ہائے یہ میڈیا کی دورخی

واہ رے میڈیا!
بہت سنتے تھے کہ کسی جھوٹ کو سو بار بولا جائے تو وہ سچ ہوجاتا ہے۔ اب اس کا جیتا جاگتا نمونہ بھی دیکھ لیا۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک کے حالیہ مسئلے پر اس قدر جھوٹ کا کاروبار کیا گیا کہ کچھ سیکیولر سوچ رکھنے والے معتدل افراد بھی اس کی زد میں آگئے۔ اور انہیں لگنے لگا کہ واقعی یہ سچ ہے۔

میں اسے کیا کہوں؟ میڈیا کا دوغلا پن یا اس کا حقیقی چہرہ؟
میں وضاحت کردوں کہ آج بھی ذرائع ابلاغ میں اچھے اور سلجھے ہوئے صاف کردار کے لوگ موجود ہیں۔ جنہیں انگلی پہ گنا جاسکتا ہے۔ جو اپنے فرض منصبی کو سمجھتے ہیں۔ اور بہت کوشش بھی کرتے ہیں کہ وہ اپنے فرائض کو سہی ڈھنگ سے نبھا سکیں۔ اور کچھ ایسے صحافی آج بھی ہیں جن کی ایمانداری کی مثال دی جاسکتی ہے۔ وہیں ان میں بہت سے ایسے صحافی بھی ہیں جنہیں اپنی ایمان داری کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ یا تو انہیں ملازمت چھوڑنی پڑتی ہے، یا پھر گم نامی کی زندگی بسر کرنی ہوتی ہے۔ ان تمام ایمان دار صحافیوں اور ذرائع ابلاغ سے جڑی شخصیتوں کو میرا سلام!

مجھے تو ان صحافیوں سے شکایت ہے جنہوں نے چند حقیر سکوں کے عوض اپنے ایمان اور فریضے کا سودا کرلیا ہے۔ جنہوں چند ٹکوں کے بدلے سچ کو بیچ کر جھوٹ خرید لیا ہے۔ جی ہاں جن کی حریص طبیعت نے حرص میں پڑ کر اپنا قلم اور اپنی آزاد زبان تک کو بازار کی زینت بنا لیا ہے۔

پیسوں کے لئے ایسے لوگ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ وہ لمحوں میں ایک معصوم شخص کو سب سے بڑا مجرم بنا سکتے ہیں۔ اور برادران وطن میں نفرت کی ایسی دیوار کھڑی کرسکتے ہیں کہ جسے گرانا ناممکن سا لگتا ہے۔ جی ہاں یہ چاہیں تو فساد بھی برپا کرسکتے ہیں۔

یہ سب پیسوں کا ہی کھیل ہے کہ کل کو جو سیاسی جماعت اقتدار پر تھی اسی کے گن گائے جاتے تھے۔ اور محاذ مخالف کا جینا تک دشوار ہوسکتا تھا۔ آج وہی محاذ جب برسر اقتدار ہے تو اس کے سر پر لگے ہزاروں معصوموں کا خون بھی اب معاف ہے۔ اب اس کی تعریفوں کے پل باندھے جارہے ہیں۔ کل کا مجرم آج میسحا بن چکا ہے۔

بکے ہوئے میڈیا کا دوغلا پن اس وقت مزید صاف ہوگیا جب میں نے دیکھا کہ ایک جھوٹی خبر کو بنیاد بنا کر امن کے داعی و نقیب کو ہی امن کا دشمن اور دہشت گرد تک بنا دیا۔ اور اب جب حقیقت عیاں ہوگئی تو جانوروں کی طرح شور مچانے والے کچھ بکے ہوئے صحافی اس شخص کی براءت پر خاموش ہیں۔ یہ میڈیا ہی ہے جو بھولی بھالی عورتوں کو جھانسہ دے کر ان سے بدکاریاں کرنے والے کو آج تک ولی کا درجہ دیتی ہے۔ اور پیسہ ملنے پر ایک معمولی سے واقعے کو دہشت گردی سے جوڑ سکتی ہے۔ وہیں پیسوں کا یہ ننگا ناچ بھی سبھی دیکھ چکے ہیں کہیں بلاسٹ ہوتا ہے۔ وہاں ٹوپی، مسواک، اور داڑھی کو دیکھ کر بلاتامل اسے ایک مذہب سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ اور اتنا واویلا مچتا ہے کہ اس مذہب کے ماننے والوں کا دائرہ تنگ ہونے لگتا ہے۔ لیکن جب پتہ چلتا ہے کہ یہ حملہ آور کوئی محمد، عمر یا عبد اللہ نہیں بلکہ سادھو، پروہت اور سادھوی ہیں تو اس بدکردار میڈیا کو اتنی بھی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ہے کہ اہل وطن تک ان کا جو غلط پیغام گیا ہے اس کی تردید کو بھی نمایاں کیا جائے۔ اب جب پیسے ہی اسی بات کے ملتے ہیں تو وہ ایسا کیوں کریں گے۔ اگر ایسا کردیا تو یہاں بین المذاہب محبتیں بڑھیں گی۔ لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ اور اگر ایسا ہوا تو ان کے آقاؤں کی دکانیں بند ہو جائیں گی۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔