ایمان و احتساب کے ساتھ روزے کی فضیلت!

ترتیب: عبـدالعــزیـز

 ’’حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے ایمان اور احتساب کے ساتھ، تو اس کے وہ سب گناہ معاف کردیے جائیں گے جو اس سے پہلے سرزد ہوئے ہوں گے اور جس شخص نے رمضان میں قیام کیا (راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی) ایمان و احتساب کے ساتھ، تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ قصور جو اس نے پہلے کئے ہوں گے اور جس شخص نے لیلۃ القدر میں قیام کیا، ایمان اور احتساب کے ساتھ تو معاف کردیے جائیں گے اس کے وہ سب گناہ جو اس نے پہلے کئے ہوں گے۔‘‘

  اِحْتِسَابَ اس چیز کا نام ہے کہ آدمی اپنے تمام نیک اعمال پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے اجر کا امید وار ہواور خالصۃً اسی کی رضا جوئی کیلئے کام کرے۔

تشریح: اس حدیث میں گناہوں سے معافی کی جو خوشخبری سنائی گئی ہے اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزی کرنے والے اور آخرت کی باز پرس سے بے خوف ہیں ان کو اس بات کا لائسنس دیا جارہا ہے کہ میاں رمضان کے روزے رکھ لو، تراویح پڑھ لو اورلیلۃ القدر میں کھڑے ہوکر تراویح پڑھ لو، تو پچھلا حساب صاف اور پھر گیارہ مہینے تمہیں جو کچھ کرنا ہے کرتے رہو، رشوتیں کھاؤ، لوگوں کے حق مارو، جو ظلم و ستم چاہو کرو، رمضان میں آکے پھر عبادت کیلئے کھڑے ہوجانا، روزے رکھ لینا اور نمازیں پڑھ لینا اور پھر پہلے کا کیا ہوا سب معاف ہوجائے گا۔

  اس طرح کی احادیث کا مطالعہ کرتے ہوئے اس بات کو کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ ان کے مخاطب کون لوگ ہیں ۔ جیسا کہ پہلے وضاحت کی جاچکی ہے، ان کے مخاطب وہ صلحاء و ابرار ہیں جو اپنی زندگیاں ہر وقت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے مطابق بسرکرنے کی کوشش کرتے تھے۔ ان سے اگر کوئی لغزش یا گناہ سرزد ہوجاتا تھا تو اس کی نوعیت ایسی ہر گز نہیں ہوتی تھی کہ جیسے ایک آدمی پوری ڈھٹائی اور بے شرمی کے ساتھ گناہ کا ارتکاب کرے اور پھر اس پر ڈٹا رہے، بلکہ وہاں صورت سے یکسر مختلف تھی۔ ان راست باز لوگوں سے اگر کوئی قصور سرزد ہو بھی جاتا تھا تو وہ بشری کمزوری کی وجہ سے ہوتا تھا اور وہ ہر وقت اس پر توبہ کیلئے مستعد رہتے تھے۔ بشری کمزوری سے اگر کسی سے کوئی قصور سرزد ہوجائے اور وہ اس کے بعد نیکی اختیار کرے اور اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کو اپنا شعار بنائے رکھے تو وہ بجائے خود ایک توبہ ہے۔

 توبہ کی ایک صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے کوئی گناہ سرزد ہوا اور اس نے اس سے توبہ کرلی تو یہ بات بھی گناہ کی معافی کا ایک ذریعہ ہے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ ایک آدمی سے قصور سرزد ہوا اور پھر دوسرے کاموں میں ایسا مشغول ہوا کہ توبہ کرنا بھول گیا تو اس کے بعد اس نے جو نماز پڑھی وہ نماز اس کیلئے پہلے کی لغزش کو اس کے حساب سے صاف کردے گی۔ اسی طرح اگر اس نے روزہ رکھا تو وہ بھی اس کے گناہ کو صاف کردے گا۔

 دراصل تو بہ اسی چیز کا نام تو ہے کہ ایک شخص ایک وقت میں ایک قصور کا مرتکب ہوا تھا لیکن اس کے بعد وہ پھر اپنے رب کی طرف پلٹ آیا۔ جیسے ایک نوکر اگر اپنی کسی غلطی کی وجہ سے اپنے مالک کی اطاعت سے نکل جائے لیکن پھر معافی مانگ لے اور خدمت میں حاضر ہوجائے تو اس سے ایک دفعہ قصور سرزد ہوجانے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مالک اسے ہمیشہ کیلئے اپنی نوکری سے نکال دے گا بلکہ جس وقت وہ آکر معافی مانگتا ہے اور پہلے کی طرح خدمت کرنے لگتا ہے تو مالک اس سے درگزر کرے گا اور اس کی گزشتہ وفاداری کی وجہ سے اس پر پہلے کی طرح مہربان ہوجائے گا۔

 ایسا ہی معاملہ اللہ تعالیٰ کا اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔ بندہ اگر بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کا وفادار ہے اور جان بوجھ کر اس کے مقابلے میں استکبار اور سرکشی کرنے والا نہیں ہے تو اگر اس سے کسی وقت کوئی قصور سرزد ہوجاتاہے اور اس قصور کے بعد وہ پھر خدا کے دربار میں نماز کے لئے حاضر ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنی مغفرت سے محروم نہیں رکھے گا کیونکہ اس کا طرز عمل یہ بتاتا ہے کہ وہ ٹھوکر تو کھا گیا تھا لیکن اپنے رب سے بھاگا نہیں تھا، اس کا باغی نہیں ہوگیا تھا۔ اسی بنا پر فرمایا گیا کہ اگر ایک شخص نے ایمان اور احتساب کے روزے رکھے تو اس کے پچھلے قصور معاف ہوگئے۔ رمضان میں راتوں کو کھڑے ہوکر عبادت کی تو وہ بھی پچھلے قصوروں کی معافی کا ذریعہ بن گئی۔ اسی طرح اگر وہ لیلۃ القدر میں عبادت کیلئے کھڑا ہوا تو اس کا یہ عمل بھی اس کے پچھلے قصوروں کی معافی کا سبب بن گیا۔

 ایمان کا مطلب یہ ہے کہ خدا کے متعلق ایک مسلمان کا جو عقیدہ ہونا چاہئے وہ عقیدہ ذہن میں پوری طرح تازہ رہے۔ اور احتساب کا مطلب یہ ہے کہ آدمی اللہ ہی کی رضا کا طالب ہو اور ہر وقت اپنے خیالات اور اپنے اعمال پر نظر رکھے کہ کہیں و ہ اللہ کی رضا کے خلاف تو نہیں چل رہا ہے۔ ان دونوں چیزوں کے ساتھ جو شخص رمضان کے پورے روزے رکھ لے گا وہ اپنے پچھلے گناہ بخشوا لے جائے گا، اس لئے کہ اگر وہ کبھی سر کش و نافرمان بندہ تھا بھی تو اب اس نے اپنے مالک کی طرف پوری طرح رجوع کرلیا، اور التَّائِبُ مِنَ الذَّنْبِ کَمَنْ لَا ذَنْبَ لَہٗ۔ ’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایسا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ تھا۔‘‘

تبصرے بند ہیں۔