قلم کا سپاہی – حفیظ نعمانی

عالم نقوی
ترسٹھسال قبل 1952میں اسی ماہ دسمبر کی 22تاریخ کو لاہور کی ایک خصوصی تقریب میں فیض احمد فیض کے شعری مجموعے ۔دست صبا ۔کا اجرا عمل میں آیا ۔کہا جاتا ہے کہ اردو ادب میں کسی کتاب کی رو نمائی کی یہ اولین محفل تھی ۔اس سے پہلے اس طرح کی کسی روایت کی کوئی نظیر نہیں ملتی کیو نکہ اس وقت تک اس نوع کی کسی تقریب کا کوئی تصور ہی نہیں تھا لیکن اس تقریب میں فیض صاحب حاضر نہیں تھے ،اس لیے کہ وہ نام نہاد راولپنڈی سازش کیس کے سلسلے میں پس دیوار زنداں تھے اور وہ طرز فغاں ایجاد کر رہے تھے جو بعد میں پورے گلشنِ اُردو کا طرزِ بیاں ٹھہری !دست صبا کا سر ورق نامور مصور عبد ا لرحمن چغتائی نے بنایا تھا لیکن قلم کے سپاہی کا سر ورق بھی کسی عصری چغتائی کے ماہرانہ اسٹروک کا ثمرہ ہے کتاب کی تکنیکی تفصیلات کے صفحے پر تو درج نہیں لیکن گمان غالب ہے کہ ہو نہ ہو یہ حفیظ نعمانی کے فرزندِ دِل بند مشہور مصور مامون نعمانی کا حسنِ کمال ہے!
ٖ فیض بھی قلم کے سپاہی تھے اور حفیظ بھی۔ فرق بس اتنا ہے کہ حفیظ نعمانی نثری شاعری کرتے ہیں ۔!فیض کی طرح وہ بھی سچ بولنے کی پاداش میں سنت یوسفی ادا کر چکے ہیں ۔رودادِ قفس میں اس کا عبرت انگیز لیکن ولولہ خیز اَحوال محفوظ ہے ۔ہفت روزہ ندائے ملت ،روزنامہ قائد اور روزنامہ عزائم سے لے کر اودھ نامہ سمیت لکھنؤ کے متعدد اردو روزناموں تک ان کی پچاس پچپن سالہ خدمات ،اردو کی صحافتی تاریخ کے ،بابِ عزیمت و صداقت کا سر نامہ ہے ۔ اس کا ثبوت ۔روداد قفس ۔ہے جو 1965میں کانگریس کے دور حکومت میں علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے لیے لڑی گئی جنگ کے ایک محاذ کی کہانی ہے ،جو ندائے ملت پر اندرا گاندھی حکومت کے شب خون سے شروع ہو کر 9ماہ کی اسیری پر تمام ہوتی ہے ۔ شکاگو کے عارف صدیقی اگر فیض کی اس نظم میں حفیظ نعمانی کو دیکھتے ہیں تو اُن کی حق شناسی لائقِ اِکرام ہے کہ :بول ۔۔کہ لب آزاد ہیں تیرے ۔بول زباں اب تک تیری ہے ۔بول کہ جاں اب تک تیری ہے ۔دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں ۔تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن ۔کھلنے لگے قفلوں کے دہانے ۔پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن ۔بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے ۔جسم و زباں کی موت سے پہلے۔بول کہ سچ زندہ ہے اب تک ۔بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے !
بے شک وہ قلم کے سپاہی ہیں، قلم سے جہاد کرنے والے سپاہی !انہی کے لفظوں میں : وہ سپاہی نہیں جو ٹریفک کانسٹبل کے جانے کے بعد ڈنڈا لے کر چوراہے پر کھڑے ہوجاتے ہیں اور تین گھنٹے میں تین سو سے زیادہ کما لیتے ہیں ۔۔! وہ جھوٹ اور بد عنوانی (کرپشن)کا سر کاٹنے والے سپاہی ہیں۔ان کی تحریروں میں شدت اور سختی ہے تو صرف اس لیے کہ وہ صاحب قوت و اقتدار نہیں ۔۔ ہوتے، تو قلم زنی کے بجائے ، جھوٹ، ،مکاری اور کرپشن کے پھل ،پھول ،شاخوں اور جڑوں کی گردن زدنی میں مصروف ہوتے ۔ان کی سپاہیانہ تحریریں اس دینی فکر، سیاسی شعور اور سماجی بصیرت کی حامل ہیں جو فرد کی کشمکش اور ہجوم کی نفسیات کو سمجھے بغیرنہیں لکھی جا سکتیں ۔انکے دوست جمیل مہدی کہتے تھے کہ وہ لیڈروں ،پالیسی سازوں اور خواص کے لیے لکھتے ہیں ۔لیکن حفیظ نعمانی کی سفاک و شفاف تحریریں اُس عام آدمی کو عقل و شعور اور معاملات کی سمجھ عطا کرتی ہیں جس کو، سیاسی سامری اور قارونی حکمراں، اندھا بہرا گونگا ، بے وقوف اور جاہل سمجھتے ہیں۔نہرو خاندان ، چرن سنگھ جیسے نایاب سیاسی لیڈروں، مودی پریوار، عام آدمی پارٹی اور کجریوال سے متعلق ان کی تحریریں اس کا ثبوت ہیں ۔
حفیظ نعمانی ،قحط رجال کے اس زمانے میں ادب و صحافت کے وہ گوہر بے بہا ہیں جنہوں نے حق گوئی کے معیار اور
اعتبار دونوں کو قائم رکھا ہے ۔وہ دانشوروں کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جو زمانے کے ساتھ نہیں چلتے بلکہ زمانہ جن کے ساتھ چلنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ان کے عزیز دوست اور مشہور دانشور ناقد شارب ردولوی کے لفظوں میں ان کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا منفرد اسلوب اور ان کی نفیس زبان ہے ۔ ان کے مضا مین دلچسپ ہی نہپیں ایک خاص عہد کی ایسی جھلک دکھاتے ہیں جو، نہ تاریخ میں محفوظ ہے نہ اور کسی جگہ ۔ بجھے دیوں کی قطار ۔میں جگر مرا د آبادی کے خاکے میں لکھتے ہیں :بھائی صاحب (مولانا عتیق ا لرحمن)نے(گونڈہ سے واپسی پر )بتایا کہ لکھنؤ سے صرف چار حضرات (انہیں کاندھا دینے والوں میں شامل )تھے جن میں حضرت مولانا علی میاں ،مفتی محمد رضا انصاری ،فرحت ا للہ انصاری اور ہم (یعنی مولانا عتیق )۔یہ وہ لکھنؤ تھا جو ،جگر صاحب سے ایک شعر سننے کے لیے دل نثار کرنے کی بات کرتا تھا ،جو صرف ایک شب کے قیام کے لیے کوٹھیوں کے دروازے کھلوا دیتا تھا اور جس لکھنؤ کے سیکڑوں شاعروں نے جگر صاحب سے اپنے کو وابستہ بتا کر نہ جانے کیا کیا کمایا ہے ۔شاید میر انیس نے لکھنؤ کو جان کر ہی کہا تھا کہ :کوفے سے مل رہے ہیں کسی شہر کے عدد ۔ڈرتا ہوں اے انیس کہیں لکھنؤ نہ ہو ۔۔اور مقبول احمد لاری کے بارے میں ان کی یہ تحریر کیا نثری شاعری کا نادر نمونہ نہیں ؟ کہ :وہ اچانک لکھنؤ آئے ۔اور پانی سے بھرے ہوئے بادلوں کی طرح لکھنؤ پر چھائے ۔پھر انہوں نے برسنا شروع کیا ۔ اور اتنا برسے کہ میخانہ ڈوبنے لگا ۔ اور پھر سورج کی گرمی اور ہوا کے تیز و تند جھونکوں نے ۔کالے بادلوں کا رنگ بدلا ،انہیں ہلکا کیا ۔ اور ۔روئی کی طرح اڑا دیا ۔ لاری صٓحب نے روشن صبح بھی دیکھی ۔سورج کو سوا نیزے پر بھی دیکھا ۔ سہ پہر کو آرام بھی کیا ۔اودھ کی شام بھی سجائی ۔اور جب رات بھی گزارلی ۔ تو سب کو خدا کے حوالے کر کے چلے گئے ۔ !
ان کی تحریریں فیض احمد فیض اور سعد ا للہ شاہ کی مزاحمتی شاعری کی طر ح ہم جیسوں کے دلوں میں روشن احتجاج کی آگ کو سرد نہیں ہونے دیتیں وہ اپنے پڑھنے والوں پروہی اثر کرتی ہیں جو مثال کے طور پر ،کسی زمانے میں عطا ء ا للہ شاہ بخاری ،شورش
کاشمیری اور نواب بہادر یار جنگ اور مولانا آزاد کی تقریریں کرتی تھیں ۔افسوس کہ ہم اُس زمانے میں ہیں کہ جب نہ عطا ء اللہ شاہ اور ابو ا لکلام آزاد جیسی تقریریں کرنے والے باقی ہیں اور نہ شورش کاشمیری اور حفیظ نعمانی جیسوں کا کوئی نعم ا لبدل ہم اپنے آس پاس دیکھتے ہیں ۔ حفیظ نعمانی اُس قبیلے کے سر دار ہیں جو نظامِ وَقت کی ناکامی سے نالاں ظالم اور متعصب طرز حکمرانی سے عاجز اور مؤثر و منصفانہ تبدیلی کا خواہاں ہے ۔
وہ بھی جمیل مہدی ہی کی طرح اپنے تحریر کو مؤثر بنانے کے لیے اشعار کی بیساکھی استعمال نہیں کرتے لیکن ہم کیا کریں اُنہیں پڑھتے ہوئے ہمیں کبھی سعد ا للہ شاہ یاد آتے ہیں ،جو کہتے ہیں کہ :سحر کے ساتھ ہی سورج کا ہم رکاب ہوا ۔۔جو اپنے آپ سے نکلا وہ
کامیاب ہوا ۔۔میں جاگتا رہا اک خواب دیکھ کر برسوں ۔۔پھر اس کے بعد مرا جاگنا بھی خواب ہوا ۔۔میں زندگی کے ہر اک مرحلے سے گزرا ہوں ۔۔کبھی میں خار بنا اور کبھی گلاب ہوا۔۔ سمندروں کا سفر بھی تو دشت جیسا تھا ۔۔جسے جزیرہ سمجھتے تھے اک سراب ہوا ۔۔نہ اپنا آپ ہے باقی نہ سعد یہ دنیا ۔۔یہ آگہی کا سفر تو مجھے عذاب ہوا ۔۔!اور کبھی یہ کہ ۔۔۔اب وفا اور جفا کچھ بھی نہیں ۔۔اس کا دنیا میں صلہ کچھ بھی نہیں ۔۔دل کو سینے میں چھپا رہنے دو ۔۔اس پہ داغوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔۔اپنی بربادی کی تفصیل نہ پوچھ ۔۔یوں سمجھ لے کہ بچا کچھ بھی نہیں ۔۔ہم نے تعمیر کیے تاج محل ۔۔خواب ٹوٹا تو بچا کچھ بھی نہیں ۔۔مارتا جاتا ہے دنیا ساری ۔۔اور کہتا ہے ہوا کچھ بھی نہیں ۔۔ہم نے دشمن کو لگایا ہے گلے ۔۔یعنی اب خون بہا کچھ بھی نہیں ۔۔کبھی ان کی تحریریں یہ اشعار یاد دلاتی ہیں کہ ۔اک درد ہے ہونے کا جو سونے نہیں دیتا ۔۔اے چشم تماشائے جنوں تم بھی تو سو لو ! یہ کیا ہوا کہ بہاروں نے پھر سے آن لیا ابھی تو بیٹھے تھے دامن کو ہم رفو کر کے ۔۔اسے کہو کہ نہیں ہم بھی پھول کی صورت ۔۔کہ پھینک دے وہ ہمیں زینت گلو کر کے !
کبھی کبھی حفیظ نعمانی کو پڑھتے ہوئے ،کہ اک زمانہ ہو گیا ہے کہ ہم روزانہ سب سے پہلے انہیں کو پڑھتے ہیں ، ہم اپنے آنسو نہیں روک پاتے اور زہرہ نگاہ کی یہ نظم یاد آجاتی ہے کہ :
سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔سنا ہے شیر کا جب پیٹ بھر جائے تو وہ حملہ نہیں کرتا۔۔سنا ہے جب کسی ندی کے پانی میں۔۔ ۔۔بئے کے گھونسلے کا گندمی سایہ لرزتا ہے ۔۔تو ندًی کی روپہلی مچھلیاں اس کو پڑوسن مان لیتی ہیں ۔۔ہوا کے تیز جھونکے جب درختوں کو ہلاتے ہیں ۔۔تو مینا اپنے گھر کو بھول کر کوے کے انڈوں کو پروں سے تھام لیتی ہے ۔۔سنا ہے گھونسلے سے جب کوئی بچہ گرے تو سارا جنگل جاگ جاتا ہے ۔۔ندی میں باڑھ آجائے ۔کوئی پل ٹوٹ جائے تو ۔۔کسی لکڑی کے تختے پر گلہری ،سانپ ،چیتا اور بکری ساتھ ہوتے ہیں۔ ۔۔سنا ہے جنگلوں کا بھی کوئی دستور ہوتا ہے ۔۔!خدا وند جلیل و معتبر ! دانا و بینا ! منصف اکبر ! ۔۔ہمارے شہر میں اب جنگلوں ہی کا کوئی دستور نا فذ کر!

تبصرے بند ہیں۔