شکیل جمالی: تہذیبی ضمیر کا تخلیقی چہرہ

حقانی القاسمی

شکیل جمالی کے جس شعر کی بلیغ رمزیت نے ان کی تخلیقی حساسیت کو ذہن میں تابدار کیا۔ وہ شعر یوں ہے:
میں اپنے گھر کا اکیلا کمانے والا ہوں
مجھے تو سانس بھی آہستگی سے لینا ہے
خدائے سخن میر تقی میر کے مصرعے: لے سانس بھی آہستہ سے ہم آہنگ یہ شعر میرے لاشعور میں اکثر گونجتا رہتا ہے اور اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ اس کیفیت کا شعر ہے جس سے بنی نوع انسان کا ہر فرد گزرتا رہا ہے۔ زندگی کی حقیقت بیان کرتا ہوا یہ شعر زمانی و مکانی تعینات سے ماورا ہر فرد کے احساس کا حصہ ہے کہ آج کے دور کا ہر شخص عدم تحفظ، خوف اور بے یقینی کا شکار ہے۔
اس کیفیت کے بہت سے شعر شکیل جمالی کے ہاں ملتے ہیں اور اسی کیفیت کی شاعری نے شکیل جمالی کو ذہنوں میں زندہ کیا ہوا ہے۔ یہ ان کی خوش بختی ہے کہ ان کے شعر سفر کرتے ہوئے ان ذہنی منطقوں تک پہنچے ہیں جہاں سے اشعار کو زندگیاں نصیب ہوتی ہیں ورنہ اکثر خاص ذہنوں، علاقوں کی سیاحت میں ہی شعروں کی عمر گزر جاتی ہے۔
اسی احساس کو سمیٹے ہوئے شکیل جمالی کا ایک شعر ہے:
سو غزلیں ہوتی ہیں اور مرجاتی ہیں
اک مصرع تاریخ رقم کردیتا ہے
اور یہ حقیقت ہے کہ صرف ایک مصرع یا ایک شعر نے بہت سے شاعروں کو زندہ جاوید کردیا ہے۔ رام نارائن موزوں صرف اس شعر کی وجہ سے ادب کی تاریخ میں زندہ ہیں:
غزالاں تم تو واقف ہو کہو مجنوں کے مرنے کی
دوانہ مرگیا آخر کو ویرانے پہ کیا گزری
شکیل جمالی کے ہاں بھی حیاتیاتی توانائی سے بھرپور اشعار ملتے ہیں اور انہی شعروں نے انھیں تنقیدی مرکزہ میں شامل کیا ہے۔ وہ انبوہ کا حصہ نہیں ہیں، بھیڑ سے الگ ان کی تخلیقی شناخت ہے۔ شکیل جمالی کا اپنا رنگ و آہنگ ہے جو دور سے ہی پہچانا جاتا ہے:
ہر اک آنسو کی قیمت جانتی ہے
غزل شاعر کا دکھ پہچانتی ہے
——
بھیڑ سے بچ کر نہ چلنے میں یہی نقصان ہے
اب تمہارا کوئی چہرہ ہے نہ کچھ پہچان ہے

(2)
حیات و کائنات کے مشاہدے سے جو تجربے اور مناظر ان کے حصے میںا ٓئے ہیں، ان تجربوں کو انھوں نے اظہار کی زبان عطا کی ہے۔ ہر وہ جذبہ جو انسانی وجود سے تعلق رکھتا ہے، وہ ان کے تخلیقی بیانیہ کا حصہ بنا ہے۔ ’وضع احتیاط‘ کی وجہ سے نہ تو کسی جذبہ کے جنین کا اسقاط ہوا ہے اور نہ ہی کسی جذبہ نے خودکشی کی ہے۔ ہر اس جذبہ کو ان کے شعروں میں زندگی ملی ہے جس کا ہمارے معاشرتی وجود سے رشتہ ہے۔ اسی لیے ان کے ہاں جذبوں کی وسیع تر کائنات نظر آتی ہے۔ ان کے جذبوں کی سانسوں میں خنکی یا حرارت جو بھی ہے، وہ بالکل فطری ہے۔ جذبہ میں کسی قسم کی ملاوٹ، آمیزش یا تصنع نہیں ہے۔ مشاہدے اور تجربے سے ان جذبو ںکی صورت گری ہوئی ہے اسی لیے یہ جذبے مختلف رنگ اور روپ میں سامنے آئے ہیں:
سفر دو کشتیوں میں آدمی کر ہی نہیں سکتا
محبت کو بچانے میں قبیلہ چھوٹ جاتا ہے
——
ہم سمندر سے نکل آئے تو دلدل میں گرے
سر اصولوں سے بچایا تو وفاؤں میں گیا
——
زندگی ایسے بھی حالات بنا دیتی ہے
لوگ سانسوں کا کفن اوڑھ کے مر جاتے ہیں
——
ایک غرض ہر رشتے کی تقدیر میں لکھّی ہے
اک جملہ ہر خط میں کاروباری ہوتا ہے
——
فضائیں بہت زہر آلود ہیں
کسی سے اُمیدِ وفا مت کرو
——
بہت اُمّید تھی جس آدمی سے
بچا وہ بھی نہیں شرمندگی سے
——
کئی شاخوں پہ پتے تک نہیں ہیں
اور اک ڈالی گلابوں سے بھری ہے
——
وفا کے بارے میں لوگوں کی رائے ٹھیک نہیں
برادری سے یہ خاتون ہے نکالی ہوئی
عام آدمی کے جذبہ و احساس سے شکیل جمالی کی شاعری کا بہت گہرا رشتہ ہے، یہ وہ عام آدمی ہے جو ہمیشہ معاشرے کے حاشیے پر رہا ہے۔ جو استحصال زدہ ہے جس کی ہر آواز جبر کی قوت داب دیتی ہے۔ شکیل جمالی نے عام آدمی کے درد و کرب کو بھی اپنے بیانیہ میں مرکزیت عطا کی ہے۔
کسی غریب کو انصاف بھی نہیں ملتا
گواہ جا کے عدالت میں ٹوٹ جاتے ہیں
——
اشتہارات لگے ہیں مری خوشحالی کے
اور تھالی میں مری ایک نوالا بھی نہیں
شکیل جمالی نے ان کمزوروں کی قوت کا ادراک بھی کرایا ہے:
تونے ابھی کمزور کی طاقت نہیں دیکھی
فرعون تری بارہ دری جاتی رہے گی
(3)
شکیل جمالی کی شاعری میں فردیت نہیں اجتماعیت کا طرز احساس ہے۔ یہ انسانی روابط کی شاعری ہے۔ انسانی رشتوں اور تعلقات کی ڈور سے بندھی ہوئی۔ اس میں گھر آنگن کی رونق و رعنائی ہے۔ رشتوں کی حرارت کا احساس ہے۔ وہ تنہائی، افسردگی نہیں ہے جو جدید شاعروں کا شیوہ ہے۔ شاعری کا یہی اجتماعی رنگ انھیں مریضانہ جدیدیت سے جدا کرتا ہے:
دنیا ہے تو گلزار ہے چاہت سے تمہاری
گھر ہے تو یہ آباد ہے بچے سے ہمارے
——
میں نے ہاتھوں سے بجھائی ہے دہکتی ہوئی آگ
اپنے بچّے کے کھلونے کو بچانے کے لیے
——
موت کو ہم نے کبھی کچھ نہیں سمجھا مگر آج
اپنے بچّوں کی طرف دیکھ کے ڈر جاتے ہیں
شکیل جمالی کی شاعری میں بچوں کا جو کردار ہے، وہ مصور سبزواری کی یاد دلاتا ہے۔
(4)
شکیل جمالی نے شہر میں رہتے ہوئے بھی اپنے قصباتی ذہن کو زندہ رکھا ہے۔ اپنی مٹی اور جڑوں سے گہری وابستگی نے قمقموں میں بھی ان کے باطن کے چراغ کو بجھنے نہیں دیا ہے۔ قصبات کی قدریں ان کے شعروں میں زندہ ہیں۔ قصبات کے تہذیبی بیانیے بھی روشن ہیں:
اُسی دنیا کے اُسی دور کے ہیں
ہم تو دلّی میں بھی بجنور کے ہیں
——
ناراض ہے مجھ سے مرے بجنور کی مٹّی
دلّی میں گزارے ہوئے لمحات کو لے کر
اسی قصباتی ذہنیت نے انھیں شہر کی بے چہرگی، مردم بیزاری، اجنبیت اور بیگانگی اور شہر کی سائیکی سے سراسیمہ کرایا ہے۔ شہر ان کے نزدیک رشتوں کے انقطاع اور سفاکیت کا استعارہ ہے۔ جہاں صنعتی، مادی اور صارفی تہذیب کا تسلط ہے۔ شکیل جمالی کے شعروں میں شہر کا زاویہ کچھ یوں ابھرتا ہے:
چہروں پہ کوئی رنگ سکوں نام کا نئیں ہے
یہ شہر بڑا ہے مگر آرام کا نئیں ہے
——
یہ کیسے علاقے میں ہم آبسے
گھروں سے نکلتے ہی بازار ہے
——
پڑوسی پڑوسی سے ہے بے خبر
مگر سب کے ہاتھوں میں اخبار ہے
(5)
یاس یگانہ چنگیزی اور شاد عارفی جیسی نشتریت نے شکیل جمالی کے تخلیقی اظہار کو شعلگی عطا کی ہے اور ان کے احساس کو شعلہ فشاں کیا ہے۔ لہجے میں یہ شعلگی، یہ تمازت، یہ تپش دراصل معاشرتی مکروہات اور جبر زمانہ کا ردعمل ہے۔ اس میں ان کے مشاہدے اور تجربے کی شدت نظر آتی ہے۔ یہ ردعمل فطری ہے۔ ایک باضمیر اور حساس فن کار جبر، استحصال اور منافقت سے مصالحت نہیں کرسکتا۔ وہ ایک باغیانہ اور انحرافی روش اختیار کرتا ہے۔ شکیل جمالی کے ہاں یہ مزاحمتی لہجہ یوں روشن ہوا ہے کہ انھیں اپنے عہد کے ضمیر کا ادراک ہے اورا نھوں نے اس تہذیبی ضمیر کو مرنے نہیں دیا ہے جو قدرت ایک حساس، باشعور اور صالح وجود کو عطا کرتی ہے، شکیل جمالی کے سیاسی، سماجی طنزیے ان کے مشاہدات اور تجربات کا پر تو ہیں:
کون ہے خادمِ اردو، صاحب!
سب نے دوکان، لگا رکھّی ہے
——
ہمارا حق دبا رکھّا ہے جس نے
سنا ہے حج کو جانا چاہتا ہے
——
جن کو دعوا تھا مہمان نوازی کا
دروازے پر تالا ڈالے بیٹھے ہیں
——
یہاں انصاف نے آنکھوں پہ پٹّی باندھ رکھّی ہے
شرافت قید میں سڑتی ہے غنڈا چھوٹ جاتا ہے
——
اسپتالوں میں دوا ہے نہ مساجد میں دعا
یعنی بیمار کے کاندھے پہ ہے بیمار کا بوجھ
——
شہر میں دوچار کمبل بانٹ کر
وہ سمجھتا ہے مسیحا ہوگیا
——
انھیں بھی خواب میں جنت دکھائی دیتی ہے
جو صرف جمعے کو دو فرض پڑھ کے آتے ہیں
یہ ان کے داخلی ضمیر کا احتجاج ہے۔ جذبہ کا شعلہ جوالہ جب شعر کی صورت اختیار کرتا ہے تو اس کے تیور تلخ اورتند ہوجاتے ہیں۔ شکیل جمالی کے شعر میں جو ’تندی صہبا‘ ہے وہ منفیت کا مثبت ردعمل ہے۔
ان کے شعروں میں جو شوریدگی ہے، وہ ان کے مزاج کی ایک نئی جہت کا انکشاف ہے۔ اضطراب و التہاب ان کی سرشت کا حصہ ہے یا حالات کے جبر نے ان کے باطنی ہیجان کو جنم دیا ہے۔
(6)
یہ آج کے مسائل کی شاعری ہے۔ اکیسویں صدی نے بہت سے نئے مسائل کو جنم دیا ہے۔ سائنس وتکنالوجی کی ترقی اور گلوبلائزیشن کی وجہ سے بہت سے انسانی مسئلے وجود میں آئے ہیں۔ دہشت، وحشت، مادیت، صارفیت، فرد کی تنہائی، بے چارگی— اکیسویں صدی میں انسانی وجود سے بہت سے المیے جڑ گئے ہیں۔شکیل جمالی کی شاعری انہی المیوں کا اظہار ہے معاشرے کے تضادات، بدلتی قدری ترجیحات کو بھی انھوں نے اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ جدید انسان کے ذہن و شعور کی شکست و ریخت، بے گھری کا کرب، بھیڑ میں اکیلا پن— وہ تمام مسائل اور موضوعات جو انسان کے سماجی، معاشرتی، اقتصادی اور سیاسی وجود سے جڑے ہوئے ہیں۔ فرد کی ان تمام اکائیوں کا مجموعہ ان کے شعروں میں ہے۔
شکیل جمالی کا موضوعاتی کینوس وسیع ہے۔ موضوعات میں تنوع اور رنگارنگی ہے۔ آج کے عہد کا آشوب اُن کے مرکزی شعری حوالے میں شامل ہے۔
مکمل طور پر معاشرہ سے مربوط یہ شاعری کسی بھی زاویے سے مضمحل یا منجمد نظر نہیںا ٓتی بلکہ مضبوط اور متحرک ہونے کا احساس دلاتی ہے۔

(7)
شکیل جمالی نے ایک کوزہ گر کی طرح اپنے ذہنی خلیے میں رقص کرنے والے الفاظ کو موزوں اور متناسب سانچہ عطا کیا ہے۔ لفظوں کو صورت کے ساتھ شخصیت میں ڈھالا ہے۔ ان کی شاعری میں الفاظ اپنے شخصی اور کرداری اوصاف کے ساتھ نظر آتے ہیں۔ ان کے لفظ برف زدہ نہیں بلکہ حرارت آمیز ہیں۔ ان کے الفاظ ان کے خیالات کی شعلگی اور حرارت کا ثبوت ہیں۔ الفاظ کا بہترین تخلیقی استعمال انھیںا ٓتا ہے اس لیے احساس و اظہار دونوں ہی سطح پر ان کے ہاں تحرک کی کیفیت ہے۔
بے چہرگی کے اس دور میں شکیل جمالی اپنی شاعری کو ایک چہرہ دینے میں کامیاب ہیں اور اس انبوہی دور میں یہ بہت بڑی عطا ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی۔

تبصرے بند ہیں۔