ایمان جان سے زیادہ قیمتی ہے ،اس کے ساتھ ہماراکیابرتاؤہے؟

عبدالعزیز

ایمان اسلام کے پانچ بڑے ستونوںمیں سے پہلاستون ہے اورسب سے اہم ستون ہے ،اس کی شہادت اورقبولیت کے بعدہی کوئی فرداسلام میں داخل ہوتاہے ۔ایمان ایک مسلمان کیلئے جان سے بھی زیادہ پیاری اورقیمتی چیزہے مگراس مسلمان کیلئے جوایمان کے مطلب اورمقصدسے اچھی طرح سے واقف ہوتاہے ۔ایمان یقین کادوسرانام ہے ۔اللہ، اسکی کتابوں، اس کے فرشتوں، اسکے رسولوںاورآخرت پریقین کرنے کانام ہے ، جس کایقین جتنامضبوط اورپختہ ہوتاہے اتناہی وہ اچھااوربہترمسلمان ہوتاہے اوریقین یاایمان جتناکمزوراورلاغرہوتاجاتاہے وہ مسلمان اتناہی کمزوراورلاغرہوتاجاتاہے اگروہ اس کے بچانے اورحفاظت کرنے کے خیال سے غافل اورلاپرواہ ہوتاہے توایمان باقی رکھنامشکل ہوتاہے اورایمان جیسی اہم اورانمول شئے سے محروم ہوجاتاہے ۔ ہرمسلمان چاہے تواپنے ایمان کاپیمانہ قرآن اورحدیث کی روشنی میں معلوم کرسکتاہے ۔قرآن ایمان والوں اوربے ایمان والوں کی صفات اورخصوصیات سے بھراہے ۔ایمان والے اللہ کے فرمانبردارہوتے ہیں اوربے ایمان والے اللہ کی نافرمانی اورحکم عدولی کرتے ہیں۔جوایمان کاحامل ہوتاہے اسے مسلم اورمومن کہاجاتاہے اورجوایمان سے محروم ہوتاہے اسے کافر ٗ مشرک اورمنافق کہاجاتاہے ۔بے ایمان والااپنے مالک اورحاکم کاوفادارنہیں ہوتابلکہ مالک اورحاکم کے دشمنوںکافرمانبردارہوتاہے ،ایمان والااپنے ایمان کی وجہ سے اپنے مالک اورحاکم کے حکم پراپنی جان جیسی قیمتی اورعزیزشئے کوقربان کردیتاہے اورپھربھی کہتاہے ؎

جان دے دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تویہ ہے کہ حق ادانہ ہوا
اس کے برعکس جوایمان نہیں رکھتاوہ نہ اپنے اصلی مالک اورحاکم کوپہچانتاہے اورنہ ہی اس کے لئے اس کے اندرماننے اورسجھنے کاجذبہ ہوتاہے ،وہ اپنے مالک اورحاکم کے دشمنوں کے لئے سب کچھ نچھاورکردیتاہے اوردنیاسے خالی ہاتھ جاتاہے ۔حدیث میںایمان والوں کے تین درجات بتائے گئے ہیں کہاگیاہے جواپنے سامنے ظلم یازیادتی یابرائی یابدی دیکھے اسے ہاتھ یا طاقت سے روک دے وہ بھی مومن اورجوزبان سے کہے کہ یہ ظلم وزیادتی بدی اوربرائی ہے وہ بھی مومن اورجودل میں محسوس کرے کہ یہ ظلم وزیادتی بدی اوربرائی ہے وہ بھی مومن اگرچہ یہ ایمان کاسب سے کمزورحصہ ہے اسے اضعف الایمان کہاگیاہے اس کے بعدکوئی ایمان نہیں۔جس کاجی چاہے وہ بہت آسانی سے اس پیمانے یاترازومیں رکھ کراپنے ایمان کے درجہ یاکلاس کوآسانی سے معلوم کرسکتاہے ۔جہاںسے ایمان ختم ہوتاہے وہیں سے کفرکی شروعات ہوتی ہے اللہ کی نافرمانی کاآغازہوتاہے کیونکہ ایمان ہی ہے جوانسان کواللہ کی ہرطرح نافرمانی سے ٹوکتااورروکتاہے اورایمان ہی اسے برائی سے بچاتاہے اوراس کی حفاظت کرتاہے ایمان سے جب کوئی شخص محروم ہوجاتاہے تواس کی ساری معنویت ختم ہوجاتی ہے اس کاوجودبے معنی ہوجاتاہے خواہ دنیوی لحاظ سے اسے جوبھی درجات اورمنصب حاصل ہوں۔
ایمان جیسی قیمتی اورعزیزچیزسے مسلمانوں کی اکثریت بالکل غافل ہوگئی ہے ،وہ اپنے آپ کومسلمان بھی کہتاہے مگرکافروں اورمشرکوں سے بدترکام انجام دیتاہے ،اس کی جہالت کفرسے بھی بدترہوتی ہے اس کے اندرسے ایمان جیسے چیزفناہوجاتی ہے مگراسے کوئی فکرلاحق نہیں ہوتی وہ جان جوچندروزہ ہے اسے بچانے کے لئے توسب کچھ داؤںپرلگادیتاہے مگرایمان بچانے کے لئے اسے نہ فکرہوتی ہے اورنہ اسے بچانے کیلئے محنت اورمشقت اُٹھانے کے لئے تیارہوتاہے اس کی وجہ یہ ہے کہ ایمان کووہ بے معنی غیرقیمتی شئے سمجھتاہے ۔قرآن پاک میں ایمان کوعمل صالح یعنی نیک عمل کے بغیربے معنی بتایاہے اسی لئے قرآن میں ایمان کاذکرہمیشہ ’’عمل صالح‘‘کے ذکرکے ساتھ کیاہے ۔ایمان کے بغیرعمل خواہ کتناہی اچھاہواورخوبصورت ہواللہ کے نزدیک قابل قبول نہیں ہوتا۔
قرآن پاک نے ان لوگوں کے کاموں کی مثال جوایمان سے محروم ہیں اس راکھ سے دی ہے جس کوہواکے جھونکے اڑااڑاکرفناکردیتے ہیں اوران کاکوئی وجودنہیں رہتا۔اسی طرح اس شخص کے کام جوایمان سے محروم ہے بے بنیاداوربے اصل ہیں :
’’جنہوں نے اپنے پروردگارکاانکارکیاان کے کاموںکی مثال اس راکھ کی سی ہے جسے ایک طوفانی دن کی آندھی نے اڑادیاوہ اپنے کئے کاکچھ بھی پھل نہ پاسکیںگے۔ یہی پرلے درجے کی گم گشتگی ہے ‘‘۔ (ابراہیم -18)
جوچیزحقیقت اورواقفیت پرمبنی نہ ہوبلکہ بے اصل قیاس وگمان پرجس کی بنیادرکھ دی گئی ہواسے کوئی پائیداری نصیب نہیں ہوسکتی ،اس کے لئے قراروثبات کاکوئی امکان نہیں ۔ اس کے اعتمادپرکام کرنے والاکبھی اپنے اعتمادمیں کامیاب نہیں ہوسکتا۔ جوشخص پانی پرنقش بنائے اورریت پرقصرتعمیرکرے وہ اگریہ امیدرکھتاہے کہ اس کانقش باقی رہے گااوراس کا قصرکھڑارہے گاتواس کی یہ امیدکبھی پوری نہیں ہوسکتی کیونکہ پانی کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ نقش قبول کرے اورریت کی یہ حقیقت نہیں ہے کہ وہ عمارتوں کے لئے مضبوط بنیادبن سکے لہٰذاسچائی اورحقیقت کونظراندازکرکے جوشخص باطل امیدوں پراپنے تحمل کی بنیادرکھے اسے ناکام ہوناچاہی ہے ،یہ سن کرحیرت بھی نہیں ہونی چاہئے کہ خداکی اس کائنات میں جوشخص اپنے آپ کوخداکی بندگی واطاعت سے آزادفرض کرے گایاخداکے سواکسی اورکی خدائی مان کر(جس کی فی الواقع خدائی نہیں ہے)زندگی بسرکرے گااس کاپوراکارنامۂ زندگی ضائع ہوجائے گا۔ جب واقعہ یہ نہیں ہے کہ انسان یہاں خودمختارہویاخداکے سواکسی اورکابندہ ہوتواس پرجھوٹ پر، اس کے خلاف مفروضے پراپنے پورے نظام فکروعمل بنیادرکھنے والاانسان پانی پرنقش کھینچنے والے احمق کاانجام دیکھے گا۔اس کے لئے کسی اورانجام کی توقع کرنابیوقوفی اورحماقت ہے ۔
آج کامسلمان جوایمان وعمل سے لاپرواہ ہوتاجارہاہے اسے دنیامیں محرومی ہی محرومی کاسامناکرناپڑرہاہے ، آخرت میں بھی اسے محرومی سے دوچارہوناپڑے گاکیونکہ وہ ایمان سے محروم ہے اورعمل سے کورا۔

تبصرے بند ہیں۔