اگر آج امام خمینی ہوتے!

عالم نقوی

آج سے بیس برس پہلے ۴ جون ۱۹۹۸ وہ تاریخ ہے جب امام خمینی ؒ واصل بالحق ہوئے تھے۔ اگر آج وہ زندہ ہوتے تو یقیناً اسلامی دنیا کے حالات کچھ مختلف ہوتے۔ ملت کی بد نصیبی یہ ہے کہ علما ء  کہلانے والے گروہ کی اکثریت  اُسی صفت ِ خاص سے محروم ہے جو از روئے قرآن اُن کی شناخت ہونی چاہئے۔۔ یعنی ’تفقہ فی الدین‘ کے حامل عالِم کی خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ :نمبر ایک : وہی اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہوتا ہے (انما یخشی ا للہ العلماء)! اور نمبر دو : حصول علم کے بعد وہی اپنے گھر والوں، اپنے قریے والوں اور اپنے شہر والوں کو عذاب آخرت سے سب سے زیادہ ڈرانے والا ہوتا ہے !

علی شریعتی اسی لیے یہ دعا مانگا کرتے تھے کہ :’اے اللہ ! علماء کو علم (حقیقی) عطا فرما ! یعنی ہمارے علماء، علماے حق کے زُمرے میں شامل ہوں، علماے سو ءکے زمرے میں نہیں۔

امام خمینی عرفان الٰہی کے حامل ایک ایسے ہی عالم با عمل تھے۔ عالم حقیقی اللہ نے اپنے اس بندے کو  بیسویں صدی  میں اُمت کی رہبری کے لیے منتخب فرما لیا تھا۔ مراجع کرام اور مجتہدین عظام تو اور بھی تھے ’رہبر کبیر ‘ اُن میں صرف ایک ہی ذات تھی۔ قیادت و سیادت کی تمام خصوصیات سے اللہ جل جلالہ نے امام خمینی کو مالا مال فرمایا تھا۔ ظاہر ہے کہ این سعادت بزور بازو نیست۔ ۔تا نہ بخشد خدائے بخشندہ ! ایک مرحلے پر امام نے فرمایا تھا کہ ’’ ہماری منطق قرآن کی منطق۔۔انّا للہ و انا الیہ راجعون۔ ۔ہے دنیا کی کوئی طاقت اس منطق کا مقابلہ نہیں کر سکتی۔ ۱۹۸۰ کے ابتدائی برسوں میں ایک دن سینٹ پیٹرس ویٹیکن سٹی کے منبر سے آنجہانی پوپ جان پال دوم نے ایک اتوار کو تقریر کرتے ہوئے جو خراج عقیدت پیش کیا وہ اُن کے جیسا کوئی روحانی پیشوا ہی کر سکتا تھا۔ حضرا ت عیسی ٰ و مریم علیہم السلام سے سچی محبت کی بناپر نصاریٰ کے بعض روحانیین بلا شبہ تکبر سے خالی  اور مردان ِ حق آگاہ ہو تے ہیں۔ جس کی گواہی خود قرآن (سورہ مائدہ، آیت ۸۴ ) میں موجود ہے۔ سابق اسقف ِ اَعظَم پوپ جان پال دوم نے  اپنے اس خطبے میں کہا کہ : کیا تم جانتے ہو کہ وہ کون سی طاقت ہے جس کی بنا پر ایک رَجُل ِ ضعیف نے ایران میں انقلاب برپا کر دیا اور انسان دشمن شہنشاہیت کو اُکھاڑ پھینکا وہ طاقت ’دُعا‘ کی طاقت ہے !مسلمانوں کے پیغمبر (ﷺ) کی ایک حدیث ہے کہ ’دعا مؤمن کا ہتھیار ہے ‘ ! ایران کے اس ضعیف عالم دین نے اپنے پیغمبر (ﷺ)کی اسی حدیث پر عمل کرتے ہوئے ایک ایسی طاقت کو شکست دے دی جس کو دنیا کی سب سے بڑی فوجی طاقت (امریکہ) کی حمایت حاصل تھی۔ ‘‘

یہ امام خمینی ؒاور ان کے لائے ہوئے انقلابِ اسلامی کو اپنے وقت کے سب سے بڑے عیسائی پیشوا کا سچا خراجِ عقیدت تھا جو اس کا ثبوت ہے تھا کہ اپنے پیغمبر (ھضرت عیسیٰ ؑ ) اور اُن کی مادر معصومہ  (حضرت مریم ؑ) سے سچی محبت رکھنے والا ایک روحانی ہی دوسرے روحانی کو سمجھ سکتا ہے جو اپنے پیغمبر  (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ) اور اُن کی آل پاک (علیہم السلام ) کی بے پایاں محبت سے سرشار تھا۔

لیکن امام خمینی کی طاقت و کامیابی کا اصلی راز۔ کربلا میں پوشیدہ ہے۔ قافلہ حجاز کا یہی وہ فرزند ِحسین تھاجس نے ’شمشیر پر خون کی فتح کے کربلائی استعارے ‘کو بیسویں صدی میں ایک بار پھر زندہ و متحرک بنا دیا۔ بیسویں صدی میں اسلامی انقلاب برپا کرنے کی کوششیں تو اور بھی ہوئیں لیکن کامیابی صرف امام خمینی کے حصے میں آئی اور یہ صرف امامِ ضامن  علی ابن موسی الرضا علیہ السلام  کے اس قول کی عملی تفسیر کی بدولت ممکن ہو سکا کہ۔ ۔کُلُّ یَو مٍ عاشورہ۔ کُلُّ ارض ٍ کر بلا!

ہم نے  تیرہ سال قبل (۲۰۰۵ میں )کئی  مشہورکتابوں کے مصنف ایک دانشور سفارتکار( ڈپلو مَیٹ ) سے (جو ابھی ماشا اللہ حیات ہیں ) اُن کی لکھنو آمد پر مولانا کلب صادق صاحب کے دفتر میں ایک سوال کیا تھا کہ ’اگر امام خمینی آج ہوتے تو بتائیے کہ۔ ۔ما بعد نائن الیون دنیا میں اور مابعد گوانتا نامو / ابو غُرَیب عہد میں اور بے حرمتی قرآن کریم کے اس نا ہنجار زمانے میں۔ ۔آج کا منظر نامہ کیا ہوتا؟۔۔انہوں نے تو اس سوال کے کسی دو ٹوک جواب سے احتراز کیا اور ایک بظاہر بے ضرر سا ’ڈپلومیٹک ‘ جواب دے کر بات کا رُخ بدل دیا لیکن ۔ ۔ہمیں یقین ہے کہ جس طرح ’مرگ بر شاہ‘ کے نعرے کا سفر ’شاہ خبیث و خائن ‘ کی ڈھائی ہزار سالہ شہنشاہیت   کے خاتمے پر تمام  ہوا، اُسی طرح امام خمینی کے کسی فتوے کی بدولت ان کی عملی و روحانی رہنمائی میں ’مرگ بر امریکہ ‘ اور ’ مرگ بر اسرائل ‘ کے نعروں کا سفر بھی استیصال ِ فساد پر مُنتَج ہوتا !

بقول مختار مسعود مرحوم۔ ۔’’ نعرہ گلے سے نکلے آواز کی رفتار سے سفر کرتا ہے،  دل سے نکلے تو خیال کی رفتار سے بھی آگے نکل جاتا ہے‘(لوح ایام )۔ آج وہ نعرے بھی ہیں اور ان کی سرعت رفتار بھی وہی ہے۔ بس کمی ہے تو امام خمینی جیسے ایک رہبر کی !  قافلہ ھجاز آج پھر اپنے کسی حسین کا منتظر ہے۔

1 تبصرہ
  1. آصف علی کہتے ہیں

    حضرت امام خمینی زندہ ہوتےتویقیناًاس دورکےفرعون بشاراسدرجیم کی بےجاحمایت ومعاونت پرایرانی قیادت کی سرزنش کرتےاوراپناسارارسوخ بروئےکارلاکربشاراسدکےخلاف اسی طرح نعرہ مستانہ(مرگ برشاہ)بلندکرتےجس طرح انھوں نےرضاشاہ پہلوی کےخلاف بلندکیاتھا۔آج ملتِ شام بشاررجیم کےظلم وستم سےتڑپ رہی ہےخمینی ہوتےتوشام کےمظلومین ومستضعفین کےحق میں بشاررجیم کےظلم وستم کےخلاف آوازبلندکرتےاورمظلومین کی استعانت کرتے۔

تبصرے بند ہیں۔