ایک الیکشن بغیر بلیک منی کے

حفیظ نعمانی

ہر آدمی ہر معاملہ کو اپنی عینک سے دیکھتا ہے۔ وزیر اعلیٰ اکھلیش یادو نے بڑے نوٹ بند ہونے کا سبب اترپردیش کا الیکشن بتایا ہے۔ کل کمال خاں نے کہا تھا کہ اب الیکشن ایسے ہی ہوگا جیسے 1952اور بعد میں ہوتے تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کالا دھن جتنا الیکشن میں کام آتا تھا اتنا ۵ سال میں کام نہیں آتا تھا۔ ملک کا الیکشن صرف دولت کی وجہ سے ہی سیاسی ورکروں کے ہاتھوں سے نکل کر سماج کے ناپسندیدہ عناصر کے ہاتھوں میں آتا جارہا تھا اور اس کا نتیجہ تھا کہ ہندوستان کی پارلیمنٹ میں دوسو کے قریب وہ ممبر ہیں جنھیں وزیر اعظم نے داغدار کہا تھا اور ان کے مقدمات کو ایک سال میں انجام تک لیجانے کاوعدہ کیا تھا لیکن وہ بھی ان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگئے اور بڑے نوٹوں پر پابندی لگاتے وقت یہ نہیں سوچا کہ اگلے ڈھائی برس میں ان کے پاس دو دو ہزار کے نوٹوں سے پھر بورے بھر جائیںگے۔
بیشک یہ کالے دھن کا ہی نتیجہ ہے کہ الیکشن صرف پیسے سے لڑا جانے لگا تھا۔ 1967میں اس لکھنؤ میں کانگریس نے وی آر موہن کو ٹکٹ دیا تھا جو شہر کے ہی نہیں صوبہ کے بھی سب سے دولت مند آدمی کہے جاتے تھے۔ ہم پریس والے گواہ ہیں کہ نہ جانے کتنی فرضی تنظیموں کے نام سے وی آر موہن کو ووٹ دینے کی اپیل کے پوسٹر صرف ہمارے پریس میں چھپے اور کسی پوسٹر کی تعداد ۱۰۰ سے زیادہ نہیں تھی لیکن ہر تنظیم کا صدر ۱۰ ہزار پوسٹروں کا بل لے کر جارہا تھا اور وہاں سے پیسے لا رہا تھا۔ ان کے مقابلہ میں جن سنگھ بھی تھی اور آزاد امیدوار جسٹس آنند نرائن ملا بھی تھے۔ ملا صاحب نے مشکل سے ایک ہزار خرچ کیے ہوںگے ۔اور وہی کامیاب ہوگئے۔ ان کے بارے میں سب جانتے تھے کہ ان کے پاس پیسے نہیںہیں اور وہ ایماندار جج تھے۔
1967میں ہی امروہہ کی سیٹ جس میں سنبھل بھی تھا، کانگریس نے کمیونسٹ پارٹی کے لیے چھوڑ دی تھی۔ پارٹی نے مولانا اسحاق سنبھلی کو ٹکٹ دے دیا جن کی جیب میں ضمانت کے ۵۰۰ بھی نہیں تھے اور کمیونسٹ پارٹی ایک ہزار پوسٹر اور دس ہزار ہینڈبل دے دیا کرتی تھی۔ مولانا کے بارے میں ہر کسی کو معلوم تھا کہ وہ عالم بھی ہیں اور کامریڈ بھی ہیں۔ کسی نے ان سے کوئی پیسہ نہیںمانگا اور وہ کامیاب ہوئے۔ ان سے پہلے اس سیٹ سے مولانا حفظ الرحمن صاحب لڑا کرتے تھے اور ان کے ا نتقال کے بعد 1963میں آچاریہ کرپلانی کا الیکشن سنبھل میں ہم نے اور نواب زادہ محمود حسن خاں نے لڑایا ، اس میں کرپلانی جی کا مقابلہ مرکزی وزیر حافظ ابراہیم صاحب سے تھا۔ کرپلانی جی کے الیکشن میں کئی ہزار روپے خرچ ہوئے لیکن وہ سب دوسروں نے کئے اور وہ کامیاب ہوئے۔
ہمارے دوست امتیاز حسین بابو میاں نے ہمارے منع کرنے کے باوجود 1967میں لکھنؤ کے وسطی حلقہ سے الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے لڑ رہے تھے۔ ہم نے کئی بار منع کیا لیکن ان کے ساتھی بھی ناتجربہ کار تھے وہ نہیںمانے ا ور صرف ۵ ہزار ووٹ لے کر رہ گئے۔ ۲ سال کے بعد ہی حکومت گر گئی اور پھر 1969میں یوپی کا الیکشن آگیا۔ چودھری چرن سنگھ نے بی کے ڈی نام کی نئی پارٹی بنالی۔ ہم نے امتیاز صاحب سے کہا کہ اب شوق پورا کرلو جیت جائوگے۔ کہنے لگے اب پیسے نہیں ہیں،67میںسب ختم ہوگئے۔ ہم نے کہا کہ ہمت کرو تو سب ہوجائے گا۔ ہم سے جو ہوگا ہم کردیںگے اور دوستوں سے کرادیںگے۔
کانگریس نے بابوترلوکی سنگھ کو ٹکٹ دے دیا وہ قومی سطح کے لیڈر تھے اور شہر میں وہ کون تھا جو بابوجی کا احترام نہ کرتا ہو۔ غیر سیاسی مگرمعزز حضرات جیسے ڈاکٹر فریدی، حاجی زین العابدین، مقبول احمد لاری بھی ان کا الیکشن لڑا رہے تھے۔ بابو ترلوکی سنگھ ان ممتاز لیڈروں میںتھے جن کے پاس اپنے شاید ۱۰ ہزار روپے بھی نہ ہوں۔ لیکن اگر الیکشن میں ۱۰ لاکھ خرچ ہوں تب بھی انھیں کوئی فکر نہیں کرنا تھی اور امتیاز صاحب کا حال یہ تھا کہ نہ ان کی شخصیت کسی گنتی میں اور نہ ان کے دوستوں میں ایسے لوگ جو ان کے لیے خرچ کردیں اور نہ ان کا اپنا خاندان بس لے دے کر ان کی بیوی کے ایک بھانجے تھے ، بی ایس بابو، چپل کی دوکان والے مسعود میاں۔ وہ 1967میں بھی ان کی مدد کرچکے تھے۔ امتیاز صاحب کو ہم نے بی کے ڈی کا ٹکٹ دلوادیا ۔لیکن چودھری صاحب ملک کے چند ان لیڈروں میں سے ایک تھے جن کی ایمانداری کی قسم کھائی جاتی تھی۔ انھوں نے ٹکٹ تو دے دیا لیکن پیسے تو کیا دیتے کمیونسٹ پارٹی کی طرح ایک ہزار پوسٹر بھی نہیں دئے۔
آخری بات یہ ہے کہ پریس ہمارا تھا، سارا کام ہم نے چھاپ دیا۔ ایک دوست جو ایک بڑے ہوٹل کے مالک تھے، ان کی کار لے لی اور کھانے کا سارا خرچ جو پولنگ کے دن ہوا ان کے ذمہ کردیا۔ دو دوستوں پر پٹرول کا خرچ ڈال دیا۔ اس طرح ہم نے اکیلے دم پر اتنے بڑے قومی لیڈر کو اور جن سنگھ کے امیدوار جو ایک بڑے وکیل تھے کو ہرایا اور پورا الیکشن صرف ایک جیپ اور کبھی کبھی ایک کار کے بل پر لڑا لیا۔
جب بستی نام کا ایک ضلع تھا تو وہاں سے پارلیمنٹ کے ممبر ایک وزیر ہوا کرتے تھے۔ ان کے بعد قاضی جلیل عباسی صاحب کھڑے ہوئے اور انھوں نے نعرہ دیا کہ اس سیٹ سے یا تو وزیر لڑ سکتا ہے یا فقیر۔ وزیر لڑ چکا ، اب ایک فقیر آپ سے ووٹ بھی مانگ رہا ہے اور نوٹ بھی۔ اور یہ حقیقت ہے کہ ووٹ بھی برسے اور نوٹ بھی۔ ایسے نہ جانے کتنے لیڈر گذرے ہیں، ہندو بھی اور مسلمان بھی کہ بغیر خرچ کے وہ اسمبلی اور پارلیمنٹ کا الیکشن جیتے۔ بس شرط یہ رہی ہے کہ عوام کو بھی یقین ہو کہ یہ ایماندار ہے اور واقعی اس کے پاس پیسے نہیں ہیں۔
سیاست میں یہ بدعت اندراگاندھی نے شروع کی کہ پیسے والوں کو ٹکٹ دو اور ہیلی کاپٹر سے پورے ملک کا دورہ کرو۔ اس لعنت کا نتیجہ یہ ہے کہ بہار کے الیکشن میں چیلوں کی طرح آسمان پر بی جے پی کے ہیلی کاپٹر اڑرہے تھے۔ اور ۲۰۱۴ میں ڈاکٹر ایوب صاحب کو بھی ہیلی کاپٹر کی ضرورت پڑ گئی۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ چار سیٹوں پر ہی سمٹ گئے۔ وہ اگر پورے صوبہ کا جیپ سے دورہ کرتے تو شاید نتیجہ اس سے ا چھا ہوتا۔ ہیلی کاپٹر اس بات کا ثبوت ہے کہ ع کوئی معشوق ہے اس پردۂ زنگاری میں۔ ہمیں ڈاکٹر صاحب کی پارٹی کے لوگوں نے بتایا کہ ڈاکٹر صاحب جس امیدوار کو ٹکٹ دیتے ہیں اس سے ہیلی کاپٹر کا خرچ لیتے ہیں۔ آج کی گفتگو کا حاصل ہمارا یہ تجربہ ہے کہ عام آدمی ایماندار اور غریب لیڈر کو دولت مند کے مقابلہ میں ترجیح دیتا ہے۔ وہ لیڈر قصور روار ہیں جو یہ دیکھتے ہیں کہ جب ٹکٹ دے رہے ہیں وہ ایسا ہے یا نہیں کہ اپنا الیکشن بھی لڑے اور پارٹی کے نام پر ہمیں بھی دے دے؟ اب بڑے نوٹوں کا رنگ کالا ہوجانے کے بعد الیکشن پیسے سے نہیںلڑا جائے گا جو ریاست کے حق میں نیک فال ہے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔