روزوں کی غایت – تبدیلئ نفس واذہان اور تبدیلئ سماج

ابراہیم جمال بٹ
ماہ رمضان المبارک کا متبرک مہینہ جس میں قرآن کا نزول ہوا، جو انسان کی ہدایت کے لیے خدائے ذوالجلال کی طرف سے نبی آخر الزماں محمد مصطفیﷺ پر نازل کیا گیا۔اس ماہ مبارک کا بنیادی مقصد انسان کے اندر تقویٰ کی صفت کو پیدا کرنا ہے۔ یہ روزے کی اصل غایت بیان ہوئی ہے۔ بلکہ تمام شریعت کی بنیاد تقویٰ پر قرار دی گئی ہے۔ تقویٰ پیدا ہوتا ہے جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی قوت و صلاحیت سے اوراس قوت و صلاحیت کی سب سے بہتر تربیت روزوں کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔چنانچہ قرآن پاک میں آیا ہے کہ’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔‘‘ (البقرہ)
۱سلام کے اکثر احکام کی طرح ماہ رمضان کے روزوں کی فرضیّت بھی بتدریج عائد کی گئی ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ عطاء قتادہ ضحاک کا فرمان ہے کہ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے سے ہر مہینہ میں تین روزوں کا حکم تھا جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لئے بدلا اور ان پر اس مبارک مہینہ کے روزے فرض ہوئے۔ حضرت حسن بصری فرماتے ہیں کہ اگلی امتوں پر بھی ایک مہینہ کامل کے روزے فرض تھے۔ ایک مرفوع حدیث میں ہے کہ رمضان کے روزے تم سے پہلے کی امتوں پر بھی فرض تھے ، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ پہلی امتوں کو یہ حکم تھا کہ جب وہ عشاء کی نماز ادا کر لیں اور سو جائیں تو ان پر کھانا پینا،عورتوں سے مباشرت کرنا حرام ہو جاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگلے لوگوں سے مراد اہل کتاب ہیں۔ پھر بیان ہو رہا ہے کہ تم میں سے جو شخص ماہ رمضان میں بیمار ہو یا سفر میں ہو تو وہ اس حالت میں روزے چھوڑ دے مشقت نہ اٹھائے اور اس کے بعد اور دنوں میں جبکہ یہ عذر ہٹ جائیں قضا کر لیں، ہاں ابتداء اسلام میں جو شخص تندرست ہو اور مسافر بھی نہ ہو اسے بھی اختیار تھا خواہ روزہ رکھے خواہ نہ رکھے مگر فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلا دے اگر ایک سے زیادہ کو کھلائے تو افضل تھا گو روزہ رکھنا فدیہ دینے سے زیادہ بہتر تھا ، ابن مسعود ابن عباس مجاہد طاؤس مقاتل وغیرہ یہی فرماتے ہیں مسند احمد میں ہے حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی اور روزے کی تین حالتیں بدلی گئیں پہلے تو سولہ سترہ مہینہ تک مدینہ میں آ کر حضور ﷺنے بیت المقدس کی طرف نماز ادا کی پھر ’’قدنری‘‘ والی آیت آئی اور مکہ شریف کی طرف آپ نے منہ پھیرا۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ نماز کے لئے ایک دوسرے کو پکارتا تھا اور جمع ہو جاتے تھے لیکن اس سے آخر عاجز آ گئے پھر ایک انصاری حضرت عبداللہ بن زید حضور ﷺکی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم میں نے خواب میں دیکھا لیکن وہ خواب گویا بیداری کی سی حالت میں تھا کہ ایک شخص سبز رنگ کا حلہ پہنے ہوئے ہے اور قبلہ کی طرف متوجہ ہو کر کہہ رہا ہے اللہ اکبر اللہ اکبرا شھدان لاالہ الااللہ دوبارہ یونہی اذان پوری کی پھر تھوڑی دیر کے بعد اس نے تکبیر کہی جس میں قدقامت الصلوٰۃ بھی دو مرتبہ کہا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو یہ سکھاؤ وہ اذان کہیں گے چنانچہ سب سے پہلے حضرت بلال نے اذان کہی دوسری روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے بھی آ کر اپنا یہی خواب بیان کیا تھا۔ لیکن ان سے پہلے حضرت زید آچکے تھے۔ تیسری تبدیلی یہ ہوئی کہ پہلے یہ دستور تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نماز پڑھا رہے ہیں کوئی آیا کچھ رکعتیں ہو چکی ہیں تو وہ کسی سے دریافت کرتا کہ کتنی رکعتیں ہو چکی ہیں وہ جواب دیتا کہ اتنی رکعتیں پڑھ لی ہیں وہ اتنی رکعتیں ادا کرتا پھر حضور کے ساتھ مل جاتا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ آئے اور کہنے لگے کہ میں حضور کو جس حال میں پاؤں گا اسی میں مل جاؤں گا اور جو نماز چھوٹ گئی ہے اسے حضور کے سلام پھیرنے کے بعد ادا کروں گا چنانچہ انہوں نے یہی کیا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے سلام پھیرنے کے بعد اپنی رہی ہوئی رکعتیں ادا کرنے کے لئے کھڑے ہوئے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے انہیں دیکھ کر فرمایا معاذ نے تمہارے لئے یہ اچھا طریقہ نکالا ہے تم بھی اب یونہی کیا کرو، یہ تین تبدیلیاں تو نماز کی ہوئیں، روزوں کی تبدیلیاں سنئے اول جب نبی صلی اللہ علیہ و سلم مدینہ میں آئے تو ہر مہینہ میں تین روزے رکھتے تھے اور عاشورہ کا روزہ رکھا کرتے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے آیت (کتب علیکم الصیام۔۔۔الخ) نازل فرما کر رمضان کے روزے فرض کئے۔ دوسرا ابتدائی یہ حکم تھا کہ جو چاہے روزہ رکھے جو چاہے نہ رکھے اور فدیہ دے دے پھر یہ آیت (فمن شھد منکم الشھر فلیصمہ) تم میں سے جو شخص رمضان کے مہینے میں قیام کی حالت میں ہو وہ روزہ رکھا کرے پس جو شخص مقیم ہو مسافر نہ ہو تندرست ہو بیمار نہ ہو اس پر روزہ رکھنا ضروری ہو گیا ہاں بیمار اور مسافر کے لئے رخصت ملی اور ایسا بوڑھا انتہائی جو روزے کی طاقت ہی نہ رکھتا ہو اسے بھی رخصت دی گئی۔ تیسری حالت یہ ہے کہ ابتداء میں کھانا پینا عورتوں کے پاس آنا سونے سے پہلے پہلے جائز تھا سو گیا تو پھر گو رات کو ہی جاگے لیکن کھانا پینا اور جماع اس کے لئے منع تھا پھر صرمہ نامی ایک انصاری صحابی دن بھر کام کاج کر کے رات کو تھکے ہارے گھر آئے عشاء کی نماز ادا کی اور نیند آ گئی دوسرے دن کچھ کھائے پئے بغیر روزہ رکھا لیکن حالت بہت نازک ہو گئی حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے پوچھا کہ یہ کیا بات؟ تو انہوں نے سارا واقعہ کہہ دیا، ادھر یہ واقعہ تو ان کے ساتھ ہوا ادھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سو جانے کے بعد اپنی بیوی صاحبہ سے مجامعت کر لی اور حضور کے پاس آ کر حسرت و افسوس کے ساتھ اپنے اس قصور کا اقرار کیا جس پر آیت (احل لکم لیلتہ الصیام الرفث الی نسائکم) سے (ثم اتمواالصیام الی الیل) تک نازل ہوئی اور مغرب کے بعد سے لے کر صبح صادق کے طلوع ہونے تک رمضان کی راتوں میں کھانے پینے اور مجامعت کرنے کی رخصت دے دی گئی، بخاری مسلم میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ پہلے عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا جب رمضان کی فرضیت نازل ہوئی تو اب ضروری نہ رہا جو چاہتا رکھ لیتا جو نہ چاہتا نہ رکھتا، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی یہ مروی ہے۔ (وعلی الذین یطیقونہ) کا مطلب حضرت معاذ بیان فرماتے ہی کہ ابتداء اسلام میں جو چاہتا روزہ رکھتا جو چاہتا نہ رکھتا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا۔ حضرت سلمہ بن اکوع سے بھی صحیح بخاری میں ایک روایت آئی ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے وقت جو شخص چاہتا افطار کرتا اور فدیہ دے دیتا یہاں تک کہ اس کے بعد کی آیت اتری اور یہ منسوخ ہوئی، حضرت ابن عمر بھی اسے منسوخ کہتے ہیں حضرت ابن عباس فرماتے ہیں یہ منسوخ نہیں مراد اس سے بوڑھا مرد اور بڑھیا عورت ہے جسے روزے کی طاقت نہ ہو، ابن ابی لیلیٰ، کہتے ہیں عطارؒ کے پاس رمضان میں گیا دیکھا کہ وہ کھانا کھا رہے ہیں مجھے دیکھ کر فرمانے لگے کہ حضرت ابن عباس کا قول ہے کہ اس آیت نے پہلی آیت کا حکم منسوخ کر دیا، اب یہ حکم صرف بہت زیادہ بے طاقت بوڑھے بڑے کے لئے ہے ، حاصل کلام یہ ہے کہ جو شخص مقیم ہو اور تندرست ہو اس کے لئے یہ حکم نہیں بلکہ اسے روزہ ہی رکھنا ہو گا ہاں ایسے بوڑھے ، بڑے معمر اور کمزور آدمی جنہیں روزے کی طاقت ہی نہ ہو روزہ نہ رکھیں اور نہ ان پر قضا ضروری ہے لیکن اگر وہ مالدار ہوں تو آیا انہیں کفارہ بھی دینا پڑے گا یا نہیں ہمیں اختلاف ہے امام شافعی کا ایک قول تو یہ ہے کہ چونکہ اس میں روزے کی طاقت نہیں لہٰذا یہ بھی مثل بچے کے ہے نہ اس پر کفارہ ہے نہ اس پر قضا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا، دوسرا قول حضرت امام شافعی ؒ کا یہ ہے کہ کہ اس کے ذمہ کفارہ ہے ، اکثر علماء کرام کا بھی یہی فیصلہ ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ وغیرہ کی تفسیروں سے بھی یہی ثابت ہوا ہے امام بخاری ؒ کا پسندیدہ مسئلہ بھی یہی ہے وہ فرماتے ہیں کہ بہت بڑی عمر والا بوڑھا جسے روزے کی طاقت نہ ہو تو فدیہ دے دے جیسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے اپنی بڑی عمر میں بڑھاپے کے آخری دنوں میں سال دو سال تک روزہ نہ رکھا اور ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو روٹی گوشت کھلا دیا کرے ، مسند ابو لیلیٰ میں ہے کہ جب حضرت انس رضی اللہ عنہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو گئے تو گوشت روٹی تیار کر کے تیس مسکینوں کو بلا کر کھلا دیا کرتے ، اسی طرح حمل والی اور دودھ پلانے والی عورت کے بارے میں جب انہیں اپنی جان کا یا اپنے بچے کی جان کا خوف ہو علماء میں سخت اختلاف ہے ، بعض تو کہتے ہیں کہ وہ روزہ نہ رکھیں فدیہ دے دیں اور جب خوف ہٹ جائے قضا بھی کر لیں۔ بعض کہتے ہیں صرف فدیہ ہے قضا نہ کریں، بعض کہتے ہیں قضا کر لیں فدیہ نہیں اور بعض کا قول ہے کہ نہ روزہ رکھیں نہ فدیہ نہ قضا کریں امام ابن کثیرؒ نے اس مسئلہ کو اپنی کتاب الصیام میں تفصیل کے ساتھ لکھاہے۔ (بظاہر یہی بات دلائل سے زیادہ قریب نظر آتی ہے کہ یہ دونوں ایسی حالت میں روزہ رکھیں اور بعد میں قضا کریں۔ نہ فدیہ دیں۔)
روزوں کا مقصد کیا اس کی ایک جامع تعریف امام سید قطب شہیدؒ نے اس طرح کی ہے۔ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ فرائض اور تکلیفات پر عمل کرنے کے لئے انسان کے نفس کوبڑی قوت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس سلسلے میں انسان اللہ کی خصوصی امداد کا محتاج ہے۔ اس بات کی ضرورت تھی کہ ان احکامات پر عمل کرنے کے لئے ان میں اسپرٹ پیدا کی جائے۔ ان کی روح ان احکامات کی طرف مائل ہو جائے تاکہ وہ مطمئن ہو جائے اور عمل پر راضی ہو جائے۔ حالانکہ ان احکام پر عمل کرنے میں خود اس کا مفاد مضمر ہے۔ چنانچہ اسی خاطر بہت ہی پیاری آواز میں پکار ا گیا۔’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو ‘‘۔غور کیجئے، یہ آواز انہیں ان کی اصل حقیقت یاد دلاتی ہے۔ پھر روزہ فرض ہوتا ہے۔ کہا جاتا ہے اور یہ تو پہلی امتوں پر بھی فرض ہوتا رہا ہے۔ کوئی نئی بات تو نہیں ہے۔ اس کا مقصد اہل ایمان کے دلوں کو صاف کرنا ہے۔ انہیں خوف خدا کے لئے تیار کرنا ہے اور ان میں اللہ کی مشیت کا احساس و شعور بیدار کرنا ہے۔’’اے لوگو!جو ایمان لائے ہو، تم پر روزے فرض کر دیئے گئے ہیں، جس طرح تم سے پہلے انبیاء علیہم السلام کے پیروؤں پر فرض کئے گئے تھے، اس سے توقع ہے کہ تم میں تقویٰ کی صفت پیدا ہو گی۔ ’’ اس آیت میں روزے کی اصلی غرض و غایت ظاہر ہو جاتی ہے، یعنی تقویٰ جب ایک مومن اللہ کے حکم کی اطاعت کرتے ہوئے اور اللہ کی رضا کی خاطر روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں تقویٰ کا شعور اجاگر ہو جاتا ہے۔ یہ تقویٰ ہی ہے جو دلوں کا نگہبان ہے اور جو انسان کو روزے کے احکام کی خلاف ورزی سے بچاتا ہے۔ اگرچہ وہ ایسی معصیت سے بھی انسان کو بچاتا ہے، جو کسی حد تک محض وسوسہ ہو۔ قرآن کریم کے اول مخاطب صحابہ کرامؓ ا س کے معنی سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ جانتے تھے کہ اللہ کے ہاں تقویٰ کس قدر وزنی ہے۔ اس لئے تقویٰ ہی ان کا نصب العین تھا۔ وہ برابر اس کی طرف بڑھتے جاتے تھے اور روزہ ذرائع حصول تقویٰ میں سے چونکہ ایک ذریعہ ہے اس لئے یہ فرض کیا گیا۔ دراصل روزہ وہ راہ ہے جس کی آخری منزل تقویٰ ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہاں قرآن مجید، ایک بلند مقام پر، بالکل سامنے تقویٰ کا ایک روشن نشان رکھ دیتا ہے اور اہل ایمان کی آنکھیں اس نشانہ پر جم جاتی ہیں اور وہ روزہ کے واسطے اور روزے کی امداد سے وہاں تک پہنچنے کے لئے کوشاں نظر آتے ہیں۔ ’’تاکہ تم ڈرو۔‘‘ بات کا دوسرا رخ دیکھئے، کہا جاتا ہے !یہ تو چند دن ہیں پوری عمر کے روزے تو فرض نہیں کئے گئے۔ تمام زمانے کے لئے تو فرض نہیں ہیں۔ ساتھ ساتھ یہ کہ بیمار اس وقت تک مستثنیٰ جب تک وہ صحت یاب نہ ہو جائیں۔ مسافروں پر اس وقت تک لازم نہیں جب تک گھر نہ لوٹ آئیں۔ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بطور سہولت اور تخفیف خاص رعایت دی گئی ہے۔
روزے کا اصل مقصد، شریعت کی بنیاد تقویٰ یعنی خدا خوفی اور پرہیز گاری ہے اور تقویٰ جذبات و خواہشات پر قابو پانے سے پیدا ہوتا ہے اور جذبات و خواہشات پر قابو پانے کی تربیت روزہ کے ذریعہ ہوتی ہے۔ یاد رہے کہ انسان صرف مادی وجود ہی نہیں رکھتا بلکہ روحانی وجود بھی رکھتا ہے اور اس کی روحانی توانائی و ارتقاء کے لیے روزہ بہترین تدبیر ہے۔ روزہ سے انسان پر خواہشات و شہوات کا غلبہ کمزور ہو جاتا ہے۔ اس میں ضبط نفس کی صفت پیدا ہوتی ہے اور ان کی قوتِ ارادی مضبوط ہو جاتی ہے۔ انسان کی اصل طاقت اس کا دل اور نفس ہے روزہ نفس کا تزکیہ کرتا ہے اور انسان کو خدا کا فرمانبردار بنا کر، جہاد زندگانی کے لیے تیار کرتا ہے۔ اسلام میں روزہ محض بھوکے پیاسے رہنے کا نام نہیں بلکہ حدود الٰہی کی پاسداری اور اطاعت و فرماں برداری کا احساس پیدا کرنے کا سامان ہے۔ روزے کا مقصد یہ آدمی کو اطاعت کی تربیت دینا ہے۔ وہ مہینے بھر تک روزانہ کئی کئی گھنٹے آدمی کو اس حالت میں رکھتا ہے کہ اپنی بالکل ابتدائی (elementary) ضرورت پوری کرنے کے لیے بھی اس کو خداوندعالم کے اذن و اجازت کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ غذا کا ایک لقمہ اور پانی کا ایک قطرہ تک وہ حلق سے گزار نہیں سکتا جب تک کہ وہاں سے اجازت نہ ملے۔ ایک ایک چیز کے استعمال کے لیے وہ شریعتِ خداوندی کی طرف دیکھتا ہے۔ جو کچھ وہاں حلال ہے وہ اس کے لیے حلال ہے، خواہ تمام دنیا اسے حرام کرنے پر متفق ہوجائے ، اور جو کچھ وہاں حرام ہے وہ اس کے لیے حرام ہے، خواہ ساری دنیا مل کر اسے حلال کردے۔ اس حالت میں خداے واحد کے سوا کسی کا اذن اس کے لیے اذن نہیں، کسی کا حکم اس کے لیے حکم نہیں، اور کسی کی نہی اس کے لیے نہی نہیں۔ خود اپنے نفس کی خواہش سے لے کر دنیا کے ہرانسان اور ہر ادارے تک کوئی طاقت ایسی نہیں ہے جس کے حکم سے مسلمان رمضان میں روزہ چھوڑ سکتا ہو یا توڑسکتا ہو۔ اس معاملے میں نہ بیٹے پر باپ کی اطاعت ہے، نہ بیوی پر شوہر کی، نہ ملازم پر آقا کی، نہ رعیّت پر حکومت کی، نہ پیرو پر لیڈر یا امام کی۔ بالفاظِ دیگر اللہ کی بڑی اور اصلی اطاعت تمام اطاعتوں کو کھاجاتی ہے۔اس طرح یہ روزہ انسان کی فرماں برداریوں اور اطاعتوں کو ہر طرف سے سمیٹ کر ایک مرکزی اقتدار کی جانب پھیر دیتا ہے اور ۳۰دن تک روزانہ اسی سمت میں جمائے رکھتا ہے، تاکہ اپنی بندگی کے مرجع اور اپنی اطاعت کے مرکز کو وہ اچھی طرح متحقق کرے اور رمضان کے بعد جب اس ڈسپلن کے بند کھول دیے جائیں تو اس کی اطاعتیں اور فرماں برداریاں بکھر کر مختلف مرجعوں کی طرف بھٹک نہ جائیں۔

تبصرے بند ہیں۔