنصیب فرمائے(آمین)

حدیث شریف میں اسی عظیم الشان نعمت کے حصول کابہترین طریقہ بتایاگیاہے۔ روایت مذکورہ کہتی ہے کہ اگرکوئی آدمی دوعضوکی حفاظت کی گارنٹی دیدے تواسے جنت میں داخلہ کی خوشخبری دی جاتی ہے۔ ایک وہ جودونوں جبڑوں کے درمیان ہے، یعنی زبان، دوسرے وہ جوٹانگوں کے درمیان ہے یعنی شرمگاہ،یعنی زبان اورشرمگاہ کی حفاظت کرنے والا انسان ضرورجنت میں جائے گا۔

زبان:

اعضا انسانی میں زبان کوبڑی اہمیت حاصل ہے۔ کیوں کہ اللہ رب العالمین نے اسے نہایت ہی صاف ستھرابنایاہے،اوربڑی حفاظت کی جگہ رکھاہے۔ زبان دین اوردنیادونوں کی کامیابی کامدارہے۔ جس آدمی کی زبان اس کے قبضہ میں ہے وہ بڑا دانا اور بینا سمجھا جاتاہے۔ زبان کواللہ پاک نے انسانی وجود میں وہ مقام دیاجو کسی اور عضوکونہیں دیا،اس کابول ہی انسان کی اصلیت کوواضح کر دیتا ہے، زبان کی حفاظت کرنابھی انسان کی ذمہ داری ہے اس سے نکلاہوابول انسان کوعروج بھی دیتاہے اورزوال بھی،عرب کا مشہورمثل ہے لسان الحکیم فی قلبہ وقلب الاحمق فی لسانہ یعنی دانشمندوں کی زبان اس کے دل میں ہوتی ہے اوربیوقوفوں کادل اس کی زبان میں ہوتاہے۔ دانشمند پہلے دل اورعقل کے معیارپرکسی لفظ کو پرکھتا، جانچتا اورتولتاہے، پھربولتا ہے۔ اوربے وقوف پہلے بولتا اور پھرسوچتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ دانشمند اپنی باتوں پرکم نادم ہوتاہے، اوربے وقوف کی بات کبھی کبھارہی برمحل ہوتی ہے۔ کیاخوب کسی شاعرنے کہا ہے

؎  حرف حرف سوچیے، لفظ لفظ تولئے

خوب غورکیجئے پھرزباں کھولیے

زبان کے شیریں رکھنے سے انسان بڑاسے بڑاکام آسانی سے کرلیتاہے، سخت سے سخت دل کو موہ لیتاہے اورکٹھن مراحل آسانی سے طئے کرلیتاہے۔ دشمن کے دلوں کوفتح کرلینانرم زبانی اورشیریں کلامی کے ذریعہ بڑاآسان ہوتاہے۔ کیوں کہ گفتگوکی نرمی درحقیقت سخت دلوں کے موہنے کاشہد ہوتا ہے۔ زبان کانرم اورشیریں ہونا درحقیقت اللہ رب العالمین کاایک بڑاعطیہ اوررحمت ہے،جیساکہ خوداللہ تعالی کا ارشاد ہے: (ترجمہ) سوکچھ اللہ ہی رحمت ہے جوتونرم دل مل گیاان کو اور اگر تو ہوتا تندخوسخت دل تو متفرق ہوجاتے تیرے پاس سے۔

آیت کریمہ میں اگرچہ دل کی نرمی کورحمت بتایاگیا ہے مگرچوں کہ زبان دل کی ترجمان ہوتی ہے، اس لیے دل کی نرمی کے ساتھ زبان کاشیریں اورنرم ہونابھی یقینااللہ کی بڑی رحمت ہے۔ چنانچہ ایک روایت میں خوداللہ کے رسولﷺ نے فرمایا:بدترین ہے وہ انسان جس کی فحش کلامی کے وجہ سے انسان اس سے ملناچھوڑدیں۔ یعنی جس آدمی کی زبان میں نرمی کاپہلونہیں وہ بدترین درجہ کاانسان ہے(مشکوۃشریف)

زبان کی نرم گوئی سے جس طرح سنگ دل انسان کامن موہ لینا،اسے اپناگرویدہ بنالینا بڑا آسان ہے،اسی طرح زبان سے دوسرے کوایذاپہنچانااپنے حلق جلوس سے دور کر دینا کچھ مشکل نہیں، کسی کوستانابھی نہایت سہل کام ہے۔ زبان کی درستگی اور سالمیت درحقیقت تکمیل ایمان کاایک ذریعہ بھی ہے،

 چنانچہ نبی اکرم ﷺ نے ایک روایت میں ارشادفرمایا:ترجمہ۔ اچھااورکامل ایمان والامسلمان وہ ہے،جس کی زبان اورہاتھ سے کسی کادل نہ دکھے۔ بیٹھے بیٹھے زبان سے کسی کادل دکھادینابڑاآسان ہے،زبان اگردرست اورصحیح ہے توجسم کے سارے اعضا درست اورصحیح ہوں گے۔ لیکن زبان اگربگڑجائے توجسم کے ہرعضوکواس کا خمیازہ بھگتناپڑتاہے،

غورکیجئے! جسم کاہرعضوبالکل ٹھیک ٹھاک ہولیکن اگرخدانخواستہ (العیاذباللہ)مرتے وقت کلمہ کفرنکل گیاتوسارے جسم کواس کی سزاملتی ہے۔ اسی طرح اگرکسی بدخلق، بدزبان انسان نے دوران بحث مخاطب کے سامنے کوئی نازیباالفاظ بک دیاتواس کے پاداش میں جسم کے ہرہرعضوکوسزادی جاتاہے۔ بلکہ بسااوقات توزبان کے کرتوت کے سبب دائمی مفارقت پڑجاتی ہے، اور بولنے والاہمیشہ افسوس کرتا رہتاہے۔ جیسے غصہ کی حالت میں بے قابوہوکرایک آدمی نے اپنی بیوی کوتین طلاقیں دے دیں اب آئندہ ہائے افسوس کہتا ہوادست تغابن ملتا رہتاہے۔ اورتادم حیات قلب کایہ زخم مندمل نہیں ہوپاتا۔ ایسے ہی موقع پرعربی کے مشہورشاعرنے کیاہی خوب کہاہے:

جراحات السنا ن لھاالتیام ولایلتام ماجرح اللسان

بھرازخم تھاجوبھی تلوارکا مٹانہ اثرجرح گفتارکا

یعنی چھری کاتیرکاتلوارکازخم توبھرجاتاہے لیکن زبان کازخم نہیں بھرتا۔

اسی لیے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ اپنی زبان کومروڑدیاکرتے اور فرمایا کرتے کہ اگر تو ٹھیک ہے توسب ٹھیک اوراگرتوبگڑگئی تودنیاآخرت سب برباد۔ بسا اوقات انسان جذبات میں کوئی جملہ بولتاہے جسے وہ ہلکاسمجھتاہے حالاں کہ اس کی وجہ سے وہ دائر ایمان سے نعوذباللہ خارج ہوجاتا ہے۔ اس لیے ہرآدمی کوبولنے سے پہلے خوب غورکرلیناچاہئیے کہ کیا کہناہے؟کب کہناہے؟یاپھرخاموش رہے۔ جیساکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان اگرگفتگوکرے تو اچھی بات کہے یاپھرخاموش رہے (اوراسی میں بھلائی ہے)(مسلم)

بولنے میں خیر تب ہوتی ہے جب انسان خیر کے لیے زبان استعمال کرے ایک میٹھے بول سے لاتعداد لوگ انسان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں اسی لیے سچ کہاکہنے والوں نے کہ زبان کی مٹھاس دشمن کو بھی دوست بنادیتی ہے اورزبان کی کرواہٹ دوست کو بھی دشمن بنادیتی ہے۔  لہذازبان کواپنے قابومیں رکھتے ہیں دوسروں کے دلوں میں جگہ بنانی ہوگی تب ہمارے لیے بھی راحت وسکون کاسبب بن جائے گی اللہ پاک ہماری زبان کونافع بنائے اور زبان کی حفاظت کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین یارب العالمین بحرمۃ سیدالانبیاء والمرسلین)

تبصرے بند ہیں۔