جہاد اور روح جہاد

سعود فیروز اعظمی

’جہاد اور روح جہاد‘ مولانا محمد عنایت اللہ اسد سبحانی کی تازہ ترین تصنیف ہے۔مصنف موصوف اپنے گوناگوں علمی اجتہادات اور ان کے بیباکی کے ساتھ اظہار کے سبب دنیا بھر کے علمی حلقوں میں تعارف کے محتاج نہیں ہیں۔ موصوف کی متعدد تحقیقی تصانیف اردو اور عربی زبانوں میں شائع ہوکر بے شمار افراد کی علمی اصلاحات کا ذریعہ بن چکی ہیں۔ البرہان فی نظام القرآن،بہجۃ الجنان فی تاریخ تدوین القرآن، حقیقت رجم اور تبدیلی مذہب اور اسلام وغیرہ کتب کا نام خاص طور سے قابل ذکر ہے۔

زیر تبصرہ کتاب میں مصنف موصوف نے جہاد اور متعلقات جہاد پر گفتگو کی ہے۔ جہاد کوئی نیا موضوع نہیں ہے اور  ایسا بھی نہیں ہے کہ جہاد کے موضوع پر اس سے پہلے کوئی قابل ذکر کتاب نہیں لکھی گئی۔ خود اردو زبان میں مختلف زمانوں میں جہاد کے موضوع پر متعدد کتابیں منصہ شہود پر نمودار ہوتی رہی ہیں۔ لیکن جہاد بہر حال ایک ایساحساس اور تحقیقی موضوع ہے کہ اس کے اصل معنی و مفہوم، اصل غرض و غایت، اصل روح اور درپیش حالات میں اس کے طریقہ کار کی تفہیم وتجدیدکی گنجائش بہرحال باقی رہ جاتی ہے۔ زیر تبصرہ کتاب میں جہادکی جو تعبیر و تشریح اور تفصیل بیان کی گئی ہے وہ کم از کم اردو حلقے کے لیے ایک نئی اور منفرد تحقیق ہے۔

اس وقت صورت حال یہ ہے کہ غیر مسلم افراد تو جہاد کے سلسلے میں غلط فہمیوں کے شکار ہیں ہی، خود امت مسلمہ کے افراد بھی جہاد کے سلسلے میں فکری و عملی افراط و تفریط کے شکار ہیں۔ اس افراط و تفریط کی اصل وجہ  جدید مادی نظریات کی شعبدہ بازی اورعالمی سیاسی طاقتوں کا استعماری استبداد بھی ہے۔ لیکن ملت کا المیہ یہ ہے کہ یہاں خالص سیاسی او ر جغرافیائی مسائل کو بھی مذہبی رنگ میں رنگ کر سمجھا اور سمجھا یا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر موقف اختیار کیے جاتے ہیں اور مسائل کے ’’حل‘‘ پیش کیے جاتے ہیں۔ جہاد کے حوالے سے ملت میں ایک طبقہ تو وہ ہے جو اسلامی شدت پسند ی کا ترجمان ہے۔ یہ وہ طبقہ ہے جس کے نزدیک دنیا کے تمام سیاسی، نسلی،لسانی،علاقائی،سامراجی اور استعماری مسائل کاپہلا اور آخری حل ’’کفار و مشرکین ‘‘سے قتال ہے۔جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جس نے نظریہ عدم تشدد کو بطور پالیسی اختیار کرنے کے بجائے عقیدے کے طور پر اختیار کررکھا ہے۔اس طبقے کے نزدیک جنگ،قتال اور مسلح جہاد، خواہ وہ دین کا تقاضا ہی کیوں نہ ہو،مطلقاً انتہا پسندی کی دلیل ہے۔ان دو طبقوں کے علاوہ جہاد کے سلسلے میں غلط فہمیوں کا شکار تیسرا طبقہ غیر مسلم افراد کا ہے۔ غیر مسلم افراد کے ذہنوں میں جو غلط فہمیاں پائی جاتی ہیں جمہور مسلم اسکالرس کا خیال ہے کہ وہ ساری غلط فہمیاں محض اسلام دشمن عناصر کے پروپگنڈے کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے جن غلط فہمیوں کی اساس خود ہماری تشریحات و تعبیرات میں موجود ہے، مسلم اسکالر س کے مابین اس پر گفتگو نہیں ہوتی۔ زیر تبصرہ کتاب میں ان تینوں پہلوؤں کا احاطہ کرنے کی سعی مشکور کی گئی ہے۔

مصنف کا خیال ہے کہ اسلام میں کسی فرد یا ریاست کے خلاف محض اس کے کفر یا شرک کی بنا پر مسلح جہاد کی کوئی تعلیم نہیں دی گئی ہے۔ مسلح جہاد ہمیشہ کسی فرد،گروہ یا ریاست کے خلاف اس کے ظلم، جبر، استبداد، صد سبیل اللہ،بغاوت و عدوان کا استیصال کرنے کے لیے ہوتا ہے۔مصنف موصوف لکھتے ہیں کہ ’’یہ جہاد ہمیشہ ان طاقتوں، یا ان حکومتوں سے ہوتا ہے جو ظلم و استبداد کی عادی ہوتی ہیں، جو اپنی طاقت اور سلطنت کا غلط استعمال کرتی ہیں، اور ظلم و جبر سے دوسروں کی آزادیاں چھین لیتی، اور انہیں اپنا غلام بنا لیتی ہیں۔ ” (صفحہ 27) کفر و شرک کے حوالے سے مصنف کا خیال ہے کہ کافر فرد یا کافر حکومت کا خاتمہ قتال کے ذریعے نہیں ہوگا۔ لکھتے ہیں ” جاہلیت یا کفر و شرک سے جہاد ہمیشہ علم و استدلال سے ہوتا ہے۔محبت و دل سوزی اور نصح و خیر خواہی سے ہوتا ہے۔” (صفحہ 30)

جہاد کے سلسلے میں افراط و تفریط کے شکار ملت کے دونوں طبقوں نے جہاد کو قتال کے معنی میں اتنی کثرت سے استعمال کیا ہے کہ عوام کے اذہان سے جہاد کا قرآنی معنی گم ہو کر رہ گیا۔لہٰذاکتاب کے ابتدائی حصے میں مصنف موصوف نے قرآن اور سنت کے براہین کی روشنی میں اصطلاح جہاد کا اصل اور مکمل معنی پیش کیا ہے۔ان کے مطابق ” کسی کو نرمی ومحبت سے اچھی بات سمجھانا،اسے حکمت سے راہ راست پر لانے کی کوشش کرنا،کسی بھٹکے ہوئے ذہن کو دلائل سے صحیح بات پر مطمئن کرنا،مفید علوم و افکار کی نشر و اشاعت کی مہم چلانا،نیکی کو پھیلانے اور بدی کو مٹانے کی سعی کرنا،غافل بندوں کو ان کے رب سے جوڑنے کی تدبیریں کرنا،مظلوموں کی مدد کرنا اور ان کے آنسو پونچھنا، ان کے جائز حقوق انہیں دلانے کی جد وجہد کرنا،یہ تمام کام، اور یہ ساری کوششیں، چاہے انفرادی حیثیت میں ہوں یا اجتماعی شکل میں، یہ سب جہاد ہیں "۔(صفحہ 37)

مصنف موصوف نے جہاد کی روح اور اس کی غرض و غایت پر بھی سیر حاصل گفتگو کی ہے۔ آپ کا ماننا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ لوگوں کو زبر دستی مسلمان بنانے،غیر مسلم قوموں پر حملہ کرکے ان سے جزیہ وصول کرنے، اور نئے نئے ملکوں کو فتح کرکے نام نہاد مسلم سلطنت کو وسیع کرنے کا نام نہیں ہے۔ جہاد کی قرآنی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے فاضل مصنف رقم طراز ہیں : "جہاد نام ہے دُکھی انسانوں کے دکھ درد دور کرنے اور انہیں عزت اور آزادی دلانے کا،جہاد نام ہے تمام انسانوں کو ظالموں کے چنگل سے رہا کرانے کا،چاہے وہ کسی مذہب یا کسی رنگ و نسل سے تعلق رکھتے ہوں "۔ (صفحہ 31)

جہاد کے تعلق سے عوام اور اہل علم طبقے میں یہ غلط فہمی بھی پائی جاتی ہے کہ جہاد کا تعلق صرف مسلمانوں کو ظلم و جبر سے آزاد کرانے،مسلمانوں کی آزادیاں بحال کرانے، اور مسلمانوں کے حقوق حاصل کرنے سے ہے۔ مصنف موصوف نے اس غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے علمی بنیادوں پرثابت کیا ہے کہ جہاد جیسا مقدس اسلامی فریضہ درحقیقت پوری نوع انساں کے لیے رحمت و برکت ہے۔مظلوموں کو ظلم سے نجات دلانا یہ جہاد کے بنیادی محرکات میں سے ہے۔ اس حوالے سے مصنف موصوف لکھتے ہیں ؛ ” یہ مظلوم انسان مسلمان بھی ہوسکتے ہیں، ہندوبھی ہو سکتے ہیں۔ سکھ اور عیسائی بھی ہوسکتے ہیں اور یہودی اور مجوسی بھی۔دلت اور چمار بھی ہوسکتے ہیں اور برہمن،چھتری اور یادو بھی۔یہ کسی بھی رنگ اور کسی بھی زبان کے ہوسکتے ہیں "۔ (صفحہ 32-31)

مصنف نے محض جہاد کی غرض و غایت بتانے پر اکتفا نہیں کیا ہے۔ بلکہ اسے حاصل کرنے کے طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بعض نظریاتی گروہوں کا ایک اصول یہ ہے کہ اگر مقصد اچھا اور نیک ہے تو اس تک پہنچنے کے ذرائع و وسائل کچھ بھی اختیار کیے جا سکتے  ہیں۔ جسے ” الغایۃ تبرر الوسیلہ” (The goal justifies the means)کہتے ہیں۔ فاضل مصنف کے مطابق ” مقصد جتنا بلند اور پاکیزہ ہو، اسے حاصل کرنے کا طریقہ اور وسیلہ بھی اتنا ہی زیادہ بلند اور پاکیزہ ہونا ضروری ہے”۔(صفحہ 39)

کتاب کے ابتدائی حصے میں مصنف نے مذکورہ بالا نکات کی شکل میں اسلام کے نظریہ جہاد کا مختصر تعارف پیش کیا ہے۔آئندہ ابواب میں مصنف نے مقصد جہاد پر تفصیلی گفتگو کی ہے۔مقصد جہاد کے ذیل میں آپ نے تین نقطہ ہائے نظر، ہر کافر سے جنگ،کافر حکومتوں کا خاتمہ،ظلم و استبداد کا خاتمہ، کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔

پہلا نقطہ نظر: ہر کافر سے جنگ

اس سلسلے میں مصنف نے تین علمائے دین کے وہ اقتباسات نقل کیے ہیں جن سے ہر کافر سے جنگ کے نقطہ نظر کی تائید ہوتی ہے۔مصنف نے ان علماء کے اسمائے گرامی اور اقتباسات کے حوالوں کا ذکر کرنے سے گریز کیا ہے۔ مصنف موصوف کا ماننا ہے کہ اس نقطہ نظر کی بنیاد کمزور عقلی دلائل اور چند کمزور روایات ہیں۔ بقول مصنف ” نہ صرف یہ کہ قرآن پاک سے اس (نقطہ نظر) کی تائید نہیں ہوتی بلکہ یہ بات سرتا سر قرآن پاک کے خلاف ہے۔”(صفحہ 48)۔ پھر مصنف نے ان تمام روایات کا روایت و درایت کے معروف اصولوں کی روشنی میں جائزہ لیتے ہوئے انہیں ناقابل اعتناء قرار دیا ہے۔

اس سلسلے میں پہلی روایت عبد اللہ ابن عمر کی پیش کی جاتی ہے۔ جس میں نبیؐنے اپنا منصب رسالت یوں بیان فرمایا ہے کہ ” میں قیامت آنے سے پہلے بھیجا گیا ہوں تلوار کے ساتھ، تاکہ میں تلوار چلاتا رہوں یہاں تک کہ عبادت ہونے لگے اللہ واحد کی، جس کا کوئی شریک نہیں۔ ۔۔۔۔”الخ۔

یہ روایت حدیث کی متعدد کتابوں میں نقل ہوئی ہے۔ اس میں بیچ کے ایک راوی عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان ہیں۔ مصنف نے ان کے بارے میں فن جرح و تعدیل کے امام یحییٰ بن معین کی رائے ابن شاہین کی کتاب المختلف فیہ سے نقل کی ہے۔ عبدالرحمن بن ثابت کے بارے میں امام فرماتے ہیں کہ ” لیس بشئی” (وہ دھیلے کے برابر نہیں ہے!)۔

اسی طرح امام ابن شاہین کی رائے عبدالرحمن بن ثابت کی ثقاہت کے بارے میں ان کی کتاب تاریخ اسماء الضعفاء والکذابین سے نقل کرتے ہیں ؛ "لیس بشئی” ( وہ کوڑی کے برابر نہیں ہے!)

ابن عدی کی الکامل فی ضعفاء الرجال کے حوالے سے عبدالرحمن بن ثابت کے بارے میں امام نسائی کا قول نقل کرتے ہیں۔ امام نسائی کی رائے ہے کہ ” لیس بالقوی” (وہ قابل اعتبار نہیں ہے!)

یہ صحیح ہے کہ عبدالرحمن بن ثابت بن ثوبان کو بعض محدثین نے ثقہ بھی قرار دیا ہے۔ لیکن مصنف کے مطابق چونکہ علم حدیث کا معروف اصول یہ ہے کہ اگر کسی کے بارے میں رائیں مختلف ہوں، کوئی اسے ثقہ کہہ رہا ہو، اور کوئی اسے مجروح قرار دے رہا ہوتو مجروح قرار دینے والے کی بات زیادہ قابل لحاظ ہوگی، لہٰذا عبدالرحمن بن ثابت کو قابل اعتبار نہیں مانا جاسکتا۔

اس روایت کی سند کی تحقیق کرنے کے بعد مصنف نے اس کے متن پر بھی سوالات اٹھائے ہیں اور کہا ہے کہ نبوت کا عام مزاج محبت اور دل سوزی رہا ہے، تلوار اور نیزے نہیں، پھر نبی اکرمؐ کو اللہ تعالی نے پوری انسانیت کے لیے رحمت بنا کر بھیجاتھا،اس لیے روایت میں جو منصب رسالت بتایا گیا ہے وہ کسی طور حقیقی منصب رسالت کے شایان شان نہیں ہے۔

اس موقف کی تائید میں دوسری روایت جو پیش کی جاتی ہے وہ حضرت ابو ہریرۃؓ سے مروی ہے۔ جس میں نبیؐنے فرمایا”مجھے حکم ہے، کہ میں لوگوں سے جنگ کروں، یہاں تک کہ وہ کہہ دیں (لا الہ الا اللہ) تو جس نے کہہ دیا (لا الہ الا اللہ) اس نے محفوظ کر لی مجھ سے اپنی جان، اور اپنا مال،الا یہ کہ اس پر کوئی حق واجب ہو۔اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہوگا”۔

اسی سے ملتی جلتی مزید تین روایتیں حدیث کی مختلف کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔ پہلے تو مصنف نے ان روایات کی سند کے لحاظ سے زبوں حالی کو آشکار کیا ہے۔پھران روایات پر تین اشکا لات پیش کیے ہیں۔ مصنف کے مطابق ایک تو یہ کہ ان روایات کے مضامین میں کافی اختلاف ہے، دوسرے یہ کہ ان میں سے بعض روایات واضح طور پر داخلی تعارض کا شکار ہیں۔ تیسرااشکال پیش کرتے ہوئے فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ قرآن میں ان تمام احکام و اوامر کا ذکر جو منصب رسالت سے تعلق رکھتے تھے، مختلف صیغوں سے موجود ہے۔ماضی مجہول بصیغہ متکلم مفرد سے کل گیارہ (11) اوامر آئے ہیں۔ ماضی مجہول بصیغہ مخاطب سے کل (02) اوامر آئے ہیں۔ لیکن ان تمام اوامر میں "امرتُ ان اقاتل الناس”۔یعنی” مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں ” کا کہیں ذکر نہیں ہے۔ مصنف رقم طراز ہیں ؛ ” آخراس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اتنا زبر دست حکم، جو انتہائی دور رس نتائج کا حامل تھا،اسے قرآن پاک میں جگہ نہیں ملی؟ اگر یہ حکم منصب رسالت سے تعلق رکھتا تھا، تو اسے قرآن پاک میں جگہ نہ ملنے کا کیا مطلب؟” (صفحہ 57)

مصنف موصوف سوال کرتے ہیں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ آپؐ  کے نام سے اس طرح کی روایات آپؐ کی صفت رحمت کا مذاق اڑانے کے لیے مشہور کردی گئیں ؟ فی الواقع ان رویات سے ان ہی مقاصد کی تکمیل کا کام لیا جارہا ہے۔

اس موقف کی تائید کے لیے ایک اور روایت پیش کی جاتی ہے، جو ابو موسی سے مروی ہے۔اس میں رسولؐ نے ایک شخص کے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ : "جو جنگ کرے اس لیے کہ اللہ کا نام اور اس کا کلمہ بلند ہو، وہی جنگ فی سبیل اللہ ہے!”

مصنف کا کہنا ہے کہ اس حدیث میں جہاد کی غایت اللہ کے نام، یا اس کے دین کی سر بلندی بتائی گئی ہے، اس سے بہت سے لوگوں کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں وہ لکھتے ہیں "اس ارشاد رسالت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ غلبہ، اسلام اور اشاعت اسلام کو ایشو بنا کر غیر مسلموں سے جنگ لڑی جائے۔۔۔رحمت عالمؐ نے کبھی غلبہ اسلام کے لیے فوج کشی نہیں کی۔آپ کی ساری لڑائیاں ظالموں کا مقابلہ کرنے، اور ان کے ظلم و استبداد کو توڑنے کے لیے ہوئیں۔ ۔۔۔لوگوں کا اسلام میں فوج در فوج داخل ہونا جہادی کارروائیوں کا ثمرہ نہیں تھا،بلکہ اس وجہ سے تھا، کہ اب ظلم کا دیو پاش پاش ہوچکا تھا۔۔۔انبیاء و صالحین کے یہاں اشاعت اسلام، یا غلبہ اسلام نہ کبھی جنگ کا موضوع بنا ہے،نہ بن سکتا ہے۔” (صفحہ 61 اور 62)

ان روایات کے علاوہ مصنف نے سورہ التوبہ کی آیت 05 کے صحیح معنی ومفہوم اور اس کے پس منظر پر تنقیدی گفتگو کی ہے۔ ان تنقیدوں کے بعد مصنف اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ جہاد کے سلسلے میں یہ پہلا موقف علمی استدلال کے لحاظ سے انتہائی کمزور ہے اور نصوص کی کوتاہ فہمی پر مبنی ہے۔

دوسرا نقطہ نظر: کافر حکومتوں کا خاتمہ

جہاد کے سلسلے میں دوسرا موقف یہ ہے کہ کسی کافر یا مشرک شخص کو زندگی کا حق تو حاصل ہے البتہ یہ حق اسے نہیں پہنچتا کہ وہ کسی انسانی سماج پر حکومت کرے۔لہٰذا اگر ایسی حکومت کہیں قائم ہے جس کی زمام کار کفار یا مشرکین کے ہاتھوں میں ہو،،تو مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی طاقت کے ذریعے سے انسانیت کو ایسی حکومتوں سے نجات دلائیں۔

مصنف موصوف نے اس نقطہ نظر کی تائید کرنے والے اہل علم کی تحریروں سے اقتباسات پیش کرتے ہوئے ان کے نقطہ نظر کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے۔اقتباسات نقل کرنے کے بعد مصنف نے ایک اہم بات کی طرف اشارہ کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ” جو لوگ آج کی ظالم حکومتوں اور ان کے خونخوار حکمرانوں کے ستائے ہوئے ہیں، ان کے لیے اس نقطہ نظر میں بڑی کشش ہے۔”(صفحہ 77)

اس نقطہ نظر کے حوالے سے آپ لکھتے ہیں کہ” قابل لحاظ بات یہ ہے کہ پہلے نقطہ نظر کی طرح اس نقطہ نظر کی بھی کوئی سنجیدہ علمی بنیاد نہیں ہے۔۔۔ جس طرح پہلا نقطہ نظر خالص جذباتیت پر مبنی تھا، اسی طرح دوسرے نقطہ نظر میں بھی جذباتیت کا رنگ پوری طرح نمایاں ہے۔” (صفحہ 77)

مصنف موصوف نے درج ذیل پانچ نکات کی بنیاد پر اس نقطہ نظر کی نفی کی ہے؛

(1)یہ نقطہ نظر ہر غیر مسلم حکومت کو فتنہ و فساد قرار دیتے ہوئے اسے صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتا ہے،چاہے وہ حکومت پر امن ہو۔ لیکن یہ دین کا منشانہیں ہے۔نہ قرآن پاک یا حدیث رسول میں اس طرح کا کوئی فرمان موجود ہے۔(یہاں میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا حقیقی دنیا میں ایسا ممکن ہے کہ کوئی حکومت خدا بیزار ہو،اور وہ پرامن بھی ہو؟ ممکن ہے یہ سوال کسی اور قاری کے ذہن میں بھی پیدا ہو،البتہ مصنف نے اس سوال پر کوئی گفتگو نہیں کی ہے۔)

(2)تمام رسول اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام کے آنے کا مقصد بھی انسانی سماج سے فتنہ و فساد کا استیصال، اور سماج کو نیکیوں سے آراستہ کرناہوتا تھا۔ لیکن فتنہ و فساد کے خاتمے کا جو نسخہ اس نقطہ نظر میں بتایا جاتا ہے، اس کی نہ کتاب وسنت میں کوئی اصل ہے اور نہ کسی نبی اور کسی رسول ہی نے اسے اختیار کیا۔ملاحظہ ہو سورہ طہ : آیت 43،44،  سورہ نازعات : آیت 19-17۔

(3)اس زمانے میں اسلام کی دعوت کا کام علمی اور عملی ہر دو سطح پر بالکل ابتدائی مرحلے میں ہے۔جب تک داعی دعوت و تبلیغ کے مرحلے میں ہوتا ہے،وہ قوم کے ہاتھوں پتھر کھا تا ہے اور انہیں دعائیں دیتا ہے۔قوم کے ساتھ جہاد کا مرحلہ اس وقت آتا ہے جب دعوت کا مرحلہ ختم ہوجاتا ہے۔

(4)کفار و مشرکین کی خود مختاری، ان کی شان و شوکت اور دبدبہ کو ختم کرنا ہمارا کام نہیں ہے،نہ یہ ہمارے اختیار میں ہے۔یہ خالص شہنشاہ کائنات کا اختیار ہے،جسے چاہتا ہے شان و شوکت اور دبدبہ و اقتدار سے نوازتا ہے۔اور جسے چاہتا ہے اس سے محروم کردیتا ہے۔ملاحظہ ہو سورہ اعراف: آیت 128، سورہ آل عمران : آیت 26

(5)رسول پاکؐ نے مفسد حکومتوں کو مٹانے کی نہیں، انہیں راہ راست پر لانے کی کوشش کی تھی۔آپ نے بادشاہوں کو جو خطوط لکھے ان میں آپؐ نے تمام ہی حکمرانوں کودین قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔کسی بھی بادشاہ یا کسی بھی حکمراں کو کوئی دھمکی یا کوئی وارننگ نہیں دی تھی۔

اس نقطہ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے مصنف موصوف فرماتے ہیں : ” امت مسلمہ کا اصل کام باطل اقتدار سے کشمکش کرنانہیں، حکمت و محبت سے اس کی رہنمائی کرنا،اورفساد و تخریب کے راستے سے ہٹا کر اسے اصلاح و تعمیر کے راستے پر لگانا ہے۔” (صفحہ 79)

تیسرا نقطہ نظر: ظلم و استبداد کا خاتمہ

جہاد کی غرض و غایت کے حوالے سے تیسرا نقطہ نظر روئے زمین سے ظلم استبداد کو ختم کرنے کا ہے۔مصنف کا آرگیومنٹ ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں یہی نقطہ نظر صحیح ہے۔چنانچہ اس حوالے سے وہ لکھتے ہیں : "مقصد جہاد کی یہ تشریح دین اسلام کے مزاج سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔۔۔ اس تشریح کی خصوصیت یہ ہے کہ اس سے جہاد ہر انسانی سماج کی ضرورت، اور دین اسلام ہر انسانی فطرت کی آواز بن جاتا ہے۔” (صفحہ 86)۔ مصنف کی رائے یہ ہے کہ اس نقطہ نظر میں استدلال کے حوالے سے وہ کمزوریاں نہیں ہیں، جو پچھلی دونوں تشریحات میں موجود ہیں۔

اس موقف کی تفصیل بیان کرتے ہوئے مصنف کہتے ہیں کہ دنیا کی سب سے بڑی برائی ظلم و استبداد ہے۔اسی لیے رب کائنات کا پیغام انسانوں کے نام یہی ہے کہ تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم نہ کرو۔رب کائنات نے ظلم و استبداد سے اجتناب کی شدید تاکید فرمائی ہے۔اگر اس کے بعد بھی کوئی ظلم کرتا ہے،اور ظلم پر اصرار کرتا ہے، تو وہ بدترین مجرم ہے جو اس زمین پر رہنے کے قابل نہیں۔ انسانیت کے انہی بدترین مجرموں سے نبیوں نے اور خاتم النبیینؐ نے مسلح جہاد کیا ہے۔

مصنف مزید آرگیو کرتے ہیں کہ صلح پسند نظام کفر سے جنگ جائز نہیں۔ نبیوں نے جن کے خلاف مسلح جہاد کیا ہے، یا جن پر عذاب الٰہی آیا ہے وہ ان کے کفر یا شرک،یا ان کے نظام جاہلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے ظلم و استکبار کی وجہ سے آیا ہے۔دلیل کے لیے ملاحظہ ہو: سورہ انعام 45، سورہ  یونس 31، سورہ  ہود 102، سورہ کہف 59، سورہ قصص 59، سورہ فصلت 17-15، سورہ انفال 54، سورہ شوری 116، سورہ نمل 49، سورہ  انبیاء 68، شعراء 167، سورہ ہود 91، سورہ دخان 21-17، سورہ انفال 30۔کفر و شرک کا حساب دنیا میں نہیں ہوتا،یہ آخرت میں ہوگا۔ملاحظہ ہو سورہ کہف : آیت 29۔

اس خیال کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ‘جنگ کن سے ہونی ہے؟’ عنوان کے تحت سورہ نساء 84،سورہ بقرہ190 اور 193 آیات کی روشنی میں مصنف کہتے ہیں کہ اللہ تعالی نے بس ان ظالموں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے جو کمزوروں کا خون چوستے، فکر و عمل کی آزادیاں چھین لیتے، انسانوں کو غلامی کی بیڑیاں پہنا دیتے، اور اگر کوئی گروہ اپنی اس پیدائشی آزادی سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہو تو ہر طرح سے اسے کچلنے کی کوششیں کرتے ہیں۔

قرآنی اصطلاح ‘فتنہ’ کا مفہوم بیان کرتے ہوئے مصنف رقم طراز ہیں :”فتنہ سے مراد وہ ظالم و جابر اقتدار ہے، جو اللہ اور رسول کی دشمنی میں بالکل اندھا ہوجائے۔۔۔جو اپنے رب کی پکار پر لبیک کہیں ان کی زندگیوں کو عذاب بنا دے، اور ان کے ساتھ کسی نرمی اور مروت کا روادار نہ ہو۔اسلام ایسے ہی ظالم سے جنگ کے لیے للکارتا ہے۔۔۔لیکن اگر کوئی ایسی حکومت ہے، جو کافر و مشرک ہونے کے باوجود صلح پسند ہے۔۔۔تو اسلام سے اس کی کوئی جنگ نہیں ہے۔ "(صفحہ 91)۔ اس سلسلے میں مصنف نے امام ابن قیمؒ کا ایک قول بھی نقل کیا ہے جس سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔ امامؒ فرماتے ہیں : ” جو نبی کریمؐ کی سیرت طیبہ پر غور کرے گا،اس پر یہ بات واضح ہوجائے گی کہ آپ  نے کبھی کسی کو اپنا دین قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا۔آپ نے جنگ بس اسی سے کی جس نے آپ سے جنگ کی۔جس نے آپ سے صلح کی،تو جب تک وہ صلح پر قائم رہا، اور عہد شکنی نہیں کی،اس سے آپ نے جنگ نہیں کی۔” ( صفحہ 94)۔مصنف نے شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ کے حوالے سے بھی بتایا ہے کہ آپ کا بھی یہی نقطہ نظر ہے۔ امام ابن تیمیہؒ واضح طور سے فرماتے ہیں : "کفار سے جنگ اسی صورت میں کی جائے گی،جب وہ محارب، یعنی خود آمادہ جنگ ہوں۔ جمہور علماء کا یہی نقطہ نظر ہے۔کتاب و سنت سے یہی بات معلوم ہوتی ہے۔” (صفحہ 94)

عذاب یا قتال کا سبب اتمام حجت بھی نہیں

بعض اہل علم کا یہ خیال ہے کہ عذاب یا قتال کے واجب ہونے کی ایک شرط اتمام حجت بھی ہے۔کتاب کے اسی باب میں مصنف نے اس خیال کا بھی تنقیدی جائزہ لیا ہے اور نقلی و عقلی دلائل کی روشنی میں یہ بتایاہے کہ اتمام حجت بھی موجب عذاب الٰہی یا قتال نہیں ہے۔اس خیال کے حامل بعض اہل علم کے دلائل نقل کرنے کے بعد مصنف موصوف نے اتمام حجت کو موجب عذاب یا قتال قرار دینے اور اس کی تائید میں پیش کردہ دلائل پر درج ذیل دس اشکالات کا اظہار کیا ہے؛

(1)عہد رسالت میں ہونے والی کسی بھی جنگ کی یہ وجہ نہیں بتائی گئی ہے کہ ان لوگوں پر اتمام حجت ہوچکا ہے،لہٰذا اب انہیں اس زمین پر رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔قرآن پاک، کسی حدیث صحیح یا تاریخ و سیرت کی کسی مستند کتاب میں اس کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔

(2)جتنا اتمام حجت ابلیس لعین پر ہوا ہے، اتنا اتمام حجت کسی پر نہیں ہوا۔ لیکن وہ اس دنیا میں کسی عذاب سے دوچار نہیں ہوا۔اس کی سرکشی اور استکبار کا بھر پور حساب آخرت میں ہوگا۔

(3)رسول خداؐ کی طرف سے قوموں کے سرداروں کو چند سطری خطوط لکھنا،فریضہ رسالت کی ادائیگی تھی،اتمام حجت نہیں تھا۔ یہ خطوط اتمام حجت کے لیے کافی بھی نہیں ہوسکتے۔

(4)دین اسلام نے اہل عرب کے ساتھ کوئی سختی نہیں کی ہے۔کسی بھی مرحلے میں ان کے سلسلے میں ‘ یاتو اسلام یا تلوار ‘کی پالیسی اختیار نہیں کی۔

(5)”اسلام قبول کرو، یا زیر دست بن کر جزیہ دینے کے لیے تیار ہوجاؤ، اس کے سوا زندہ رہنے کی کوئی صورت تمہارے لئے نہیں رہی” یہ نہ قرآن کی زبان ہے، نہ رحمت عالمؐکی زبان ہے اور نہ ان کے جا نثار اصحاب کی، یہ محض دشمنان اسلام کا پروپیگنڈہ ہے۔

(6)اسلام اللہ کو پہچاننے، اس سے محبت کرنے اور دل وجان سے اس کی اطاعت کرنے کا نام ہے۔ دل اللہ کی محبت سے سرشار نہ ہو تو کسی طاقت کے آگے سرجھکا دینے اور زبان سے کلمہ پڑھ لینے سے کوئی مسلم نہیں ہوتا، یہ نفاق ہوتا ہے۔

(7)عہد رسالت میں یا رسولؐ کے وصال کے بعد صحابہ کرام جن قوموں پر حملہ آور ہوئے وہ سب قومیں، بشمول اہل کتاب، مشرک تھیں۔ اہل کتاب کا شمار مشرکین میں نہ کرنا، کوتاہ نظری کی دلیل ہے۔

(8)اتمام حجت ہوجانے کے بعد بھی اگر کوئی قوم ایمان لانے میں تاخیر کرتی ہے، تو اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کے لیے توبہ اور انابت اور قبول حق کا دروازہ بند ہوچکا ہے، اور اب وہ زمین میں دفن کردیے جانے کی مستحق ہے۔

(9)جزیہ کا تعلق نہ نبوت سے ہے، نہ اتمام حجت سے۔یہ بہت پرانی چیز ہے۔تاریخ میں ہر فاتح قوم مغلوب قوم پر ایک متعین رقم عائد کرتی رہی ہے۔

(10)اتمام حجت صرف نبی یا رسول کے ذریعے نہیں ہوتا، اتمام حجت کتاب الٰہی سے بھی ہوتا ہے۔ نبی کریمؐ کے ارشادات میں اس کی دلیل موجود ہے۔

ان اشکالات کے بعد مصنف کہتے ہیں کہ اتمام حجت کا تعلق در اصل حساب آخرت سے ہے۔اس حوالے سے آپ رقم طراز ہیں :” قرآن پاک پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی،یا رسول یا قرآن پاک کے اتمام حجت کااصل تعلق عذاب دنیا سے نہیں، بلکہ حساب آخرت سے ہوتا ہے۔” (صفحہ 107)

بعض مزید غلط فہمیوں کا علمی جایزہ لیتے ہوئے مصنف نے اسی تیسرے نقطہ نظر کا اسلامی جہاد کی اصل غرض و غایت قرار دیا ہے۔

اس تبصرے میں میں نے کتاب کے صرف ابتدائی حصے سے تعرض کیا ہے۔مذکورہ بالا مباحث کے علاوہ بھی جہاد کے بنیادی عناصر،جہاد اور امن عالم،جزیہ کا صحیح مفہوم،جہاد عصر حاضر میں وغیرہ کئی اہم موضوعات کو اس کتاب میں گفتگو کا موضوع بنایا گیا ہے۔

دور حاضر میں جبکہ اہل اسلام اور دشمنان اسلام نے جہاد کو ایک متنازعہ موضوع بنا دیا ہے، یہ کتاب بہت زیادہ معنویت رکھتی ہے۔تحریکات اسلامی سے وابستہ افراد کی لائبریری کے لیے بھی یہ کتاب ایک وقیع تحفہ ہے۔ اس زمانے میں جہاد اور اس کے متعلقات پر جاری مباحث میں جو افراد شریک ہیں، جن کی رائے تو وہی ہے جو اس کتاب میں پیش کی گئی، لیکن دوسرے نقطہ نظر کی تردید اور اپنے موقف کی مضبوط نمائندگی میں استدلال کے حوالے سے وہ کمزوری محسوس کرتے ہیں، ایسے افراد کے لیے بھی اس کتاب میں مستحکم علمی دلائل پر مبنی کافی مواد موجود ہے جو قاری کے اعتماد میں بلا کا اضافہ کرسکتا ہے۔

1 تبصرہ
  1. محی الدین غازی کہتے ہیں

    کتاب کے اہم مباحث کا اچھا تعارف… امید ہے اس سے گفتگو کو آگے بڑھانے میں مدد ملے گی

تبصرے بند ہیں۔