مشاورت مغربی بنگال میں

عبدالعزیز
8،9 اگست 1964ء میں مشاورت کاوجود عمل میں آیا۔ دس سال بعد مغربی بنگال میں اس کی ریاستی شاخ کی تشکیل ہوئی۔ آزادی کے بعد مغربی بنگال کے مشہور قائد ملت ملا جان محمد مشاورت کے سرگرم داعیوں اور بانیوں میں سے تھے۔ ملا جان مرحوم جب تک تھے مشاورت کا کام خلافت کمیٹی کے دفتر سے انجام پاتا تھا کیونکہ ملا صاحب خلافت کمیٹی کے صدر تھے اور سب کچھ تھے۔ انہی کے دم سے خلافت اور مشاورت کی زندگی وابستہ تھی۔ ان کی وفات کے بعد مشاورت کے صدر ڈاکٹر مقبول احمد صاحب ہوئے۔
ڈاکٹر صاحب کا مشاورت سے والہانہ لگاؤ تھا۔ بعد میں جب وہ مرکزی مشاورت کے نائب صدر چنے گئے تو ان کی جگہ ابوبکر مکار صاحب کو صدر کا عہدہ سونپا گیا ۔ ابوبکر مکار صاحب جب اپنی گوناگوں مصروفیتوں کی وجہ سے مشاورت سے دلچسپی کم لینے لگے تو کلکتہ ہائی کورٹ کے قانون داں عطاء النبی ہاشمی صدرمشاورت ہوئے۔ ان کے بعد آر ایس پی کے ایم ایل اے عبدالحق صاحب کو صدر منتخب کیاگیا۔ مولانا عرفان الحسینی صاحب بھی کچھ دنوں کیلئے صدر کے عہدہ پر فائز رہے۔ محترم جمیل منظر صاحب مولانائے محترم کی وفات کے بعد صدر کی کرسی پر فائز ہوئے۔ اس وقت ڈاکٹر شکیل اختر صاحب پر صدارتی عہدہ کی ذمہ داری ہے۔ موصوف اپنے پیشہ اورکاموں کے لئے مسلمانوں کے معروف ومقبول ہیں۔
ڈاکٹر مقبول احمد صاحب کی زندگی میں مشاورت کا کام کچھ زیادہ بہتر پیمانے پر ہوا۔ ایک وجہ تو یہ تھی کہ ڈکٹر صاحب مشاورت کی اہمیت سے جس طرح واقف تھے کوئی دوسرا صدر کسی وجہ سے واقف نہیں تھا کیونکہ مرکز سے لگاؤ ڈاکٹر صاحب کا ہی تھا اور تمام مرکزی لیڈران ڈاکٹر صاحب سے قریب تھے اور جب بھی کلکتہ آتے ان کے مہمان خاص ہوتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب ملا جان صاحب کے بعد مرکزی مشاورت کے اجلاسوں میں شرکت کیلئے اپنے پیشہ کی گوناگوں مصروفیتوں کے باوجود دہلی جاتے تھے۔ اب جو نئی ٹیم ہے اس کی تشکیل گزشتہ سال کے اواخر میں ہوئی۔ ڈاکٹر شکیل اختر صاحب مشاورت کی گولڈن جبلی کے موقع پر 50 سالہ جشن میں شرکت کیلئے دہلی تشریف لے گئے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کی مصروفیت مشاورت سے دلچسپی لینے یا سرگرم عمل ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے پھر بھی ایک حد تک وہ دلچسپی لیتے ہیں۔ ڈاکٹر ایم این حق صاحب کلکتہ میں ایک مشہور سرجن ہیں۔ راقم نے دیکھا کہ ڈاکٹر مقبول احمد کے بعد محترم ایم این حق کے اندر مشاورت کی قدر و قیمت پائی جاتی ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ مشاورت کی سرگرمیاں اچھی طرح سے جاری و ساری رہیں۔ اگر دوسرے لوگ بھی اسی طرح سرگرم عمل ہوں تو کام ہوسکتا ہے۔ کچھ دنوں سے محترم ناصر احمد کے اندر بھی مشاورت سے لگاؤ پیدا ہوا ہے۔ گولڈن جبلی کے جشن میں امام عیدین قاری فضل الرحمن، مولانا نعمت حسین حبیبی اور مولانا شرافت ابرار کے علاوہ ڈاکٹر شکیل اختر اور مختار عالم بھی شریک ہوئے تھے۔
مسلمان اپنی اپنی جماعتوں میں تو ایک حد تک دلچسپی لیتے ہیں مگر مشاورت جیسی وفاقی تنظیم میں وہ دلچسپی نہیں دکھاتے جو دکھانا چاہئے۔ راقم 1974ء سے مشاورت سے جڑا ہوا ہے مگر اب تک 36 سال میں ڈاکٹر صاحب ، حاجی منصور احمد مرحوم اور حافظ مسعود عالم صاحب کے علاوہ کسی نے مشاورت کے ساتھ دلچسپی نہیں دکھائی۔ مسعود عالم صاحب جب تک مرکزی کلکتہ میں تھے مشاورت کیلئے سرگرم عمل تھے مگر مرکز سے دور ہوئے تو مشاورت سے بھی دور ہوگئے۔ موصوف اپنے گھٹنے کی بیماری کی وجہ سے بھی ملی کاموں یا اپنے ذاتی کاموں میں سرگرم نہیں ہیں۔ دوری اور معذوری دونوں ان کی مجبوری بن گئی۔ مشاورت میرے لئے اوڑھنا بچھونا ضرور ہے مگر مسلم جماعتیں اگر ساتھ دیں اور چیدہ اور نمایاں شخصیتیں اگر حصہ لیں تو ملی کام ممکن ہوسکتا ہے۔ ملت کے اندر تجویزیں دینے والے بہت ہیں مگر وہ چاہتے ہیں کہ تجویز میری ہو اور کام دوسرا کرے۔ کاش !لوگ آج کے حالات میں مشترک پلیٹ فارم اور مشترکہ قیادت کی اہمیت کو سمجھ سکیں جو دور آیاہے اور جوطوفان آرہا ہے ۔اگر ہم نے اس وقت اپنے گھر کو ٹھیک نہیں رکھا اور مل جل کر کام نہیں کیا تو ہمیں شکست خوردگی کا منہ دیکھنا پڑے گا اورہماری حالت بد سے بد ترہوجائے گی اور علامہ اقبالؒ کی یہ بات سو فیصد صحیح ثابت ہوگی کہ ملت سے کٹاہواشخص ، شاخ سے ٹوٹاہواپتہ یاموج دریاسے باہرکے قطرہ آب کی مانندہوجاتاہے ؂
موج دریا میں ہے اور بیرون دریا کچھ نہیں

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔