تعلیم میں مسابقت کا جذبہ

تحریر: محمد اسحاق … ترتیب: عبدالعزیز

          منشی پریم چند نے اپنے کسی افسانہ میں قدیم زمانہ کا حال لکھا ہے، جبکہ تعلیم نام کو نہ تھی۔ یہ وہ زمانہ تھا جبکہ لوگ داستان گل بکاؤلی، گلستان پڑھ کر تحصیل دار ہوجاتے تھے۔ کوئی پچاس برس پہلے تک بھی مسابقت کے متعلق عام طور پر لوگوں کو اتنا احساس نہ تھا جیسا کہ آج زندگی کے ہر شعبے میں مسابقت (Competition) کا چرچا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ بھی تھی کہ تعلیم یافتہ حضرات کو اپنی قابلیت اور صلاحیت کے مطابق کہیں نہ کہیں ملازمت مل جاتی۔ بعض اعلیٰ ملازمتیں ایسی ضرور تھیں جن کیلئے اثرات اور سفارش، رسوخ اور دوسری باتوں کا عمل دخل ہو، وہاں تعلیمی مسابقت کی بات سوچنے کی ضرورت ہی نہ تھی۔

          نا انصافیوں کا شکوہ ہر زمانے میں رہا ہے۔ دولت و ثروت، عزت و شہرت، شان و شوکت کیلئے آدمی کیا کچھ نہیں کرتا۔ لوگوں میں کوئی تعلیمی قابلیت نہیں ہوتی لیکن ایسی صلاحیت ہوتی ہے کہ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بہت اوپر پہنچ جاتے ہیں۔ معاشرہ میں اصل مسئلہ ان ذہین طلبہ کا ہوتا ہے جو قابلیت و صلاحیت رکھتے ہوئے بھی مسابقتی امتحانات میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ اس کی چند عام وجوہات یہاں درج ذیل ہیں۔

          (1  گھر کے ماحول پر اگر غربت اور جہالت کا سایہ ہو تو بچہ ابتدا ہی سے کسی اونچے عہدے اور اعلیٰ معیار تعلیم تک پہنچنے کے متعلق بہت کم سوچتا ہے۔ وہ ابتدا ہی سے اپنے اطراف و اکناف کے لوگوں اور رشتہ داروں کو اپنا آئیڈیل بنائے رکھتا ہے۔ اس کے فکر کی اڑان اپنے گھر کے چند کامیاب لوگوں سے آگے نہیں جاتی۔

          (2  ہر طالب علم کو اسکول میں اپنے ہم جماعت طلبہ سے روز ہی سابقہ پڑتا ہے جو طلبہ اچھے پڑھے لکھے خوش حال گھرانوں سے آتے ہیں وہ نسبتاً ذہین ہوتے ہیں۔ وہ کلاس میں جوابات دینے میں، ہم جماعت طلبہ سے آگے رہتے ہیں۔ اس طرح وہ اپنی قابلیت کا رعب اپنے ساتھیوں پر جمانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلبہ میں احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے جو آگے چل کر خطرناک حد تک زندگی میں ناکامیوں کا سبب بن جاتا ہے۔

          (3  ہمارے خیال میں سب سے اہم اور ضروری بات یہ ہے کہ ہر طالب علم کو میٹرک کامیاب کرنے سے پہلے پندرہ سال کی عمر تک اسے اپنی صلاحیت، قابلیت کا ادراک ہوجانا چاہئے جسے ہم خود آگہی یا Self-Realisation یا Self-Conciousness بھی کہتے ہیں۔ اکثر ذہین طلبہ کو یہ معلوم ہی نہیں ہونے پاتا کہ وہ کس قابلیت اور صلاحیت کے مالک ہیں، ان میں کون سی مہمات کو سر کرنے کی صلاحیت پوشیدہ ہے۔ بعض حضرات جن کی عمریں چالیس پچاس برس کی ہوچکی ہیں، آپ انھیں کہتے ہوئے سنیں گے کہ اگر میں آئی اے ایس کے امتحان میں بیٹھ جاتا تو ضرور کامیاب ہوجاتا یا پھر کبھی کا منسٹر بن جاتا یا پھر ڈاکٹر یا انجینئر بن جاتا۔ انھیں پندرہ سال کی عمر میں جس بات کا ادراک ہونا چاہئے تھا وہ پچاس برس کی عمر میں ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسکول ہی کے زمانہ میں ماہرانہ رہنمائی اور مشورے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مغربی ممالک میں Counselling and Guidance کا انتظام ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر اسکولوں میں اس بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی۔ کچھ اچھا پڑھ لے گا تو کچھ بن جائے گا۔ طلبہ پڑھتے ہی چلے جاتے ہیں، انھیں راستے کی تلاش ہے اور نہ منزل کا پتہ ہے۔ ماں باپ کو ایک ہی رٹ لگی رہتی ہے کہ لڑکا ڈاکٹر یا انجینئر بن جائے، ان کا میلان طبع، ذہنی صلاحیت چاہے کچھ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر طلبہ والدین کو سخت مایوس کر دیتے ہیں۔ اس میں طلبہ سے زیادہ خود والدین قصور وار ہیں۔

          (4  احساس کمتری ایک نفسیاتی مرض ہے اور بہت سے طلبہ اس کا شکار رہتے ہیں۔ بعض بڑی عمر کے لوگوں میں بھی یہ مرض عام ہے۔ وہ وقت بے وقت اپنے کارناموں کا اشتہار کرتے نظر آتے ہیں۔ بعض احساس برتری میں مبتلا ہوتے ہیں۔ وہ در اصل احساس کمتری کا نتیجہ ہے۔ اکثر طلبہ پہلے پہلے ہی سے یہ سمجھ لیتے ہیں کہ وہ اس اعلیٰ امتحان میں شریک ہونے کے اہل نہیں ہیں۔ جب نتیجہ سامنے آیا تو معلوم ہوا کہ اونچے درجے میں کامیاب ہوئے۔ آپ نے اکثر سنا ہوگا، مجھے یقین ہی نہیں آتا کہ میں گولڈ میڈل کا مستحق قرار دیا گیا ہوں۔

          جو ذہین طلبہ پہلے ہی سے یہ سمجھے چکے ہوں کہ وہ اس امتحان میں ناکام ہوجائیں گے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انھوں نے بہت پہلے اپنی شکست، ناکامی اور نامرادی کو تسلیم کرلیا ہے۔ ادھر دن رات بظاہر امتحان کی تیاری بھی ہے اور دل میں یہ خیال بھی آتا رہتا ہے کہ ناکام ہونا مقدر میں ہے۔ ان مخالف قوتوں (Contradictory Forces) کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ناکام ہوکر ہی رہے گا۔ جو طالب علم صرف یہ جانتا ہے کہ وہ اس مہم کو سر کرکے ہی رہے گا اس کے جذبے اور عام طالب علم کے جذبے میں زمین و آسمان کا فرق پڑ جائے گا۔ ایک امریکی خاتون ماہر تعلیم نے بہت اچھی مثال دی ہے۔ گھوڑا اپنے سوار کو پیٹھ پر بیٹھتے ہی پہچان لیتاہے۔ جو شہسوار نہیں ہے اس کی پریشانی، گھبراہٹ (Nervousness) گھوڑے کی رگوں میں دوڑ جاتے ہیں اور وہ آسانی سے اسے زمین پر پٹک دیتا ہے اور جو سچ مچ شہسوار ہوتا ہے اس کے بیٹھتے ہی وہ اس کی خود اعتمادی کو بھانپ لیتا ہے اور وہ شرارت کرنے نہیں پاتا۔ یہی بات اعلیٰ مسابقتی امتحانات کی ہے اور یہی بات کرکٹ ہو یا کبڈی کا کھیل ہو، سب پر صادق آتی ہے۔ جب تک یہ خود اعتمادی نہ ہو، کوئی مہم کامیاب نہیں ہوسکتی۔

          خود اعتمادی بس یوں ہی نہیں آجاتی، اس کیلئے تین عناصر اہم ہیں۔ بھرپور تیاری کرنا، صحت کو قائم رکھنا اور عام معلومات و خیالات کا صحیح تجزیہ کرنے کی صلاحیت کے ساتھ مزاج میں توازن کا ہونا ضروری ہے۔ خود مزاج میں توازن بھی، تعلیم، غور و فکر اور بحث و مباحثہ کا نتیجہ ہوتا ہے۔

          (5  مسابقتی امتحانات میں تحریری امتحان کامیاب کرلینا کافی نہیں ہے۔ انٹرویو انتخاب کا لازمی جز ہے۔ تحریری امتحان میں بہت سے امیدوار کامیاب ہوجاتے ہیں، لیکن انٹرویو میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ انٹرویو میں امیدوار کی شخصی وجاہت Personality کی جانچ کی جاتی ہے۔ مختلف سوالات کے ذریعے اپنے مضمون میں مہارت کسی مسئلہ کی تہ تک پہنچنے کی قابلیت اور تجزیے کے بعد نتائج نکالنے کی صلاحیت، جس کو Expression کہتے ہیں، ان سب باتوں کو جانچا جاتا ہے۔ انٹرویو لینے والے اپنے فن کے ایکسپرٹ ہوتے ہیں۔ چار پانچ سوالات کے بعد ہی وہ بھانپ لیتے ہیں کہ امیدوار کتنے گہرے پانی میں ہے۔ وہ بہت آسانی سے سمندر کی تہ سے موتی نکال لیتے ہیں۔ جو کنکر پتھر ہیں وہ خود بہت جلد سطح آب پر آکر تیرنے لگ جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امتحان کی تیاری کے ساتھ ساتھ Mock Interviews کا بھی کوچنگ سنٹرس میں انتظام کیا جاتا ہے۔

          میری ایک نواسی حیدر آباد کے ایک اچھے انگلش میڈیم اسکول میں پڑھتی ہے۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے خط لکھا کہ میں اپنی چھٹی جماعت کے تینوں سیکشن میں ہمیشہ فرسٹ آتی رہی۔ اب کی مرتبہ مجھے ایک مضمون میں تین نمبر کم دے کر ایک ٹیچر، جو مجھ سے جلتی ہیں، دوسری نمبر پر لائی ہے۔ اس سے مجھے بہت دکھ ہوا۔ خط انگریزی میں تھا، میں باہر تھا اور فوراً اسی روز جواب دیا کہ اگزامنر کیلئے بڑی مشکل اس وقت پڑتی ہے جبکہ کئی امیدوار ایک ہی سطح کے ہوں ان کیلئے آسانی اس وقت ہوتی ہے جبکہ فیل ہونے والوں کی تعداد یا اوسط طلبہ بہت ہوں۔ ان باتوں کا زیادہ اثر لینا نہیں چاہئے۔ اکثر طلبہ اپنی کمزوری اور کوتاہیوں کو نبھانے کیلئے ہم ممتحن کی ذات پات، ذہنیت وغیرہ پر حملے کر بیٹھتے ہیں۔ ہمیں دوسروں پر الزام رکھنے سے بڑا سکون ملتا ہے۔

          جناب سید حامد صاحب جو انڈین پبلک سروس کمیشن کے رکن رہے ہیں، وہ ایک مرتبہ کہہ رہے تھے کہ آئی اے ایس کے انٹرویو میں کوئی مسلم امیدوار نہیں آرہا تھا۔ اس کے چیئرمین جناب سید حامد سے مخاطب ہوکر کہنے لگے:

          ’’حامد صاحب! انٹرویو میں کوئی مسلم امیدوار آہی نہیں رہا ہے تاکہ ہمیں کچھ تو تعصب بتلانے کا موقع ملتا‘‘۔

          یہ جملہ معنی خیز ہے۔ اصل میں اگر امیدوار میں قابلیت و صلاحیت اور خود اعتمادی ہو تو اس کو نا اہل قرار دینا خود انٹرویو لینے والوں کیلئے بھی آسان نہیں ہے۔ اس کی ایک اچھی مثال حال ہی میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے ایک ریٹائرڈ پروفیسر کی زبانی سننے میں آئی۔

          ’’کسی مضمون میں ایک لکچرر کا انتخاب کرنا تھا۔ وہ خود بحیثیت ایکسپرٹ کے اس انٹرویو بورڈ میں شریک تھے۔ ان کا بھی اپنا ایک امیدوار تھا۔ ویسے ہر ایک کو کسی نہ کسی ایک امیدوار میں دلچسپی رہتی ہے۔ بہت سے امیدوار انٹرویو میں شریک تھے۔ اس میں ایک اسکول کے ٹیچر معمولی کرتے پاجامے اور چپل پہنے ہوئے داخل ہوئے۔ اس ہیئت کذائی پر سب کو تعجب ہوا، کیونکہ انٹرویو میں ہر ایک امیدوار سوٹ بوٹ اور ٹائی میں تھا۔ اس امیدوار نے انٹرویو میں اپنے جوابات اور معلومات کی گہرائی سے اراکین کو ششدر کر دیا۔ پہلے تو سارے ممبروں پر سکتہ طاری ہوگیا، پھر بھی ایک ممبر نے دبی زبان سے کہاکہ کلاس ڈسپلن کیلئے شخصیت اور اچھا لبا بھی ضروری ہے۔ وائس چانسلر نے کہا انھیں ایک شیروانی اور سوٹ سلواکر پہنا دیجئے، طلبہ کا فائدہ ہوگا۔ لباس اچھا ہو لیکن قابلیت واجبی سی ہو تو طلبہ کا نقصان ہی نقصان ہوگا، چنانچہ اس ٹیچر کا انتخاب ہوگیا۔ تمام ممبران اس کی ذہانت اور قابلیت پر دنگ رہ گئے۔ اسے کسی بہانے نا اہل قرار دینا ان کیلئے ناممکن ہوگیا‘‘۔

          انٹرویو میں شخصی وجاہت کے علاوہ معلومات، اطراف و اکناف کے ماحول کا ادراک، تجزیہ کرنے کی صلاحیت اور خود اعتمادی دیکھی اور پرکھی جاتی ہے۔ بعض سوالات پر آپ کی ذہانت و قابلیت کی چمک ہی کام آسکتی ہے جسے انگریزی میں Resourcefulness یا Spark of Intellegence کہتے ہیں۔ یہیں پر آکر اکثر امیدوار پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایک آدھ جواب ایسا ویسا دے دیا تو Nervousness اور بھی بڑھ جاتی ہے۔ اس کی ایک بہترین مثال شہنشاہ اورنگ زیب عالم گیر کے زمانے کے ایک قصہ سے سمجھ میں آجائے گی۔ ہوا یہ کہ:

          ’’شہنشاہ کے زمانے میں کسی راجہ کا انتقال ہوگیا۔ اس کا بیٹا پانچ چھ سال کی عمر کا تھا۔ اس کا چچا چاہتا تھا کہ اس بچے کی کم سنی سے فائدہ اٹھاکر خود راجہ کی گدی پر قبضہ کرلے لیکن راجہ کے وزیر کی کوشش تھی کہ کسی طرح یہ تخت و تاج اس کمسن بچے کو ملے جو اس کا حقدار ہے۔ وہ اس لڑکے کو لے کر شہنشاہ اورنگ زیب کے دربار میں حاضری کیلئے روانہ ہوا۔ دورانِ سفر وہ راستہ بھر لڑکے کو سمجھاتا گیا کہ اگر شہنشاہ ہ سوال کریں تو یہ جواب دینا اور یہ سوال کریں تو ایسا جواب دینا۔ لڑکا خاموش سنتا رہا، بالآخر بول اٹھا اگر اس میں سے ایک سوال بھی نہیں آیا اور کوئی نیا سوال ہو تو پھر میں کیا کروں۔ اس بات پر وزیر دنگ رہ گیا۔ اس کا جواب وزیر نے اس طرح دیا ’’جس ذات نے اس وقت یہ سوال تیرے دل میں ڈال دیا ہے وہی اس کا جواب بھی سمجھا دے گا‘‘۔ محل میں پہنچ کر شہنشاہ کو اطلاع دی گئی۔ اس وقت اورنگ زیب پانی کے حوض میں نہارہے تھے۔ وزیر اور ننھے راج کمار کو وہیں بلالیا۔ بچہ تو حوض کے کنارے دونوں پیر پانی میں چھوڑ کر لاپروائی سے بیٹھ گیا۔ وزیر ادب سے کھڑا رہا۔ شہنشاہ اس بچے کی معصومیت اور لاپروائی کو دیکھ کر کچھ متعجب ہوا اور اس کے نزدیک آکر بچے کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور کہا ابھی تجھے اس حوض میں ڈبو دیتا ہوں۔ بچہ ہنسنے لگا۔ پوچھا اس میں ڈرنے کی بات کیا ہے؟ جواب میں بچے نے کہا جب آپ میرے دونوں ہاتھ پکڑے ہوئے ہیں تو میں پانی میں کیسے ڈوب سکتا ہوں ؟ شہنشاہ اورنگ زیب عالمگیر بچے کی ذہانت سے متاثر ہوا اور راج گدی کا پروانہ اسی بچے کے نام لکھ دیا‘‘۔

          دیکھئے دورانِ سفر وزیر کی ساری کوچنگ بے کار گئی۔ جو چیز کام آئی وہ لڑکے کی ذہانت و فطانت ہے جو اسی لمحہ بجلی کی طرح چمک گئی۔ بس یہی Resourcefulness ہے۔ یہ محض حاضر جوابی یا Wit نہیں ہے بلکہ اس سے بہت آگے کی چیز ہے۔

          اگر آپ اسکول اور کالج لائف میں مختلف مصروفیات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ناکامیوں سے مایوس نہ ہوں تو زندگی میں ہر مسابقت کا سامنا آسان ہوجائے گا۔ اولمپک گیمز میں ساری دنیا کے ہزاروں اسپورٹس مین شریک ہوتے ہیں لیکن میڈلس حاصل کرنے والے چند ہی ہوتے ہیں جو عالمی شہرت اور اعزاز کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ ان گیمز میں شریک ہونے والوں کا بھی اعزاز کچھ کم نہیں۔ اگر یہ شریک ہی نہ ہوتے تو پھر مقابلہ کس سے رہ جاتا۔ اس طرح ہم ان امیدواروں کا احسان مند ہونا چاہئے جنھوں نے اس مسابقت میں انعام پانے کا مستحق بنایا۔ جس کے دل میں اپنے مقصد کو پانے کا سچا عزم اور جذبہ ہو، سخت محنت کا خوگر ہو، اخلاص ہو، تو وہ اپنے مقصد کو پاکر رہے گا۔

تبصرے بند ہیں۔