ایصال ثواب اور اجتماعی قرآن خوانی

محمد رضی الاسلام ندوی

برِّ صغیر ہند و پاک میں ایک رسم یہ جاری ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد ایصالِ ثواب کے لئے اجتماعی قرآن خوانی کی جاتی ہے _ رشتے دار ، دوست احباب اور دیگر متعلّقین جمع ہوتے ہیں ، ان کی تعداد کم ہوتی ہے ، یا زیادہ تعداد کا دکھاوا کرنا ہوتا ہے تو کسی مدرسے کے مولوی صاحب کی خدمات حاصل کی جاتی ہیں _ وہ مدرسے کے معصوم صورت بے چارے طلبہ کو ہانک کر لاتے ہیں ، قرآن کے سیپاروں کا ڈبّہ منگوایا جاتا ہے ، ترتیب سے سیپارے پڑھے جاتے ہیں ، گھنٹے دو گھنٹے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ دس بارہ قرآن ختم ہوگئے ہیں ، تب مولوی صاحب پڑھے گئے قرآن کا ثواب میّت کو پہنچاتے ہیں ، پھر طے شدہ نذرانہ لے کر رخصت ہوجاتے ہیں _سوال یہ ہے کہ کیا اس طریقے سے پڑھے گئے قرآن کا ثواب میّت کو پہنچتا ہے ؟ کسی شخص نے زندگی بھر قرآن کو ہاتھ نہیں لگایا ، اس کا ایک لفظ بھی نہیں پڑھا ، کیا اس کے مرنے کے بعد ، اس سے تعلق کی بنا پر ، یا کرایے پر ، اس کی طرف سے کچھ لوگ قرآن پڑھ لیں تو کیا اس کا ثواب اس کے نامہ اعمال میں شامل کردیا جائے گا؟

میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی عقیدہ یا عمل ، جو قرآن اور صحیح حدیث کے صریح بیانات سے ٹکراتا ہو وہ قابلِ قبول نہیں ہوسکتا _
اللہ تعالی کا ارشاد ہے :لاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ اُخْرَی "کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا_”
یہ آیت قرآن مجید میں 5 مقامات پر آئی ہے (الانعام: 164، الإسراء : 15، فاطر:18، الزمر:7،النجم:38) اس سے دین کی ایک بنیادی تعلیم کا علم ہوتا ہے، وہ یہ کہ کسی شخص کے مرنے کے بعد اس کے نامہ اعمال پر مہر لگا دی جاتی ہے ، پھر اس میں نہ کچھ اضافہ کیا جا سکتا ہے نہ کچھ کمی _

مروّجہ ایصالِ ثواب اور اجتماعی قرآن خوانی کے قائلین اپنی تائید میں ایک حدیث پیش کرتے ہیں ، جو یہ ہے :
حضرت ابو ھریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا :

” إذَا ماتَ الإنسانُ انقَطَع عَنه عَمَلُه إلاّ مِن ثلاثةٍ ؛ إلاّ مِن صَدَقَةٍ جاريَةٍ، أو علمٍ يُنْتَفَعُ بِه، أو وَلَدٍ صالِحٍ يَدْعُو له ".
(مسلم :1631)
” جب کسی شخص کا انتقال ہوجاتا ہے تو اس کے اعمال پر اجر ملنے کا سلسلہ منقطع ہوجاتا ہے ، سوائے 3 کاموں کے( کہ ان پر اسے برابر اجر ملتا رہتا ہے) : ایک ایسا صدقہ جس کا فیض برابر جاری رہے ، دوسرے ایسا علم جس سے لوگ فائدہ اٹھاتے رہیں ، تیسرے نیک اولاد، جو اس کے لیے دعا کرتی رہے _”

اس حدیث میں قرآن مجید کی بنیادی تعلیم کو دہرانے کے بعد تین معاملات میں استثناء بیان کیا گیا ہے، اس لیے حدیث سے جس حد تک کوئی بات ثابت ہو اسی پر اکتفا کرنا چاہیے ، اس پر قیاس کرکے غیر ثابت شدہ باتوں کو ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے _ غور کیا جائے تو درحقیقت حدیث میں کوئی استثناء نہیں ہے _ تینوں اعمال سابق میں کیے گئے انسان کے ذاتی اعمال ہیں ، جن کا اس کے مرنے کے بعد جاری رہنا اسے ان کے اجر کا مستحق بنا دیتا ہے _

دین کی اس اہم اور بنیادی تعلیم کی جانب جب توجہ دلائی جاتی ہے تو بعض حضرات کہتے ہیں : "آدمی تنہا قرآن پڑھتا ہی ہے _ اجتماعی طور پر قرآن پڑھنے سے برکت حاصل ہوتی ہے تو ایسا کرنے میں کیا حرج ہے؟” عرض ہے کہ کسی شخص کے انتقال کے بعد اجتماعی قرآن خوانی محض حصولِ برکت کے لیے نہیں ہوتی ، بلکہ اس میں قرآن کا ثواب میت کو پہنچانے کا تصوّر شامل ہوتا ہے _ بعض حضرات کہتے ہیں کہ "پھر کسی شخص کے انتقال پر تعزیتی پروگرام  یا سمینار کیوں کیے جاتے ہیں ؟” عرض ہے کہ تعزیتی پروگرام یا سمینار ایک سماجی یا علمی کام ہے ، اسے عبادت سمجھ کر نہیں انجام دیا جاتا ہے _ بعض حضرات کہتے ہیں کہ "پھر اجتماعی نماز جنازہ کیوں پڑھی جاتی ہے اور لوگ اکٹھا ہوکر میّت کو چارپائی پر لٹا کر قبرستان کیوں لے جاتے ہیں ؟” عرض ہے کہ کہ یہ اعمال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے قولاً اور عملاً ثابت ہیں ، اس لیے ان کی انجام دہی باعثِ ثواب ہے _ بعض حضرات ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں : "ہم اجتماعی طور پر قرآن ہی تو پڑھتے ہیں ، کسی ڈانس پارٹی میں تو شرکت نہیں کرتے _” عرض ہے کہ نماز پڑھنا ایک باعثِ اجر و ثواب عمل ہے ، لیکن فجر اور مغرب کی فرض نمازیں چار رکعت نہیں پڑھی جاسکتیں ، اس لیے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے ایسا ثابت نہیں ہے _اس لیے کوئی بھی عمل ، جسے عبادت اور تقرّب سمجھ کر انجام دیا جائے ، اس کا قرآن و سنت سے ثابت ہونا ضروری ہے _

تبصرے بند ہیں۔