حضرت مولانا قاری فضل الرحمن

خواجہ احمد حسین

اعظم گڑھ کی سرزمین پر ایک دیندار گھرانہ حضرت مولانا حافظ عظمت اللہؒ کا تھا جو اپنے وقت کے نیک اور صوفی صفت انسان تھے جو معروف عالم دین مولانا قاری عبدالقوی کے والد بزرگوار اور حضرت مولاناقاری فضل الرحمن کے دادا تھے۔

قاری عبدالقوی کا مشن درس قرآن، تعلیمات نبوی اور احکام شرع بیان کرکے امت مسلمہ کو صراط مستقیم پر گامزن کرنا تھا تاکہ وہ غیر شرعی فعل اور کاموں سے خود کو دور رکھ سکیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر ۱۸۹۸ء میں کلکتہ کے ایڈن ہاسپیٹل روڈ میں مدرسہ عظمتیہ کے نام سے ایک خالص دینی مدرسہ کی بنیاد ڈالی گئی۔

حضرت مولانا قاری عبدالقوی کے گھر ۵؍مارچ ۱۹۵۱ء کو جب سب سے پہلے مہمان کی آمد ہوئی تو پورا گھر خوشی سے سرشار ہواٹھا۔ والدین کے منہ سے برجستہ یہ جملہ شاید نکل پڑا ہوگا کہ آج ہمارے گھر رحمن کا فضل نازل ہوگیا اور اسی طرح چاند جیسے بچے کا نام فضل الرحمن رکھ دیا۔ فضل الرحمن بچپن سے ہی ذہین اور کم گوتھے۔ وہ عام بچوں کی طرح نہیں تھے کیونکہ قدرت کو تو انہیں وارثین کا جانشین بنانا تھا۔ لہٰذا گھریلو تعلیم وتربیت کے بعد والدین نے انہیں جامع مظاہر العلوم، سہارنپور میں داخلہ کروادیا جو اپنے دور کا ایک اہم دینی مرکز تھا۔ مدرسہ جامع مظاہرالعلوم کے ماحول اور اساتذہ کی محنتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ فضل الرحمن سے حضرت مولاناقاری فضل الرحمن بن گئے اور ایک نوجوان عالم دین کی شکل میں پورے ملک میں اپنی شناخت قائم کرلی پروردگار نے آپ کو ذہانت اور علم کے ساتھ ساتھ درازی قد بھی عطا کیا جس نے آپ کی شخصیت کو وقار اور حسن بخشا۔ آپ چاہتے تو علم کی فراغت کے بعد روزگار کے لئے بیرون ملک کا بھی رخ کرسکتے اور آسانی سے آپ کو ملازمت حاصل بھی ہوجاتی اور دیکھتے ہی دیکھتے امیر ترین انسان بن کر اپنے وطن کو لوٹتے مگر آپ نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنے اجداد کی نشانی کو قائم ودائم رکھنے کے لئے واپس کلکتہ کا رخ کیا اور خود کو اپنے وارثین کا سچا اور ایماندار جانشیں ہونے کا ثبوت پیش کیا۔اپنے دادا اور والد کے ادھورے خوابوں کو آپ نے پورا کیا۔ دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ آپ نے مدرسہ میں زیر تعلیم مسلمان بچوں کے لئے عصری تعلیم کا بھی انتظام کیا۔ساتھ ہی ساتھ کمپیوٹر کا شعبہ بھی کھولا تاکہ ہمارے بچے برادران وطن کے بچوں کے مقابلے میں احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ ان کے پاس مشن کو آگے بڑھانے میں قاری صاحب کے لائق وفائق صاحبزادوں بالخصوص قاری فیض الرحمن، حضرت مولانا قاری عبیدالرحمن اور حضرت مولانا قاری سیف الرحمن اور سب سے چھوٹے بیٹے انجینئر حمیدالرحمن نے بھی پوری محنت اور لگن سے اپنے اجداد کی نشانی مدرسہ عظمتیہ کے لئے خود کو وقف کردیا۔

قاری فضل الرحمن صاحب کو چونکہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں، ان کے ساتھ ملی کونسل میں ایک ساتھ کام کرنے کا اتفاق بھی ہوا ہے، اس لئے پوری ذمہ داری کے ساتھ میں یہ بات کہہ رہا ہوں کہ قاری فضل الرحمن ایک نہایت ہی ایماندار اور خود دار انسان کا نام ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے کبھی بھی قوم وملت کا سودا نہیں کیا۔ صراط مستقیم کا یہ علمبردار اپنے رزق حلال سے اپنی بچی اور بچوں کی تربیت کی، تبھی تو پروردگار نے انہیں نیک بیوی اور صالح اولادیں عطا کیں۔ قاری صاحب نے شکر اور صبر کا دامن کبھی نہیں چھوڑا۔ شریعت کے معاملے میں اپنی طبیعت کو دخل انداز کبھی ہونے نہیں دیا تو پھر خدا کا انعام تو انہیں ملنا ہی تھا کیونکہ انہوں نے صرف اپنی اولادوں کو ہی نہیں ملت کے نونہالوں کی پرداخت بھی اپنی اولادوں جیسی ہی کی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے انگنت طالب علم ملک اور بیرون ملک میں دین کی تبلیغ کے کاموں سے جڑے ہوئے ہیں۔ میرے چھوٹے بھائی مرحوم الحاج خواجہ جاوید اختر کے یہ اشعار قاری صاحب کے جہدمسلسل کے لئے صادق آتے ہیں :

نونہالوں کی فکر ہے شاید

گھر کا بوڑھا شجر نہیں ہوتا

روشنی بانٹنے کی چاہت میں

ایک دیا رات بھر نہیں سوتا

جب اللہ کا بندہ زمین پر مشکل میں پھنسے ہوئے انسان کے لئے آسانی پیدا کرتا ہے، دنیا میں کسی کی پریشانی دور کرتا ہے، کسی کے عیبوں کو چھپاتا ہے اور زمین پر ہروقت کسی کی مدد میں لگا رہتا ہے تو اللہ نہ صرف ایسے شخص کی مدد فرماتا ہے بلکہ اسے دین اور دنیا دونوں میں سرفرازی عطاکرتا ہے۔لہٰذا یہ ساری صفتیں حضرت مولانا قاری فضل الرحمن میں بدرجۂ اتم موجود ہیں تبھی تو دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے قاری صاحب کو عزت وحترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہمارے صوبہ مغربی بنگال اور کلکتہ میں جب بھی لااینڈ آر ڈر کا خطرہ محسوس ہوا، فرقہ وارانہ ماحول جب بھی مکدر ہوئیں تو چاہے وزیر اعلیٰ کی شکل میں سدھارت شنکر رائے، جیوتی باسو، بدھادیب بھٹاچاریہ یا ممتابنرجی ہوں، قاری صاحب کی خدمات حاصل کرکے ان سے مشورہ طلب کیا اور اس پر عمل درآمد بھی کیا۔ ان کی عالمانہ صلاحیت اور تقویٰ کو دیکھتے ہوئے ۱۹۹۱ء سے کلکتہ خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام تاریخی ریڈ روڈ میدان میں عیدین کی امامت کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان سے قبل حضرت مولانا ابوالاکلام آزاد، مولانا ابوسلمہ شفیع، حضرت مولانا ابومحفوظ الکریم معصومی جیسے جید عالم دین کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی۔اس کے علاوہ بہت سارے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں آپ کی خدمات حاصل کی گئیں، جیسے حج کمیٹی، وقف بورڈ، اردو اکاڈمی، ملی کونسل، مجلس مشاورت، مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

۲۰۱۰ء میں آپ کے نعت کا مجموعہ ’’گلزار نعت‘‘ منظر عام پر آیا جو کافی مقبول ہوا۔ گذشتہ کئی برسوں سے محرم الحرام کے مہینے میں محرم کے خرافات سے بچنے کے لئے مدرسہ عظمتیہ سے مسلسل گیارہ روز تک شہدألاسلام مع شہداء کربلا‘ کے عنوان سے آپ کے پُرمغز خطاب سے پورا زکریا اسٹریٹ اور کولوٹولہ ہمہ تن گوش ہوکر نہ صرف سنتا ہے بلکہ اس پر عمل پیرا بھی ہوتا ہے۔آپ کے اس سبق آموز گفتگو کو سننے کے لئے لوگ دور دراز سے آتے ہیں اور شہداء کربلا کی حقیقت سے آشنا ہوتے ہیں۔ قاری صاحب کے ساتھ ہوڑہ شیب پور، بیل گچھیا اور کانکی نارہ کے کئی جلسوں میں نہ صرف خطاب کیا بلکہ نظامت کرنے کا شرف بھی رقم کو حاصل رہا۔قاری صاحب کی خطابت کے ملک اور بیرون ملک میں لاکھوں افراد مداح ہیں کیونکہ ان کی گفتگو ایسی ہوتی ہے کہ سامعین کے دل میں بات گھر کرجاتی ہے اور وہ خود کو بدلنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کیونکہ ان کے لہجے میں جو مٹھاس ہے، وہ دوسرے واعظ میں بہت کم دیکھنے کو ملتا ہے، تبھی تو پروفیسر اعزاز افضل مرحوم کا یہ قطعہ ان پر صادق آتا ہے کہ :

لوگ دیتے ہیں داد لہجے کی

ہر مخاطب سخن شناس کہاں

تیرے ہونٹوں سے جو ٹپکتی ہے

سب کی باتوں میں وہ مٹھاس کہاں

دل کو چھوجانے والی گفتگو ئے ہنر سے قاری فضل الرحمن خوب واقف ہیں۔

اسی لئے وہ اس وقت ہر دل عزیز ہیں۔ قاری صاحب سادہ زندگی گزارتے ہیں۔ سادہ کھانا کھاتے ہیں اور رسول کی شریعت پر نہ صرف چلتے ہیں بلکہ دوسروں کو بھی چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ عمرہ اور فریضۂ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ ۲۰۱۲ء میں ہندستانی سرکاری خیر سگالی حج ڈیلی گیش کے ممبر اور بادشاہ عرب کے مہمان رہ چکے ہیں۔ ملک کے جید سیکولر رہنما بالخصوص سابق صدور جمہوریہ ہند ڈاکٹر عبدالکلام اور پرنب مکھرجی، وزراء اعظم اندر کمارگجرال اور ڈاکٹر منموہن سنگھ اور کانگریس صدر سونیاگاندھی سے ملی مسائل پر کئی بار تبادلہ خیال کی غرض سے ملاقات کرچکے ہیں۔

حضرت مولانا قاری فضل الرحمن کی صحت یابی اور درازی عمر کے ساتھ دعا گو ہیں کہ اللہ رب العزت تادیر ان کا سایہ قائم ودائم رکھے تاکہ قوم وملت ان سے استفادہ حاصل کرسکے۔ایک بار پھرعلامہ اقبال کا یہ شعراپنے ملی بھائیوں کی نذر کرتا ہوں :

نہ سمجھو گے تو مٹ جائوگے اے ہندی مسلمانو

تمہاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

تبصرے بند ہیں۔