اک روز ترے عشق کے اس سانچے میں ڈھل کر

مقصود عالم رفعت

 اک روز ترے عشق کے اس سانچے میں ڈھل کر

دیکھوں گا مری جان وفا شعلوں پہ چل کر

۔

یاں سخت مراحل سے گزرنا بھی پڑے گا

یہ راہ محبت ہے قدم رکھنا سنبھل کر

۔

یہ جنگ انا کی ہے سمجھ اس کو نہ آساں

"یہ مسئلہ نازک ہے اِسے بیٹھ کے حل کر”

۔

اس حسن پہ اتنا بھی تکبر نہیں اچھا

چلتے نہیں اے دوست یوں پھولوں کو مسل کر

۔

آہٹ سے تری میں تجھے پہچان ہی لوں گا

تو لاکھ مرے سامنے آ روپ بدل کر

۔

کیوں خواب میں آآ کے ستاتے ہو مجھے تم

آءو بھی کبھی سامنے خوابوں سے نکل کر

۔

پروانے فنا ہوتے ہیں کیوں شمع پہ آخر

یہ علم ہوا مجھ کو ترے عشق میں جل کر

۔

خواہش ہے مری جاں تمہیں سینے سے لگا لوں

تصویر سے باہر بھی کبھی آءو نکل کر

۔

ہے عشق کی آتش میں بھی جلنے کا مزہ اور

دیکھو تو کبھی شمع کے مانند پگھل کر

۔

پلکوں پہ کئی خواب سجا رکھے تھے میں نے

سب رکھ دئیے تو نے مرے ارمان کچل کر

۔

اس زیست کا کوئی بھی بھروسہ نہیں رفعت

جو آج ہے ممکن نہیں ہرگز اسے کل کر

تبصرے بند ہیں۔