اپنے بڑھا پے کا انتظام کیجئے!

مفتی اختر امام عادل قاسمی

آج کل ہمارے معاشرہ میں  بوڑھے ماں باپ کے سلسلے میں  جو زیادتیاں  اور حق تلفیاں  ہو رہی ہیں ان کے پیش نظر  یہ چند حدیثیں پیش کی جا رہی ہیں ،  تاکہ ان کی روشنی میں  ہمیں اپنا چہرہ دیکھنے کی  توفیق ہو، اور آئندہ صحیح اسلامی خطوط پر  ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کر نے کا  جذبہ پیدا ہو۔

ماں باپ کا مقام 

حضرت ابو امامہ  رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے پوچھاکہ  یا رسول اللہ ﷺ  اولاد پر ماں باپکا کتناحق ہے ؟آپ نے ارشاد فر مایا کہ وہ تمہاری جنت اور دوزخ ہیں ۔

یعنی اگر تم ان کی اطاعت  اور ان کے ساتھ نیک سلوک  کروگے  تو وہ تمہارے لئے جنت کی تمہید بن جائیں گے،  اور اگر ان کی نا فرمانی اور بدسلوکی کرو گے تو وہی تمہارے لئے جہنم کا  پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں یعنی تم کو دوزخ میں بھیجدیا جائے گا۔

حضرت عبد اللہ ابن عمروابن العاصؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ  نے فر مایا کہ اللہ کی رضامندی  والد کے رضا مندی میں ہے، اور اللہ کی ناراضی  والد کی ناراضی میں ہے۔

معاویہ ابن جاہمہ  سے روایت ہے  کہ میرے والد  جاہمہ رسول اللہ ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوئے  اور عرض کیا کہ” میرا ارادہ جہاد میں جانے کا ہے،  اور میں آپ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لئے حاضر ہوا ہوں ” آپ نے ان سے پوچھا کہ "کیا تمہاری ماں موجود ہیں "انہوں نے عرض کیا "ہا ں ہیں "آپ نے فر مایا”  تو پھر انہی کے پاس  اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے "۔

ماں کا حق باپ سے بھی زیادہ ہے 

حضرت ابو ہریرہ ؓ نقل کرتے ہیں  کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ  سے دریافت کیا کہ  مجھ پر خدمت اور حسن سلوک کا  سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟آپ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ” تمہاری ماں کا، میں پھر کہتاہوں تمہاری ماں کا ، میں پھر کہتا ہوں تمہاری ماں کا، اسکے بعد تمہارے باپ کا حق ہے،  اس کے بعد جو تمہارے قریبی رشتہ دار ہو ، پھر ان کے بعد جو قریبی رشتہ دار ہو”

اس حدیث  میں کن صحابی کا واقعہ ہے،  ذکر نہیں کیا گیا،  لیکن ابو داؤد اور ترمذی میں  حضرت معاویہ  ابن حیدہ قشیری ؓ کا واقعہ  بالکل اسی مضمون کے ساتھ آیا ہے، جس کو ان کے پوتے  بہر ابن حیکم  نے اپنے دادا کی حوالہ سے  نقل کیا ہے  اس لئے ایسا لگتا ہے کہ  شاید یہاں بخاری ومسلم کی روایت  میں ایک شخص  سے مراد  وہی معاویہ ابن حیدہ  قشیری ہوں ۔

یہاں ایک خاص بات یہ ہے کہ حضور نے سائل کے سوال کے جواب میں  تین بار ان کا نام لیا ہے،  اور آخر میں ایک بار باپ کا نام لیا ہے،  جس سے اس طرف توجہ دلانا مقصود ہے کہ  تمہااری خدمت اور حسن سلوک کی  سب سے زیادہ حقدار  تمہاری ماں ہے، اور گویا حسن سلوک کے  تین درجے ماں کے لئے  ہیں ، اور ایک درجہ باپ کے لئے ہے۔

قرآن مجید  نے بھی  اس کے حمل وولادت،  اور پرورش کی  محنتوں کا ذکر کر کے  ماں کی اہمیت  واضح  کی  ہے، بچوں کی پرورش میں ماں ہی کا  سب سے بڑا رول ہوتا ہے، اس کے علاوہ وہ کمزور ہوتی ہے، اس لئے انسان اگر پوری زندگی بھی  ماں کی خدمت میں لگادے  تو بھی ماں کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔

ماں باپ کی خدمت نہ کرنا محرومی ہے 

حضرت ابوہریرہ  کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ وہ آدمی ذلیل ہو  وہ خوار ہو، وہ رسوا ہو،  یا رسول اللہ کون؟( یعنی کس کے بارے میں آپ یہ ارشاد فر ما رہے ہیں) آپ نے  فرمایا”بد نصیب وہ ہے جو ماں باپ کو یا دونوں میں سے کسی ایک ہی کو  بڑھاپے کی حالت میں  پائے پھر (ان کی خدمت کر کے  اور ان کا دل خوش کر کے )جنت حاصل نہ کر لے”۔

بوڑھاپے میں چونکہ  ماں باپ کو خدمت  کی ضرورت  زیادہ ہوتی ہے،  اس وقت وہ کمزور بھی ہوتے ہیں ، اس لئے ایسے وقت میں  ان کی خدمت میں کوتاہی کرنا  سخت بدبختی اور محرومی کی بات ہے، وہ شخص بڑا خوش نصیب ہے  جو ایسے وقت میں  ماں باپ کی خدمت  کر کے  ان سے دعائیں لے  لے۔

جہاد کے بجائے والدین کی خدمت کا حکم 

حضرت عبد اللہ ابن عمر و ابن العاص ؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ ﷺ  کی خدمت میں حاضر ہوا  اور عرض کیا کہ میں جہاد میں جانا چاہتا ہوں ، آپ نے پوچھا کیا تمہارے ماں باپ  ہیں ؟ اس نے کہا ہاں ہیں ، آپ نے فر مایا  "تو پھر ان کی خدمت اور راحت رسانی میں جد وجہد کر(یعنی تمہارا جہاد ہے )۔

یہ حکم ان حالات میں  ہے  جب کہ ماں باپ  ایسی پوزیشن میں  پہنچ گئے ہوں  کہ ان کی خدمت ضروری  ہو اور جہاد  یا کسی  بھی نیکی  کے سفر سے  ان کی خدمت  نہ ہو سکتی ہو  اور کوئی دوسرا دیکھ بھال کر نے والا بھی نہ ہو تو  ایسے وقت  تمام نیکیوں سے  بڑی نیکی  ماں باپ  کی خدمت ہے، حتی کہ جہاد سے بھی۔

حضور ﷺ کو اس شخص کے بارے میں غالبا کسی طرح معلوم ہو گیا  ہو گا کہ اس کے والدین ایسی  ہی پوزیشن  میں ہیں  جس میں ان کی خد مت  ضروری ہے، اس لئے  آپ  آپ نے اس شخص کو جہاد  سے روکدیا، اور ماں باپ کی خدمت ہی کو  اس کے لئے جہاد قرار دیا۔

ماں باپ خواہ کیسے بھی ہوں

حضرت صدیق اکبر ؓ کی صاحبزادی  حضرت اسماء بیان کرتی ہیں کہ رسول ﷺ  اور قریش مکہ کے (حدیبیہ والے) معاہدے کے زمانے میں  میری ماں جو مشرکانہ مذہب پر  قائم تھی (سفر کر کے مدینہ میں ) میرے پاس آئی،  تو میں نے رسول اللہﷺ سے عرض کیا  یارسول اللہ میرے ماں میرے  پاس آتی ہے اور وہ کچھ خواہشمند ہے، تو کیا میں اس کی خدمت کروں ؟آپنے فر مایا، "ہاں اس کی خدمت کرو(اور اس کے ساتھ وہ سلوک  کرو جو بیٹی کو ماں کے ساتھ کرنا چاہیئے”

حضرت صدیق اکبرؓ  کی ایک بیوی جس کانام  "قتیلہ بنت عبد العزی” تھا  اسی بیوی سے حضرت اسماء  ؓ  پیدا ہوئیں ، (حضرت عائشہ ؓ صدیق  اکبر کی دوسری بیوی  سے پیدا  ہوئیں تھیں ، )قتیلہ مسلمان  نہیں ہو  ئی، حضرت صدیق اکبرؓ نے اس کو جاہلیت  ہی میں  طلاق دے کر  الگ کر دیا تھا۔ ۔۔۔۔صلح حدیبیہ کے بعد  جب مکہ کے لوگوں کو مدینہ جا نے کی، اور مدیننہ کے لوگوں کو مکہ جانے کی آزادی ملی، تو اس قتیلہ کو بھی  اپنی بیٹی اسماء سے  ملنے کی خواہش ہوئی، اسی موقعہ  پرقتیلہ حضرت  اسماء  کے پاس پہونچی، غالبا اس کو کسی مالی تعاون کی ضرورت تھی، جیسا کہ حضرت اسماء کے اس لفظ سے معلوم ہو تا ہے،  جو انہوں نے رسول اللہ ﷺ  کے سامنے  کہا تھا (وھی راغبۃ ) وہ کچھ خواہشمند معلوم پڑتی ہیں ، حضرت اسماء نے ایسے موقعہ پر حضورﷺ کی اجازت کے بغیر  کوئی اقدام کرنا مناسب نہیں سمجھا، چونکہ ان کی ماں مشرک تھی،اس لئے حضور نے دریافت کیا کہ کیا میں اپنی ماں  کے ساتھ حسن سلوک کر سکتی ہو،حضور ﷺ نے ان کو کھلی اجازت  دی، اور فر مایا کہ ایک بیٹی ہو نے کے ناطے  جو تمہاری ماں کا تم پر حق  عائد ہوتا ہے، وہ تم پوری طرح ادا کرو، اور اس کی خدمت کرو۔

معلوم یہ ہوا کہ ماں باپ خواہ  کسی عقیدہ کے ہوں ؟ اور ان کا رویا اولاد کے ساتھ کیسا ہی رہا ہو ؟مگر اولاد کو ان کے ساتھ  حسن سلوک کر نا چاہیئے، ۔ ۔۔قرآن مجید میں بھی اسی طرح  کا حکم آیا ہے، سورہ لقمان میں ارشاد ہے، وان جاھداک علی ان تشرک بی مالیس  لک بہ علم فلا تطعھما  وصاحبھما فی الدنیا معروفا، اوراگر(تمہارے والدین)تم کو میرے ساتھ شرک کر نے پر مجبور کریں ،جس  کا تم کو علم نہ ہو، تو ان کی بات  نہ مانو، اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا سلوک کر۔

اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ  والدین سے نظریاتی اور فکری اختلاف  ہو نے سے  ان کی توہین وتحقیر  لازم نہیں آتی، اور نہ یہ چیزیں  ماں باپ کی خدمت  واطاعت  کے حدود میں آتی ہے، اسی طرح فکر وعقیدہ کے لحاظ سے  اولاد کو  اپنے والدین سے چاہے جتنا اختلاف ہو، مگر حسن سلوک  اور خدمت میں کوئی کمی  کر نا جائز نہیں۔

ہمارے معاشرہ میں دونوں جانب سے  غلطیاں ہورہی ہیں، اور بعض والدین سمجھتے ہیں کہ ہماری خدمت واطاعت کا مطلب یہ ہے کہ  ہمارے افکار سے بھی  ہمارے بچوں کو اختلاف نہ ہو، اور اگر ان کا کوئی بیٹا  اس کے خلاف کرتا ہے، تو اہ اس کو اپنی توہین سمجھ لیتے ہیں ،  جو بالکل غلط ہے، ماں باپ اپنی اولاد سے خدمت اور نیک سلوک  کا مطالبہ کر سکتے ہیں ، اپنی  افکار وخیالات  کے پابند بنانے کا  ان کو کوئی اختیار نہیں ہے۔

اسی طرح بہت سے لڑکے سمجھتے ہیں کہ باپ گمراہ ہے، اس لئے ایسے شخص کی خدمت نہیں کرنی چاہیئے، یہ بھی غلط اور گناہ ہے، ماں باپ کیسے ہی ہوں ، لیکن ان کے ساتھ حسن سلوک میں کمی کرنا  خود اپنی بدبختی مول لینا ہے، ہمیں دونوں جانب اپنی اصلاح پر  توجہ دینی چاہیئے۔

 والدین کے حقوق ان کے مرنے کے بعد

ماں باپ کے حقوق زندگی ہی میں ختم نہیں ہو جاتے، بلکہ ان کے مرنے کے بعد  بھی بعض حقوق باقی رہتے ہیں ، مثلا یہ روایات دیکھیئے:

حضرت ابو اسید ساعدی ؓ کا بیان ہے  کہ ایک وقت  جب ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر تھے، قبیلہ بنی سلمہ  کے ایک شخص آئے اور دریافت کیا کہ یا رسول اللہ ﷺ  کیا میرئ ماں باپ کے مجھ پر کچھ ایسے بھی حق ہیں  جو ان کے مرنے کے بعد مجھے ادا کرنی  چاہیئے؟ آپ نے فر مایا  ہاں ، ان کے لئے خیر وبرکت کی دعاء کرتے رہنا، ان کے واسطے اللہ سے مغفرت  اور بخشش مانگنا، ان کا لحاظ رکھنا  اور ان کا حق ادا کرنا، اور ان کے دوستوں کا احترام واکرام کرنا۔

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ  جو کوئی یہ چاہے کہ قبر میں اپنے والدین کو آرام پہونچائے  اور خدمت کرے  تو باپ کے انتقال کے بعد  اس کے بھائیوں کے ساتھ  وہ اچھا برتاؤ کرے جو کرنا چاہیئے۔

حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ کی ہی ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فر مایا کہ باپ کی خدمت اور حسن سلوک  کی اعلی قسم یہ کہ  ان کے انتقال کے بعد  ان کے دوستوں کے ساتھ (اکرام واحترام کا )  تعلق رکھا جائے  اور باپ کی محبت ودوستی کا  حق ادا کیا جائے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ  سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا کہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی اپنے ماں باپ کا یا دونوں  میں سے کسی کا انتقال ہو جاتا ہے  اور اولاد زندگی میں ان کی نا فرمانی  کرتا ہے  اور ان کی رضامندی سے محروم  ہوتی ہے، یہ اولاد ان کے انتقال کے بعد (سچے دل ) سے ان  کے لئے  خیر ورحمت کی دعاء  اور مغفرت وبخشش کی استدعا کرتی رہتی ہے (اور اس طرح  اپنے مقصد کی تلافی کرنا چاہتی ہے) تو اللہ تعالی اسکی نا فرمان اولاد کو  فر ماں بردار قرار دیتا ہے (پھر وہ نا فرمانی  کے وبال  اور عذاب سے بچ جاتی ہے (شعب الایمان للبیہقی)

ماں باپ کی خدمت کا دنیا میں بدلہ

ماں باپ کی خدمت کا اصل بدلہ  کل قیامت  اور جنت میں ملے گا،مگر یہ چیز ایسی ہے کہ  اس کے برکات کا ظہور  دنیا سے ہو نے لگتا ہے، اس کے لئے یہ روایت دیکھیئے:

 حضرت عبد اللہ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فر مایا اپنے آباء(ماں باپ ) کی خدمت وفر ماں برداری کرو،  تمہاری اولاد تمہاری فرماں بردار  اور خدمت گذار ہوگی اور تم پاکدامنی کے ساتھ رہو  تمہاری عورتیں پاکدامن رہیں گی، (معجم اوسط للطبرانی)

دنیا میں بہت کم نیکیاں ہیں جن کا بدلہ اسی دنیا میں  ملنا شروع ہو جائے، اور آخرت تک ملتا رہے،  انہی میں سے ایک بڑی نیکی ماں باپ کے ساتھ  نیک سلوک کرنا ہے،  جو شخص ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرتا ہے، وہ ماں باپ پر کوئی احسان نہیں کرتا وہ دراصل اپنے آپ پر احسان کرتا ہے، اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو اس بات کا حق دار بنادیتا ہے  کہ اس کی اولاد بھی اس کی خدمت کرے، اور اس کی فرماں بردار رہے، اس لئے اگر کسی کے ماں باپ نے  اس پر ظلم کیا ہو  تو اس کا بدلہ بوڑھاپے میں  ان سے نہ چکائے، اس لئے کہ اگر وہ ایسا کرے گا  تو درحقیقت وہ  ماں باپ سے  بدلہ نہیں چکائے گا،  بلکہ اپنے مستقبل کو تاریک کرے گا، اسکی اولاد  اس کے ساتھ بھی  یہی سلوک کرے گی،  یہی ہوتا آیا ہے،  اور دیکھنے ولوں نے ہر دور میں  کے نمونے دیکھے ہیں

(حدیث کا ترجمہ تھوڑی ترمیم کے ساتھ، معارف الحدیث  ششم مصنفہ  مولانا منظور نعمانی ؒ سے لیا گیا ہے)۔ْ

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔