ایک اور کلین چٹ

  ممتاز میر

  زعفرانی خاندان کے لئے ایک اور خوشخبری۔۔لیجئے صاحب !ایک اور کلین چٹ۔ابھی ہفتہ بھی نہیں گزراکہ الور کی CB-CID نے  پہلو خان مرڈر کیس میں پہلو خان کے بستر مرگ پر دئے گئے بیان کو نظر انداز کرتے ہوئے،اس میں نامزد کئے گئے سارے 6 قاتلوں کو کلین چٹ دے دی تھی۔ اب کل یعنی 20 ستمبر کو خبروں کے مطابق بھوپال جیل سے فرار سیمی کے 8 مشہور قیدیوں کا انکاؤنٹر کرنے والی مدھیہ پردیش پولس کو ریٹائرڈ جسٹس ایس کے پانڈے نے کلین چٹ دیدی ہے۔’’آنریبل‘‘ ایس کے پانڈے مارچ 2003 سے اگست 2006 تک مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے جج رہے ہیں ۔انھوں نے پولس اور وزارت داخلہ کے قیدیوں کے فرار اور انکاؤنٹر کے تعلق سے تضاد بیانی کو نظر انداز کرتے ہوئے،سیمی کے ۸ قیدیوں کی جیل سے فرار کی بودی تاویلات کرتے ہوئے پولس کے ان قیدیوں کو دن دہاڑے گولی سے اڑا دینے کو بالکل صحیح قرار دیا ہے۔

 انکاؤنٹر کے دن مسلمان نہیں ہندو صحافیوں نے اس پہاڑی پر جہاں ان بد قسمت نوجوانوں کی لاشیں پڑی ہوئی تھیں ،کیا دیکھا ،ہم نے بہت کچھ پڑھا ہے مگر یہاں صرف ایک صحافی کا بیان نقل کرتے ہیں ۔ جن کا نام پروین دوبے ہے۔ وہ دینک بھاسکر کے صحافی ہیں جسے یہاں مدھیہ پردیش میں ایک متعصب اخبار سمجھا جاتا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’سیمی کے خونخوار دہشت گردوں کے انکاؤنٹر میں کچھ تو ہے جس کی پردہ داری ہے۔ میں خود موقع پر موجود تھا۔ سب سے پہلے پیدل چل کر اس پہاڑی پر پہونچا جہاں ان کی لاشیں تھیں ۔آپ کے ویر جوانوں نے انھیں ایسے مارا کہ انھیں اسپتال جانے لائق بھی نہ چھوڑا۔۔نا۔۔نا۔ ۔آپ کے بھکت مجھے دیش دروہی ٹہرائیں اس سے پہلے میں صاف کردوں کے میں ان کی حمایت نہیں کر رہا ہوں ۔نہ میں ان کو شہید یا نردوش مان رہا ہوںجناب۔ ۔انھیں زندہ کیوں نہ پکرا گیا ؟میری ATS چیف سنجیو شمی سے موقعے پر بات ہوئی۔۔۔انھوں نے کہا کہ وہ بھاگنے کی کوشش کر رہے تھے اور قابو میں نہیں آرہے تھے۔جبکہ پہاڑی پر جہاں ان کی باڈی ملی اس سے ایک قدم آگے جانے پر وہ سیکڑوں فٹ نیچے گر کر مر سکتے تھے۔۔۔ان کے مارے جانے کے بعد میں نے آپ کی فورس کو ہوائی فائرنگ کرتے دیکھا تھا تاکہ خالی کارتوس کہانی کا حصہ بن سکیں ۔جس کے جسم میں زرا سی بھی جنبش نظر آئی اسے پھر گولی ماری گئی۔ ایک آدھ کو زندہ پکر لیتے تو اسMotive کا پتہ چلتا جس کی وجہ سے وہ جیل توڑ کر بھاگے تھے۔اب آپ کی پولس کچھ بھی کہانی گھڑلے کہ پردھان منتری نواس پر حملے یا بارک اوبامہ کے پلین کو ہائی جیک کرنے نکلے تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا۔۔۔شیو راج جی !اگرسرجیکل اسٹرائک اندرونی حفاظت کا فیشن بن گیا تو مشکل ہوگی۔۔۔چلئےکوئی بات نہیں ۔ ماردیا تو ماردیا۔ مگر اس کے پیچھے کی کہانی اچھی سنائیے گا۔قسم سے دادی کے گزرنے کے بعداچھی کہانی سنے برسوں ہوگئے‘‘

  یہ تعجب کی بات نہیں اس درجے متنازعہ انکاؤنٹر کو بھی ایک ’’رٹائرڈ‘‘جج جیسے محترم شخص نے سچ مان لیا ہے۔ یہ متوقع تھا۔اگر جج کے سامنے بغیر کسی دباؤ کے اقبال جرم کرنے والے شخص اور اس کے ساتھیوں کو ضمانت دی جا سکتی ہے۔ اور ان کی ضمانت میں مدد نہ کرنے والی سرکاری وکیل کو چلتا کیا جا سکتا ہے۔پہلو خان کے قاتلوں کو مکھن سے بال کی طرح نکالا جا سکتا ہے تو ڈھونڈئیے وہ کونسا چمتکار ہے جو یہ حکومت نہیں دکھا سکتی؟ابھی تو مزید دو سال تک مسلمانوں کے قاتلوں کو حکومت کی ہمدردی و حمایت حاصل رہے گی۔ اور ملک کی اکثیریت کا یہی رویہ رہا تو مزید 5 سال بھی یہی کچھ ہوتا رہے گا۔ویسے اس کے بعد اگر کانگریس کی حکومت آگئی تو مثبت معنوں میں کچھ بھی بدلنے والا نہیں ہاں یہ ممکن ہے کہ وہ اکثیریت کے اطمینان کی خاطرمسلمانوں کے معاملے میں نہلے پہ دہلا مارنے کی کوشش کرے۔آج مسلمان جو فصل کاٹ رہے ہیں یہ کانگریس ہی کی تو بوئی ہوئی ہے۔کانگریس نے ہر اس موقع پر جب آر ایس ایس پر سخت اقدامات کئے جا سکتے تھے سنگھ کو بچانے کا کام کیا ہے۔آج سنگھ پریوار جس طرح وطن عزیز پر راج کر رہا ہے اور وطن کی سر زمین جس طرح مسلمانوں پر تنگ کر دی گئی  ہے اکثیریت کے ذہنو ں کو جس طرح مسموم کردیا گیا ہے یہ سب سنگھ اور کانگریس کی ملی بھگت سے ہی ممکن ہو سکا ہے۔اکثیریت کی ذہنیت فی الوقت کیسی ہے اس کی ایک مثال ملاحظہ کریں ۔

ہماری ایک چھوٹی سی دکان ہے جس پر ہندو اور مسلمان دونوں قوم کے لوگ آتے ہیں  سبھی سے ملک کے موجودہ حالات پر گفتگو ہوتی ہے۔ سبھی موجودہ حکمرانوں سے تنگ آئے ہوئے ہیں ۔سبھی کا کہنا ہے کہ اتنی بری حکومت تو محمد شاہ رنگیلے کی بھی نہ رہی ہوگی۔اتنا ظالم تو ہٹلر بھی نہ رہا ہوگا۔اتنی لوٹ تو ایسٹ انڈیا کمپنی کے دور میں بھی نہ مچی ہوگی۔ سب یہی کہتے ہیں کہ اب 2019 میں ان حکمرانوں کا دوبارہ اقتدار پر آنا ممکن نہیں ۔ ہم اپنے ہندو بھائیوں سے کہتے ہیں کہ نہیں ۔جب الکشن کا وقت آئے گا آپ انہی کو ووٹ دیں گے۔وہ شدت سے انکار کرتے ہیں اور ہم اتنے ہی زورسے اپنی بات دہراتے ہیں ۔آخر میں ہم کہتے ہیں کہ الکشن  سے کچھ پہلے یہ دوچار مسلم کش فسادات کروادیں گے اور پھر آپ اپنے ووٹ انہی کے حق میں استعمال کر لیں گے۔ اس بات پر وہ خاموش ہو جاتے ہیں ۔ آج تک کسی نے یہ نہیں کہا کہ نہیں ۔اب ہم اس طرح کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔سوال یہ ہے کہ ہندوہمیں برا کیوں سمجھتا ہے؟اور ہم نے اس ذہنیت کے مقابلے کے لئے گذشتہ 70 سالوں میں کیا کیا؟آزادی کے بعد ہم برہمنوں کی گود میں بیٹھنے کی بجائے دلتوں ،پچھڑوں ،پسماندوں کے گلے کیوں نہ لگے؟چلئے ،جو ہوا سو ہوا۔اب تو ہم اپنا احتساب کرکے اپنی حکمت عملی تبدیل کر سکتے ہیں ۔

  1984 کے چند ماہ ہم نے جلگاؤں ؍بھوساول اپ ڈاؤن کیا ہے۔ 1984 میں سکھ دہشت گردی عروج پر تھی۔ اسی سال اندرا گاندھی نے  جرنیل سنگھ بھندران والے کے لئے گولڈن ٹمپل پر حملہ کروایا تھا۔اسی سال 31۔اکتوبر کو اندرا گاندھی کا قتل ہوا تھا۔۔جلگاؤں پلیٹ فارم پر ایک ٹرین رکی ہوئی تھی۔ جب ایک سردارجی کو ستایا گیا تو اس نے فوراً کرپان نکال کر لہرانا شروع کردیا اور پلیٹ فارم پر بھگدڑ مچ گئی۔

اس زمانے میں کسی میں ہمت نہیں تھی کہ سکھوں کو دہشت گرد کہہ دے۔ گو کہ ودھوا سنگھ (ببر خالصہ چیف )لکھبیر سنگھ روڈے،پرمجیت سنگھ پنجاور گجیندر سنگھ(اور بھی کئی نام ہیں )جنھوں نے دہشت گردی میں بڑا نام کمایا تھا۔ اس زمانے میں کسی میں ہمت نہیں تھی کہ کسی عام سکھ کو دہشت گرد کہہ دے یا کسی اور طرح ان کو یا ان کے دھرم کو مطعون کردے۔ حالانکہ کہ اندرا گاندھی کے قتل کے بعد بھیڑ نے ان کا قتل عام کیا۔ مگر پھر اس کے بعد ان سے ڈر ہی لگتا رہا۔سوال یہ ہے کہ 2؍3 کروڑ کی قوم اتنی طاقتور کیوں ہے؟ اور ہم 25؍30 کروڑ والے اتنے کمزور ،بے بس لاچار کیوں ہیں ؟یہ کہنا کہ سکھ ہندو دھرم کا حصہ ہیں اپنے آپ کو دھوکا دینا ہے۔ ان کے اکابرین چلا چلا کر کہتے ہیں کہ وہ ہندو نہیں ہیں۔

آخر کب یہ طے کیا جائے گا کہ ہماری اس حالت کے ذمے دار کون ہیں ؟ہم کب مل بیٹھ کر اپنی آئندہ حکمت عملی طے کریں گے؟ ہم بھی متعدد بار لکھ چکے ہیں اور دیگر لکھاری بھی کہ آج کا دور میڈیا کادور ہے۔ اب جنگیں میدان جنگ میں کم اور میڈیا میں زیادہ  لڑی جاتی ہیں۔ ہندی اور انگریزی میں ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینل کیوں نہیں ہیں ؟ آج سعودی عرب کی جو حالت ہے اور جیسے وہاں کے حکمراں ہیں ،کیا نفل حج و عمرہ عنداللہ مقبول ہونگے؟یہ تو ظالموں کے ہاتھ مضبوط کرنا ہے۔ ہم وہی پیسے بچا کر دین کے دفاع اور تبلیغ کے لئے اگر اخبارات و چینل شروع کریں تو یقین ہے کہ نفل حج و عمرہ سے زیادہ ثواب ملے گا۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔