اچھائی اور برائی کی کسوٹی

نسیم اختر شاہ قیصر

        انسان تو اسی کو کہا جائے گا جس میں سوچنے کی صلاحیت ہو، سمجھنے کی لیاقت ہو، اچھے برے کی پہچان رکھتا ہو، دکھ درد کے مواقع پر  اس کا دل روئے اس کی آنکھیں نم ہوجائیں، خوشی کے مواقع  ہوں، یا کامیابی کا حصول، اس کا چہرہ گلنار ہوجائے اور اس کے  تیور سے اندازہ لگالیا جائے کہ اس وقت  وہ کس کیفیت سے دوچار ہے، اگر آدمی میں دیگر صفات کے ساتھ ساتھ یہ صفات نہ ہوں، تو ان کا شمار انسانوں میں نہیں کیاجائے گا اس کا دل اگر درد سے خالی ہے، اس کے محسوسات مردہ ہوچکے اور کسی کی تکلیف اور ایذا ء پر  اس کے جذبات نرم نہ پڑیں، تو دیگر مخلوقات اور انسان میں کیا فرق رہ گیا، اسے انسانیت کے شرف سے نوازنے والے کچھ اوصاف وہ ہیں جو کسی دوسری مخلوق میں نہیں پائے جاتے دیگر مخلوقات اس سے زیادہ توانا ہوسکتی ہیں، اس سے زیادہ  طاقت ور کہی جاتی ہیں، اوراس سے زیادہ کڑی اور سخت محنت کرنے کی عادی ہیں، مگر انسان اپنی تدبیر اور حکمت سے وہ کام کرلیتا ہے جو دوسری کوئی مخلوق نہیں کرسکتی، حکمت اور تدبیر کے آگے پہاڑ بھی سرجھکادیتے ہیں، اور سمندر وں میں بھی راستہ نکل جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ انسان کو اللہ نے عقل، شعور اور تمیز کا جو جوہر عطا کیا ہے وہ اس کی  صحیح رہنمائی کرتا ہے، اور وہ اپنے ادراک سے، اپنی فہم سے، اپنی دانش سے، اشیاء کے اچھے برے ہونے اور کاموں کے نیک وبد انجام سے واقف ہوجاتا ہے، یہی وجہ ہے  کہ انسان کا اس کا مکلف کیا گیا کہ وہ سوچ سمجھ کر کام انجام دے بغیر سوچے سمجھے کام کرے گا، نقصان اٹھائے گا انجام پر نگاہ نہیں رکھے گا خسارہ سے دوچار ہوگا۔

        آدمی  جب برائی کرتا ہے اور اس برائی کی کھٹک  دل میں محسوس نہیں کرتا، کوئی گناہ کرتا ہے اور اس کی سنگینی اور شناعت  اس کی دل کی کیفیت کو زیر وزبر نہیں کرتی، کسی پر ظلم کرتا ہے اور اس میں رحم کے جذبات پیدا نہیں ہوتے تو ایسا انسان حقیقت میں انسانیت کی  آخری اور سطحی  سوچ کا مالک ہوتا ہے بلکہ اسے آخری اور سطحی نہ کہا جائے سرے اس میں انسانیت کا درد ہی نہیں ہوتا، وہ دوسروں کو تکلیف پہنچاتا رہتا ہے اس کو یہ خیال بھی نہیں گزرتا کہ ایک آدمی اس کی وجہ سے کس مصیبت میں مبتلا ہے وہ دوسروں کے حقوق پر ڈاکہ ڈالتا ہے اور ذرا بھی اس کے دل میں خوف پیدا نہیں ہوتا تو اس کا انجام کتنا بھیانک ہوگا جب اس منزل میں داخل ہوگیا تواب  اس کے سدھرنے کے امکانات معدوم ہوتے چلے جاتے ہیں، اوران کاموں پر استمرار اس سے ان جذبات کو چھین لیتا ہے جس نے اسے انسان بنایا  یا انسانوں کے زمرے میں شامل کیا۔ اسی طرح اچھائی اور برائی کی ایک کسوٹی ہے اور احادیث میں اس کی جانب  کافی ووافی  رہنمائی کی گئی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد گرامی ہے:

’’جب تم کو اپنی نیکی سے خوشی ہو اور اپنی برائی تمھیں بری لگے تو تم مومن ہو‘‘(مسند احمد)

گویا  کہ یہ ایک کسوٹی ہے اور ایک معیار ہے، اور بالکل فطری اور جبلی چیز ہے کہ انسان اچھے کاموں سے خوش ہوتا ہے اور برے کاموں سے اس کی طبیعت میں انقباض پیدا ہوتا ہے اوراسے یہ محسوس ہونے  لگتا ہے کہ اس نے جو کام کیا وہ اچھا نہیں کیا یہ برا کام تھا۔ اسی وجہ سے اس کی طبیعت اس کو قبول نہیں کرتی، دوسری جگہ پر رسول ِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم  سے ایک صحابی نے برائی اور بھلائی  کی حقیقت کے بارے میں پوچھا تو آں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشادفرمایا:

’’اپنے دل سے پوچھو، اپنے ضمیر سے سوال کرو، تین مرتبہ فرمایا،

نیکی وہ ہے جس سے دل اور ضمیر کو اطمینان حاصل ہو اور برائی وہ ہے جو دل میں کھٹکے

اور ضمیر میں تردد پیدا کرے اگر چہ لوگ اسے درست ہونے کا فتویٰ صادر کریں ‘‘۔ (مسند احمد)

جسے دل کہا گیا اورجسے ضمیر سے تعبیر کیاگیا یہ انسان کی  وہ اندرونی کیفیت ہے جو اچھے اور برے ہونے کی صورت میں اسے خوش کرتی  یا ملول کرتی ہے، اگر برائی کے بعد  دل میں کڑھن نہیں ہوتی یا اچھائی کے بعد خوشی کا احساس نہیں جاگتا تو ایسا دل اور ایسا ضمیر سرد کہا جائے گا کیوں کہ اس کیفیت کے پیدا ہونے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  نے  مومن ہونے کے نشانی اور علامت بتایا ہے بلکہ وضاحت کے ساتھ فرمادیاگیا کہ ایسا شخص مومن ہے۔

        کتنا آسان اور سہل طریقہ ہے برائی اور اچھائی کو جاننے اور جانچنے کا، کتنا مختصر  اور جلد نتیجہ پر پہنچنے والا عمل ہے، انسان کے دل اور اس کے ضمیر کو گواہ بنایاگیا اور کسوٹی قرار دیاگیا، اب وہ لوگ  جو اچھے کاموں پر خوشی محسوس کرتے ہیں اور برے کاموں سے تکدر  پیدا ہوتا ہے وہ لازما ً یہ محسوس کریں گے اور سمجھیں گے، کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ وسلم )نے اعمال کے پرکھنے کا کتنا آسان اور قریبی  طریقہ بتادیا ہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص زنا کرتا ہے اس کے دل میں زنا سے نفرت پیدا ہوتی ہے اور اس کو  وہ ان کاموں میں شمار کرتا ہے جو ایک سچے مسلمان  اور بلند کردار انسان سے  متوقع نہیں ہے چغل خوری، کذب بیانی، افتراء پردازی، بہتان ترازی، الزام تراشی، فتنہ پروری، قطع رحمی، غصب حقوق  یہ تمام وہ برائیاں ہیں جن کو کرنے کے بعد انسان کا دل اگر اس کو ملامت نہیں کرتا تو وہ دل زندہ دل نہیں ہے انسان کا ضمیر  اگر اس کو نہیں جھنجھوڑتا  تو وہ ضمیربے ضمیر کہلائے گا۔ مردہ دل اور بے ضمیر انسان ان ہلاکتوں اور شدتوں کو بھی محسوس نہیں کرتے جو ان کاموں کے انجام کی صورت میں اس کے سامنے آنے والا ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔