ایم کے گاندھی اور وی ڈی ساورکر

قوم پروری اور رسوائی و ندامت

عبدالعزیز
کنڑ (Kannada) ناول نگار یو آر اننتھ مورتی اپنے خیالات اور نظریات کی وجہ سے نہ صرف کرناٹک کے لوگوں میں مقبولیت اور شہرت رکھتے تھے بلکہ ہندستان بھر میں ان کی پذیرائی ہوتی تھی۔ سماجیات میں ان کا شعور قابل قدر اور قابل غور ہے۔ ان کی تحریروں اور بیانات میں بڑا زور و شورہوتا تھا۔ ان کی موت ڈیڑھ سال پہلے ہوئی۔ ان کی ہر تحریر، ہر کتاب اور ہر چھوڑی ہوئی چیز نہ صرف انڈین انٹرنیشنل سنٹر میں بحث و مباحثہ کا موضوع بنا بلکہ کرناٹک کے ہر ضلع اور ہر مقام پر ان کی چیزیں موضوع بحث ہوئیں۔ ان کی موت پر ہزاروں لاکھوں لوگوں نے بنگلور میں عقیدت اور احترام کا اظہار کیا اور ان کی آخری رسومات میں شرکت کی مگر جو لوگ ان کے خیالات سے مخالفت کرتے تھے یعنی ہندتوا کے پرستار اس وقت بھی ان لوگوں نے ان کو برا بھلا کہا اور ان کی مذمت میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
اننتھ مورتی کو لوگوں نے اپنی تحریروں اور تقریروں کے ذریعہ بھی خراج عقیدت پیش کیا لیکن وہ اپنے دشمنوں کی نظر سے کبھی اوجھل نہیں ہوئے کیونکہ انھوں نے اپنی زندگی میں ہندتوا کے تشدد اور انتہا پسندی کی سخت مخالفت کی تھی۔ اپنی زندگی میں انھوں نے اپنی زبان کنڑ میں ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام تھا  ایم کے گاندھی اور وی ڈی ساورکر ۔ ان کی موت کے دو سال بعد کرتی راما چندرا اور ویویک شنبھاگ نے اسے انگریزی کا جامہ پہنایا اور اس کا نام رکھا ’’ہندتوا یا ہند سوراج‘‘ (آزادی ہند)۔ اس کتاب میں اننتھ مورتی نے جو اپنے دوستوں سے بات چیت کی تھی اور ان کے چاہنے والوں کی بھی کچھ باتیں شامل کرلی گئی ہیں۔ اس کتاب کو اس روشنی میں پڑھا جانا چاہئے جب وہ زندہ تھے اور نریندر مودی اپنی وزارت عظمیٰ کیلئے پورے ملک میں مہم چلا رہے تھے۔ نومبر 2013ء کو اننتھ مورتی نے ایک ٹیلیویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ’’میں ایک ایسے ملک میں رہنا پسند نہیں کروں گا جس کی حکمرانی نریندر مودی ۔جیسا آدمی کر رہا ہو۔ میں جب جوان تھا تو میں وزیر اعظم نہرو پر تنقید کیا کرتا تھا لیکن نہرو کے پیروکار کبھی بھی مجھ پر حملہ نہیں کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ بڑا احترام کرتے تھے لیکن مودی کے پیروکار فسطائیت اور تشدد کے علمبردار معلوم ہوتے ہیں۔ میں مودی جیسے شخص کو اس کرسی پر دیکھنا پسند نہیں کروں گا جس پر نہرو جیسی بلند و بالا شخصیت نے بیٹھ کر حکمرانی کی ہے۔ اگر نریندر مودی وزیر اعظم بنے تو میرے لئے گہرے صدمے کا سبب ہوگا اور میں اس ملک میں نہیں رہوں گا‘‘۔
یہ بیان جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گیا۔ نریندر مودی کے پیروکاروں نے ان کی مورتی جلائی۔ ان کے خلاف مختلف شہروں میں مظاہرہ کیا۔ کچھ لوگوں نے ان کو مفت ٹکٹ دینے کی پیشکش کی۔ وہ پاکستان یا جہاں چاہیں چلے جائیں۔ کچھ لوگوں سے قتل کرنے کی بھی دھمکی دیدی جس کی وجہ سے ان کے گھر کے پاس پولس کے حفاظتی دستہ کی ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کیلئے لگا دی گئی۔
جب مئی 2014ء میں نریندر مودی الیکشن جیت گئے تو ان کے پیروکاروں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی اور پھر اننتھ مورتی ان کے نشانے پر آگئے ان پر حملوں کی بوچھار شروع ہوگئی۔ اننتھ مورتی کو پھر ایک بیان دینا پڑا۔ انھوں نے کہاکہ میں اپنی بات پر قائم ہوں مگر میں اپنا ملک کو نہیں چھوڑ سکتا۔ میری لڑائی جاری رہے گی ۔ انھوں نے کہاکہ مودی ایک مضبوط نیشن (قوم) چاہتے ہیں مگر وہ خود قوم کو مردہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ قوم کے لوگوں میں جو بھید بھاؤ کرتے ہیں، نیچ اونچ کی رسم کو زندہ کرتے ہیں وہ قوم کو پستی کی طرف لے جاتے ہیں ترقی کی طرف نہیں۔ مودی جیسے لوگ گنبدوں مین زندگی گزارتے ہیں، ان کو اپنی آواز کے سوا کسی اور کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ اس طرح کے لیڈر اور رہنما صرف اپنی تعریف سننے کے مشتاق ہوتے ہیں۔ نکتہ چینی یا تنقید ان کیلئے سوہانِ روح ہوتی ہے۔
جہاں تک ساورکر اور گاندھی کی کتاب کا معاملہ ہے تو اس میں ساورکر اور گاندھی جی کے خیالات اور نظریات کا موازنہ کیا گیا ہے۔ ساورکر انگریزوں کے وفادار تھے ۔ انھوں نے باقاعدہ ایک کمیٹی تیار کی تھی جس کے ذریعہ برطانوی حکومت کی درازیِ عمر کیلئے کوشش کرتے تھے۔ انگریزی حکومت کی دفاعی کمیٹی میں ساورکرکے دو افراد صلاح و مشورہ کیلئے لئے گئے تھے۔ اس کے برعکس گاندھی جی انگریزی حکومت کے دشمن تھے، وہ اس کے ظلم وستم کو نہ صرف ختم کرنا چاہتے تھے بلکہ انھیں ملک بدر بھی کرنے کیلئے اپنی پوری زندگی وقف کر دی تھی۔ ساورکر نے 1935ء میں دو قومی نظریہ پر بات شروع کر دی تھی جسے محمد علی جناح نے اچک لیا تھا اور 1940ء سے دو قومی نظریہ کا پرچار کرنے لگے۔ گاندھی جی ملک کی تقسیم یا لوگوں کی مذہب کے نام پر تقسیم کے خلاف تھے۔ گاندھی جی نہایت شائستگی اور سنجیدگی سے اپنی باتیں کہتے تھے اور دوسروں کی باتیں بھی سنجیدگی سے سننے کے عادی تھے۔ ساورکر صرف اپنی باتیں سنانے کیلئے بیتاب رہتا تھا مگر دوسروں کی باتوں پر کان نہیں دیتا تھا۔ گاندھی جی اپنے کاموں اور اپنی باتوں کا جائزہ لیتے تھے۔ ساورکر اپنے کاموں کو جذباتی انداز سے پیش کرتا تھا۔ مورتی ساور کر کے نظریہ کے خلاف تھے۔ کتاب میں ہندتوا کی قوم پرستی کو ایک دھوکہ اور فریب کہا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ اسے مان کر ہندستان کی رسوائی اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ ساورکر کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ ماضی پرستی کا علمبردار تھے۔ گاندھی ماضی، حال اور مستقبل پر نظر رکھتے تھے اور سب کو ساتھ لے کر چلتے تھے۔ ساورکر جذباتی طور پر ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف ورغلاتا تھا اور مسلمانوں کے وجود کو ہندوؤں کیلئے خطرہ بتاکر اپنا الو سیدھا کرتا تھا۔ آج بھی آر ایس ایس یا مودی اسی روش پر قائم ہیں۔
اننتھ مورتی کا کہنا ہے کہ جس ہندتوا کلچر کا پرچار ہو رہا ہے وہ ہندستان کو اندھیرے کی طرف لے جائے گا جسے ملک کی ترقی اور فلاح وبہبود کا خیال ہوگا وہ لوگوں کو بانٹنے کی کوشش نہیں کرے گا بلکہ ٹوٹے ہوئے دلوں کو جوڑنے کا کام کرے گا۔ ایسے لوگوں کو جو ہندتوا کا پرچار کرتے ہیں ان کی قوم پرستی کو تنگ نظری اور انسانیت سوزی اور ظلم و زیادتی پر محمول کرتے تھے۔
علامہ اقبالؒ نے اسی بات کو اپنے انداز میں کہی ہے:
اقوام میں جہاں میں ہے رقابت تو اسی سے۔۔۔تسخیر ہے مقصود تجارت تو اسی سے
خالی ہے صداقت سے سیاست تو اسی سے ۔۔۔ کمزور کا گھر ہوتا ہے ویران تو اسی سے
اننتھ مورتی غربت، جہالت، مفلسی اور بیماری کے خلاف لڑنے کے قائل تھے وہ اسی کو ہندستانیت اور قوم پرستی سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کی قومیت تنگ نظری سے بالکل مبرا تھی۔ وہ گاندھی، امبیڈکر جے پرکاش نرائن کے نظریات کے حامی تھے۔ ساورکر، گولوالکر اور نریندر مودی جیسے خطرناک اور افسانوی قومیت کے سخت خلاف تھے۔ ہندتوا کی قومیت کو ندامت اور رسوائی کا سبب سمجھتے تھے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔