مولانا ابو اکلام آزاد ؒ : بھلا سکیں گے نہ اہل ِزمانہ صدیوں تک

مفتی محمدصادق حسین قاسمی 

مولانا ابوالکلام آزاد ؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں ،ہندوستانی تاریخ کی ناقابل ِ فراموش ہستی ہیں ،جن کی پوری زندگی جہد ِ مسلسل اور عمل ِ پیہم کا نمونہ تھی ،جو ہند میں سرمایہ ٔ ملت کے نگہبان تھے ،اور اپنی تمام تر خداداد صلاحیت وقابلیت ،فہم وفراست ،تدبر و حذاقت ،فکر و بصیرت کو ہندوستان کی تعمیر و ترقی اور مسلمانوں کے ساتھ ہندوستانیوں کی فلاح وبہبودی میں صرف کیا ۔وہ عبقری شخصیت تھے،فلسفیانہ فکر اور مجتہدانہ دماغ رکھتے تھے ،میدان ِ سیاست کے مدبر تھے ،سحر طراز ادیب و جادوبیان خطیب تھے ،دیدہ وری اور نکتہ رسی میں بے مثال تھے ،حق و صداقت اور استقامت کا کوہ ِ گراں تھے اور جنگ ِ آزادی کے میر ِ کارواں اور ہندوستان کے معمار ِ اعظم تھے۔یوں تو مولانا ابو الکلام آزادؒ کی شخصیت پر بہت لکھا گیا اور مختلف زایوں سے ،آپ کی مختلف اور متنو ع خدمات پر ممتاز قلم کاروں ،ادیبوں اور مصنفوں نے خامہ فرسائی کی سعادت حاصل کی ہے ۔آئیے اس مختصر تحریرمیں اس عظیم المرتبت شخصیت کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں ۔
ولادت :
مولانا آزاد ؒ کی ولادت مرکز اسلام مکہ معظمہ میں11 نومبر 1888ء مطابق ذی الحجہ1305 کو ہوئی ۔والد ِ ماجد مولانا خیر الدین احمد، غدر 1857ء کو ہندوستان مین برطانوی جبر وتشدد سے تنگ آکر مکہ معظمہ تشریف لے گئے ،اور مدینہ منورہ کے مفتی اکبر شیخ محمد طاہر کی بھانجی سے ان کی شادی ہوئی ،انہی سے مولانا آزاد ؒ دنیا ئے رنگ وبو میں تشریف لائے ۔آپ کا ذاتی نا’’م محی الدین احمد‘‘ اور تاریخی نام’’فیروز بخت‘‘ رکھا گیا،لیکن آپ کی کنیت’’ ابو الکلام ‘‘اور آپ کا لقب ’’آزاد‘‘ نے آپ کے اصلی نام پر کچھ ایسا پردہ ڈالا کہ معدودے چند لوگوں کے کسی کو اس کا علم نہیں ۔( سیرت ِ آزاد:21)
تعلیم وتربیت :
مولانا آزاد نے ابتدائی دس مکہ معظمہ میں والد ماجد ہی کی نگرانی میں تعلیم حاصل کی ،اور بہت کم عمری میں دینی علوم سے آراستہ ہوگئے ،آپ کے والد مغربی علوم کی تحصیل کے مخالف تھے ،لیکن مولانا آزاد کو اللہ تعالی نے غضب کا حافظہ اور وقوت یادداشت عطا کی تھی ،جو چیز بھی ایک بار سن لیتے حافظہ خانہ میں محفوظ ہوجاتی ،اسی وجہ سے آپ نے دیگر علوم کو بھی اپنی غیر معمولی قوت حافظہ کی وجہ سے حاصل کیا اور ہر ایک میں عبور پایا ،عربی زبان تو آپ کی مادری زبان رہی ،فارسی وغیر ہ پر آپ کو کامل دستگاہ حاصل تھی ۔تقریبا13 سال کی عمر میں تحصیل علوم سے فراغت حاصل کی ۔مولانا آزاد ؒ کے والد بزرگوارکلکتہ منتقل ہوئے ،اللہ تعالی نے بزرگی اور سلو ک و تصوف میں مرجع خلائق بنایا تھا،گھر پر ہمیشہ عقیدت مندوں اور مریدوں کا تانتا بندھا رہتا ۔
کتب بینی کا شوق:
مولانا آزاد بچپن ہی کتب بینی کے شوقین تھے ،مطالعہ ان کی زندگی کا سب سے قیمتی سرمایہ تھا ،ابتدائی عمر سے کتابوں کے رسیا اور مطالعہ کے عادی بن گئے تھے ،وہ خود اپنا لڑکپن کا ایک واقعہ بیان فرماتے ہیں: لوگ لڑکپن کا زمانہ کھیل کود میں بسر کرتے ہیں ،مگر تیرہ برس کی عمر میں میرا یہ حال تھا کہ کتا ب لے کر کسی گوشہ میں جا بیٹھتا اور کوشش کرتا کہ لوگو ں کی نظروں سے اوجھل رہوں ،کلکتہ میں آپ نے ڈلہوزی اسکوائر ضرور دیکھی ہوگا ، جنرل پوسٹ آفس کے سامنے واقع ہے؛اسے عام طو رپر لال ڈگی کہاکرتے تھے ،اس میں درختوں کا ایک جھنڈ تھا کہ باہر سے دیکھئے تو درخت ہی درخت ہیں ؛اندر جائیے تو اچھی خاصی جگہ ہے اوایک بینچ بھی بچھی ہوئی ہے ،معلوم نہیں اب وہ جھنڈ ہے کہ نہیں ۔میں جب سیر کے لئے نکلتا تو کتاب ساتھ لے جاتا اور اس جھنڈ کے اند ر بیٹھ کر مطالعہ میں غرق ہوجاتاوالدمرحوم کے خادم خاص حافظ ولی اللہ مرحوم ساتھ ہواکرتے تھے ۔وہ باہر ٹہلتے رہتے اور جھنجھلا جھنجھلا کر کہتے اگر تجھے کتا ب ہی پڑھنی تھی تو گھر سے نکلا کیوں؟۔۔۔اکثر سہ پہر کے وقت کتا ب لے کرنکل جاتااور شام تک اس کے اند ر رہتا ۔( غبار ِ خاطر:105)ایک جگہ فرماتے ہیں : میں آپ کو بتلاؤں میرے تخیل میں عیش ِ زندگی کا سب سے بہترین تصور کیا ہوسکتا ہے؟جاڑے کا موسم ہو اور جاڑا بھی قریب قریب درجہ انجماد کا ،رات کا وقت ہو ،آتشدان سے اونچے اونچے شعلے بھڑک رہے ہوں اور میں کمرے کی ساری مسندیں چھوڑ کر اس کے قریب بیٹھا ہوں اور پڑھنے یا لکھنے میں مشغول ہوں۔( متاعِ وقت اور کاروان ِ علم :263)
بحیثیت ِ سحر نگار ادیب:
مولانا آزاد کی شخصیت کا ایک بنیادی پہلو آپ کی سحر انگیز ادبیت ہے ،جس نے آپ کو ہر ایک کا محبوب بنادیا ،آپ کے دوست ودشمن ،موافقین اور مخالفین سب ہی آپ کی تحریروں کے فریفتہ رہے ،ہر کسی نے آپ وجد آفریں نگارشات سے استفادہ کیا۔۔لوگ نظم میں انقلاب برپاکرتے ہیں لیکن آزادؒ کے قلم نے ہندوستان کی تاریخ میں بڑا نقلاب پیداکیا اور ایک نئے اور پرکشش اسلوب سے اردو ادب کو روشناس کروایا۔۔۔حسرت موہانی جیسے شاعر نے کہا:
جب سے دیکھی ابو لکلام کی نثر
نظم ِ حسرت میں کچھ مزا نہ رہا
صا حب طرز ادیب مولانا عبد الماجد دریابادی ؒ مولانا آزاد کی ادبی عظمت اور ان کی نگارشات کی قدر و قیمت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :خدا نخواستہ اگر ادبیا ت کا سارا ذخیرہ جل کر خاکستر ہو جائے اور تنہا ابوالکلام کی تخلیقات ( یہ لفظ میرا نہیں ) باقی رہ جائے تو انشاء اللہ ادب اردو کی عظمت وجلالت کا اندازہ لگانے کے لئے وہ بس کافی ہوں گی ،خدا ناخواستہ ابولکلامیات کے بھی دوسرے اجزاء معدوم ہوجائیں تو ان کا بھی سارا عطر کھنچا کھنچا یا ایک غبار ِ خاطر کے اندر موجود ملے گا۔( مولانادریابادی ؒکے ادبی شہ پارے :2/267)اردو ادب و صحافت کی عظمتوںکو بلندی پر پہنچانے والے آزادؒ ہیں ۔مولانا آزادؒ نے چودہ یا پندرہ سال کی عمر میں1 190ء ؁ میں ’’المصباح‘‘ جاری کیا ،آزادؒ نے اس کم سنی میں لوگوں کے ذہن ودل پر اپنی ادبیت کارعب مسلط کردیا۔چار ماہ کے بعد المصباح بند ہوگیا ،اس کے بعد آپ نے بہت سارے اخبارات کی ادارت سنبھالی اور بالاخر شہرہ آفاق ہفتہ واری اسلامی جریدہ الہلال1912ا؁ء میں جاری کیا جس نے ادب و صحافت کی دنیا میں انقلاب برپا کردیا ،اورلوگ دیوانہ وار اس کی تحریروں کے عاشق بن گئے ،اور یہاں تک کے لوگ الہلال کے نسخوں کو نہایت حفاظت کے ساتھ رکھتے اور ایک دوسرے کو مطالعہ اور جذبات کو مہمیز کرنے کے لئے دیتے۔تقریبا مولانا آزاد ؒ نے 28 سال ادب و صحافت کی وادیوں میںمشغول رہے ،اور اپنے قلم معجز رقم سے اسلام کی بے مثال خدمات انجام دیں ،اور اپنے افکار وخیالات اور بے چین جذبات سے امت کو آگاہ کرتے رہے ،ملک و ملت کو درپیش مسائل کو حل کرتے ،قوم ووطن کی فلاح و بہبودی میں قلم برداشتہ رہتے ،اور علم وادب ،تحقیق وتدقیق ،کے موتی بکھیرتے رہے،اور بے شمار کتابیں تشنگان ِ علم کی پیاس بجھانے کے لئے چھوڑٰیں۔
مولانا آزاد ـ ؒ اور خطابت:
مولاناآزاد ؒ کو اللہ تعالی ان گنت خوبیوں اور کمالات سے نوازاتھا بقول علامہ شبلی نعمانی ؒ:تمہارا ذہن و دماغ عجائب روزگا ر میں سے ہے ،تمہیں کسی علمی نمائش گاہ میں بطور ایک عجوبہ کے پیش کرناچاہیے۔( جرس ِکارواں:14)چناں چہ خطابت میں غیر معمولی صلاحیتوںسے اللہ نے نوازا تھا بلکہ تحریر و خطابت مولانا کے جزو لاینفک تھے ۔مولانا آزادؒپندرہ برس کی عمر میں اچھے خاصے خطیب بن گئے تھے ،ان کی سب سے پہلی تقریر 1902ء ایک جلسہ میں ہوئی ،پھر1904؁ء انجمن حمایت اسلام لاہو ر کے سالانہ جلسہ میں تقریر فرمائی ۔( سیرت ِ آزاد:25)مولانا آزاد ؒ نے ایک مرتبہ دارالعلوم دیوبند میں تقریر کی تھی ا س کا نقشہ مولانا انظر شاہ کشمیری یوں کھنچتے ہیں :صحافی اس تقریر پر جھوم رہے تھے فارقلیط سردھنتے ہوئے کہتے ،کیا پر شکوہ اردو ہے ،کیسی باوقار خطابت ہے ،مرحوم آزاد نے تقریبا ایک گھنٹہ کی پرجوش خطابت میں قدیم علماء کی تاریخ ،فخر روزگار شخصیتوں کا تذکرہ علماء کاواقعی مقام اور اکابر دارالعلوم کا تذکرہ قدیم درسگاہوں کی اہمیت ،پرانی تعلیم کا وقار پرشکوہ انداز میں کیا ان کی بے قرار ذہانت خدوخال و اداؤں سے ٹپک رہی تھی ،دوران ِ تقریر کبھی چشمہ لگاتے کبھی بیتابی سے اتارلیتے ،گاہے گاہے مونچھوں کو تاؤں دیتے ،ان کا سراپا متحرک تھا اور مجمع خطابت کے تموج آمیز طوفا ن میں اپنے تھامنے کی سکت نہیں پارہا تھا۔( لالہ وگل:295)آپ کے شاہکار خطبات مطبوعہ شکل میں موجود ہیں جس کی اس کی عظمت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ،آپ کے خطبات نے کن سنگین حالات میں قوم کی رہبر ی کی اور ادائے حق کا فریضہ انجام دیا بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ،اگر اس کے چند اقتباس بھی نقل کئے جائیں تو طوالت ہوجائے اس کے اس کو یہی پر روک دیا جاررہاہے۔
مولانا آزادؒ اور تفسیر قرآن:
مولانا آزاد ؒ کے قلم سے جہاں بہترین اور شاہکار تحریریں نکلیں وہیں آپ نے دینی موضوعات اور قرآن وحدیث کے عنوانات پر بیش بہاسرمایہ چھوڑا ہے ۔ ان کی مایہ ناز تفسیر ترجمان القرآن پر روشنی ڈالتے ہوئے ادیب ومؤرخ مولانا ابوالحسن علی ندوی رقم طراز ہیں:34۔1933ء میں ان کی تفسیر و ترجمہ’’ ترجمان القرآن‘‘کی پہلی پھر دوسری جلد چھپ کر نکلی ،میں اس زمانہ میں دارالعلوم ندوۃ العلماء میں تدریس کے فرائض انجام دیتا تھا ،اور تفسیر میرا خاص مضمون تھا ،میں نے یہ جلد بڑے ذوق سے پڑھی اور اس سے بہت فائدہ اٹھا یا سورۃ برات کی تفسیر کے سلسلہ میں انہوںنے غزوہ تبوک سے پچھڑجانے والے تین صحابیوں کی داستان ان کے ایک رفیق کعب بن مالک ؓ کی زبان سے جس طرح سنائی ہے اس میں ترجمہ و روایت کی پوری احتیاط و دیانت کے ساتھ اپنے جادونگار قلم سے جس طرح جان ڈال دی ہے ان کی ذہنی کشمکش ،نازک امتحان،اسلام سے سچی وفاداری اور عشق رسول کی جس طرح تصویر کھینچی ہے ،ا ن کی دھڑکنوں کو جس طرح الفاظ میں منتقل کیا ہے ،جس برجستگی وبے ساختگی کے ساتھ اردو اور فارس کے آبدار شعروں کو جابجا نگینہ کی طرؤح جڑاہے ،اس نے مضمون کو صرف اردو ہی میں نہیں بلکہ دنیا کے کلاسیکی ادب میں شامل ہونے کا مستحق بنادیا ہے ۔( پرانے چراغ:2/43)بہرحال مولانا آزاد ؒ نے اپنے قلم کو خدا کی عظیم کتاب اور صحیفہ ہدایت کی خدمت میں استعمال کرکے اس کی عظمت کو زندہ و جاوید کردیا۔
مولانا آزادؒ کی عظمت:
اللہ تعالی نے مولانا آزاد ؒ کو ایک بارعب اور متاثر کن شخص بنا یا تھا ،اور غیر معمولی بے نیازی اور استغنا بخشا تھا ،اور لوگوں کی دلوں میں آپ کی عظمت و محبت کو رچا بسا دیا تھا ،بقول مولانا دریابادیؒ:کسی دوسرے کی شخصیت سے مرعوب بلکہ متاثر ہونا تو شاید ابولکلام نے عمر بھر جانا ہی نہیں ۔الٹے اپنی شخصیت سے دوسروں کو متاثر کرتے رہے ،نظریاتی اختلاف کیا دینی اور سیاسی ،اپنے معاصرین میں خدا معلوم کتنوں سے تھا ،وہ ہونا بالکل قدرتی تھ الیکن اپنے ذاتی تعلقات میں فرق نہ کسی دینی اختلاف سے آنے دیا نہ کسی سیاسی اختلاف سے اپنی طرف کسی اختلاف کو مخالفت میں ہونے دیا۔( ادبی شہ پارے:2/265)شورش کاشمیر ی لکھتے ہیں :مولانا سے ان کے بعض معاصرین کی خفگی ان کا استغناء تھا ،وہ خلوت کے انسان تھے ۔( ابولکلام آزادؒ:84)مولانا کشمیر ی ؒ لکھتے ہیں:میں نے اپنی آنکھوں سے یہ منظر دیکھا ہے کہ شاہ سعود ہندوستان تشریف فرماہوئے تو پالم ائیرپورٹ پر استقبا ل کے لئے جب مولاناآزاد کی کار آئی ہے تو پنڈت جی ( جواہر لال نہرو) وزیر اعظم ہونے کے باوجود دوڑکر کار تک پہنچے اور کارکا دروازہ کھولنے کی سعادت حاصل کی ۔( لالہ وگل:296)سحر خیزی کے عادی تھے ،ہر کام کیلئے وقت متعین تھا ،نظم و نسق ،نظافت اور نفاست کے پابند تھے ،خلاف اصول کام نہیں کرتے ۔نظم اوقات سے متعلق لکھا ہے کہ : ایک مرتبہ دن میں پانچ بجے شام گاندھی جی آگئے ،مولانا کو خبر کی تو ٹس سے مس نہ ہوئے ،فرمایا: اس وقت ملنے سے معذور ہوں کل صبح نو بجے تشریف لائیں ،گاندھی جی ہشاش بشاش لوٹ گئے اور اگلے دن صبح نو بجے تشریف لائے ۔( مولانا ابولکلام آزاد:84)اس کے ساتھ دینی اعمال ،خدا ترسی ،شغف قرآن کا بھی وافر حصہ ملا تھا۔
مولانا آزاد اور ہندوستان:
مولانا آزاد ؒ تقسیم وطن کے قائل نہیں تھے ،متحدہ ہندوستان کے سرخیل تھے ، اس کے لئے انہوں نے بڑی قربانیاں دیں ،اور جدوجہد کرتے رہے ،ہندوستان جس کو مسلمانوں نے خون ِ جگر دے کر سنوارا ہے اس کی عظمت و تحفظ کے لئے وہ بڑے ہی فکر مند رہاکرتے ،اپنی اخری سانس تک ہندوستان کی ترقی کے خوابو ں کو آنکھوں میں سجاکر جیتے رہے ،مولانا آزاد ؒ کے یاد گار خطبات میں ایک خطبہ اور تقریر وہ بھی ہے جو انہوں نے ہندوستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے سامنے کی جس درد وفکر سے انہوںنے خطاب کیاکہ اس کی وجہ سے لوگوں کے اپنا ارادہ چھوڑ دیا،اس کاایک مختصر اقتباس ملاحظہ فرمائیں:یہ فرار کی زندگی جو تم نے ہجرت کے مقدس نام پر اختیار کی ہے اس پر غور کرو ، اپنے دلوں کو مضبوط بناؤ، اپنے دماغوں کو سوچنے کی عادت ڈالواور دیکھو کہ تمہارے یہ فیصلے کتنے عاجلانہ ہیں ،آخر کہاں جارہے ہو اور کیوں جارہے ہو؟یہ دیکھو مسجد کے بلند مینار تم سے اچک کر سوال کرتے ہیں تم نے اپنی تاریخ کے صفحات کو کہاں گم کردیا ہے؟ابھی کل کی بات ہے کہ جمنا کے کنارے تمہارے قافلوں نے وضو کیا تھا ،اور آج تم ہو کہ تمہیں یہاں رہتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے ،حال آنکہ دہلی تمہارے خون سے سینچی ہوئی ہے ۔( خطبات ِ آزاد:340)بہت محبت تھی آزاد کو ہندوستان سے اور انہوں نے حق ِ محبت ادا بھی کیا ۔ ہندوستان کی آزادی کے بعد مولانا ابولکلام آزاد پہلے وزیر تعلیم بنے ،اگرچہ عہدہ یا منصب آزادؒ کے لئے کوئی وجہ عظمت نہیں ہے ،جس نے خود اپنے خون سے گلشن کی حفاظت کی ہو اسے ان معمولی عہدوںکی وجہ سے رتبہ نہیں ملتا ۔لیکن بہرحال ان کی گراں قدر خدمات اور آزادی وطن کے پیہم سعی کے وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم بنائے گئے ،لیکن اس مرد ِ قلندر کی سادگی اور خداترسی میں رمق برابر کمی نہیں آئی ،اور وہ گوشہ نشین اور خلوت گزین اسی بے نفسی اور ٹھاٹ و باٹ سے کسوں دور رہ کر خدمات انجام دیتا رہا۔آج ہندوستان میں تعلیمی میدان میں جو کچھ سبقت اور کوششیں نظر آرہی ہیں بلاشبہ اس میں مولانا آزاد ؒ کاناقابل ِ فراموش حصہ شامل ہے ،آزادؒ نے ہندستانیو ں کو زیورِتعلیم سے آراستہ کرنے کے لئے ہمہ جہت کوششیں کیں اور بہت سی چیزوں کا شروع کیا۔بحیثیت ِ وزیر تعلیم مولانا آزادؒنے دورِ اول ہی سے بہت سی اصلاحات فرمائی اورمختلف راہوں کو ہموار کیا۔ہندوستان کبھی ان کی اس میدان کی عظیم خدمات کو بھلا نہیں سکتا ۔
مولانا آزاد کی وفات:
19 فروری 1958ء کووہ معمول کے مطابق علی الصباح اٹھے اور غسل خانے میں گئے ،غسل خانے میں اچانک فالج کا حمل اور وہ گر پڑے ،گرتے ہی بے ہوش ہوگئے ،مسلسل تین دن یہی حالت رہی ،درمیان میں ایک یادومرتبہ ہوش کی کچھ لہر سی آئی تو قریب بیٹھے ہوئے کسی شخص کو پہچانا ،اسی اثناء میں پنڈت جواہر لال نہرو قریب آئے تو انھیں خدا حافظ کہا۔ایک موقع پر ڈاکٹر وں کے آکسیجن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: مجھے پنجرے میں کیوں بند رکھا ہے ،بس اللہ پر چھوڑدو۔علاج ومعالجے کی تمام انسانی کوششیں کی گئیں اور ہر قسم کی تدبیریں آزمائی مگر وہی ہوا جو اللہ کو منظور تھا ۔چنا ں چہ22فروری 1958ء (2 شعبان1377ھ) جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی رات دو بج کر دس منٹ پر اپنی سرکاری قیام گاہ ( واقع کنگ ایڈورڈ روڈ نئی دہلی) میں تقریبا ستر سال کی عمر میں اس جہاںن فانی سے رخصت ہوگئے۔( بزمِ ارجمنداں:131) نمازِ جنازہ حضرت مولانا سعید احمد دہلوی نے پڑھائی ایک اندازے کے مطابق پانچ لاکھ افراد نے جنازے میں شرکت کی۔ بقول مولانا انظر شاہ کشمیر ی ؒ :اب دہلی کی شا ہ جہانی جامع مسجد کے سامنے ایک طویل پارک میں سیا ست و حذاقت، فراست وبصیرت ،علم وفن ،انشاء و خطابت کا یہ تاجدار اس طرح تنہا پڑا سوتا ہے کہ جیسا کہ اس نے اپنی پوری زندگی تنہائیوں میں گذاردی ۔
شورش کاشمیری نے مولانا کی مزار پر ایک مشہور مرثیہ کہا اس کے دو بند پڑھیے:
عجب قیامت کا حادثہ ہے کہ اشک ہیں آستیں نہیں ہے
زمین کی رونق چلی گئی ہے افق پہ مہر مبیں نہیں ہے
تری جدا ئی میں مرنے والے وہ کون ہے جو حزیں نہیں ہے
مگر تیری مرگ ِ ناگہاں کا مجھے اب تک یقیں نہیں ہے
کئی دماغوں کا ایک انسان سوچتا ہوں کہاں گیا ہے
قلم کی عظمت اجڑ گئی ہے زبان سے زور ِ بیاں گیا ہے
اتر گئے منزلوں کے چہرے امید کیا ؟ کارواں گیا ہے
مگر تیری مرگ ِ ناگہا ں کا مجھے اب تک یقیں نہیں ہے

تبصرے بند ہیں۔