اک رات کی تنہائی اور ٹوٹا ہوا دل ہے

چودھری عبد اللہ بن حمید اللہ ساحل

اک رات کی تنہائی اور ٹوٹا ہوا دل ہے

دونوں ہی الجھ بیٹھے مے پیار کے قابل ہے

کس نے ہے یہ پھر چھیڑا الفت کے ترانے کو

دیکھو تو ذرا اسکو مکار ہے عادل ہے

گفتار میں ہے بہتر کردار فریبی ہے

اس دور کا ہر انساں لگتا بڑا سنگ دل ہے

ظالم نے میرے دل پر ہے ظلم کیا کتنا

سننے کو کہاں کوئی کہنے کو مرا دل ہے

دیدار زمانے سے تیری نہ ہوئی ساحل

رہتا ہے کہاں آخر پوچھے یہ مرا دل ہے

تبصرے بند ہیں۔