ایدھی – عصر حاضر کا صعصعہ

     ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی  

معروف عرب شاعر فرزدق کے دادا صعصعہ بن ناجیہ المجاشعی کا ایک واقعہ بہت مشہور ہے۔ ایک مرتبہ ان کی دو اونٹنیاں اور ایک اونٹ کہیں کھو گئے۔ وہ انھیں صحرا میں تلاش کرتے ہوئے ایک ایسے خیمے کے پاس پہنچے جہاں وہ جانور بندھے ہوئے تھے۔ ابھی وہ خیمے کے مالک سے ان کے سلسلے میں بات ہی کر رہے تھے کہ اندر سے ایک نسوانی آواز آئی :”لڑکی پیدا ہوئی ہے۔ "مالک نے فورا کہا:”اس کا گلا دبا دو۔ "صعصعہ بول پڑے :” میری یہ دونوں اونٹنیاں لے لو اور بچی مجھے دے دو۔ "خیمے کے مالک نے کہا :” اس شرط پر دے سکتا ہوں کہ یہ دونوں حاملہ اونٹنیاں مجھے دے دو، ان کے پیٹ میں جو بچے ہیں وہ بھی اور اونٹ بھی۔ "وہ رضامند ہوگئے۔

          عرب کے بعض قبائل میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسمِ بد پائی جاتی تھی۔ اس کا سبب فقر و فاقہ  بھی تھا، لڑکیوں کو حقیر اور باعثِ عار سمجھنے کا رجحان بھی اور یہ اندیشہ بھی کہ کوئی دشمن قبیلہ حملہ آور ہوگا تو وہ انھیں پکڑ کر لے جائے گا، جس سے بہت زیادہ خفّت اور ذلّت ہوگی۔ اس سماج میں کچھ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے اس رسمِ بد کے خاتمے کے لئے یہ منصوبہ بنایا کہ جہاں بھی انھیں لڑکی پیدا ہونے کی اطلاع ملتی وہ پہنچ جاتے اور کچھ دے دلاکر اسے حاصل کر لیتے اور اس کی پرورش کرتے۔  ان لوگوں میں صعصعہ کے علاوہ زید بن عمرو بن نفیل کا بھی نام مشہور ہے۔

          صعصعہ نے مذکورہ بالا واقعہ کے بعد پیدا ہونے والی بچیوں کی جان بچانے کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیا۔ جب بھی انھیں پتہ چلتا کہ کسی قبیلے میں لڑکی پیدا ہوئی ہے اور اندیشہ ہے کہ اسے زندہ درگور کر دیا جائے گا ، وہ فورا وہاں پہنچ جاتے اور دو اونٹنیوں اور ایک اونٹ کے بدلے اس بچی کو لے لیتے اور اس کی پرورش کرتے اس طرح انھوں نے 360 بچیوں کی جانیں بچائیں۔

       اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی بعثت ہوئی تو صعصعہ کو بھی اسلام قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ ایک مرتبہ انھوں نے آپ سے دریافت کیا کہ میں نے ایام جاہلیت میں بچیوں کی جان بچانے کا جو کام کیا ہے، کیا مجھے اس پر اجر ملے گا؟ آپ نے فرمایا : "ہاں، اس لیے کہ تمھیں قبول اسلام کا شرف حاصل ہے۔ ” (طبرانی، اصابہ)

           پاکستان میں رفاہی میدان میں کام کرنے والی مشہور شخصیت جناب عبد الستار ایدھی کی وفات کی خبر ملی تو میرے ذہن میں حضرت صعصعہ رضی اللہ عنہ کا واقعہ تازہ ہوگیا۔  ایدھی کے بارے میں مضامین لکھے جا رہے ہیں اور ان کی رفاہی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ ان کی جاری کردہ ‘جھولا’ اسکیم کا علم ہوا تو میں بڑا متاثر ہوا۔ پورے پاکستان میں ان کے سینکڑوں سینٹر کام کر رہے ہیں۔ ہر سینٹر کے باہر انھوں نے ایک جھولا لگوادیا اور اعلان کروادیا کہ جو شخص بھی کسی بچے یا بچی کو نہ پالنا چاہتا ہو وہ اسے اس جھولے میں ڈال جائے، اس کی پرورش ہم کریں گے۔  چنانچہ بہت سی بچیاں اور بچے حاصل ہوئے اور ایدھی سینٹرس میں ان کی پرورش ہوئی۔

       یہ بڑا نازک، حسّاس اور تہمتوں والا کام ہے۔ بہت ممکن ہے کہ ان میں سے بعض بچے ناجائز تعلق کی پیداوار ہوں۔ اب یہ حکومت اور سماج کے سربرآوردہ طبقہ کی ذمے داری ہے کہ وہ انسانی سماج کو پاکیزہ بنانے کے اقدامات کرے، نکاح کو رواج دے اور آسان بنائے، زنا کے محرکات کا ازالہ کرے اور اس پر مضبوط بند لگائے، اسی طرح اس کی یہ بھی ذمے داری ہے کہ وہ معاشرہ کو ایسا خوش حال بنائے کہ کوئی غریب سے غریب شخص فقر و فاقہ کے اندیشے سے قتلِ جنین پر آمادہ نہ ہو سکے۔ لیکن میں شرعی اعتبار سے غور کرتا ہوں تو پاتا ہوں کہ اس میں ان نفوس کا کوئی دوش نہیں جن میں روح پڑ  چکی ہو اور وہ اس دنیا میں بھی آچکے ہیں۔ ان کی جان بچانے کی کوشش کرنا اور انھیں پالنا پوسنا ایک کارِ خیر ہے، جس پر ضرور بارگاہ الہی میں اجر ملے گا۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:”جس نے ایک جان کو قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان  بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کی جان بچائی۔ ” (المایدۃ :32)

تبصرے بند ہیں۔