خود میں یوں ہی نہ رائگاں ہو جاؤں

افتخار راغبؔ

 خود میں یوں ہی نہ رائگاں ہو جاؤں

بند توڑوں رواں دواں ہو جاؤں

مجھ پہ الزامِ عشق ہو اور میں

اپنے حق میں ترا بیاں ہو جاؤں

 موسمِ زرد کا تقاضا ہے

سبز پتوں کی داستاں ہو جاؤں

 دیکھ کر بھی نہ کچھ دکھائی دے

اس قدر بھی نہ خوش گماں ہو جاؤں

 اِس طرح دوں ہر امتحاں اے دل

ممتحن کا ہی امتحاں ہو جاؤں

 جب وہ پوچھیں کہ تم ہی راغبؔ ہو

ہونٹ سِل جائیں اور میں ہاں ہو جاؤں

تبصرے بند ہیں۔