روہنگیا: صرف امداد ہی حل نہیں!

ڈاکٹر عابد الرحمن

پانچ لاکھ کے قریب روہنگیا میانمار سے بھاگ کر بنگلہ دیش پہنچ چکے ہیں اور اپنے ساتھ ظلم و ستم مار دھاڑ قتل و غارت اور جنسی زیادتیوں کی وہی داستانیں لے کر آئے ہیں جنہیں میانمار کی منتخب لیڈر آنگ سان سوچی نے سوشل میڈیا کا جھوٹ قرار دیا ہے ۔ یہ لوگ اپنی جان بچا کر بنگلہ دیش تو پہنچ گئے ہیں لیکن یہاں بھی یہ کوئی باعزت مہمان نہیں ہیں کہ جن کی آؤ بھگت ہوگی ۔یہ لوگ پہلے تو یہاں بن بلائے ہیں اور دوسرے اتنی کثیر تعداد میں ہیں کہ ان کے طعام وقیام کا انتظام بجائے خود ایک بہت بڑااور مشکل کام ہے۔ فی الوقت تو ان میں سے بہت سے لوگ کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں اوپر سے بارش نے ان کے فرش کو بھی کیچڑ کردیا ہے ۔ اس کے علاوہ لیٹرنس کی بھی سہولیات پوری طرح دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے وبائی امراض پھیلنے کا بھی خطرہ ہے ۔ یعنی میانمار سے بھاگنے میں ان کی جان تو بچ گئی لیکن جوکھم ابھی بھی باقی ہے۔بہت سے ممالک نے ان بے چاروں کے لئے امداد بھیجنے کا اعلان کیا ہے اور بہت سوں نے تو کئی میٹر ک ٹن پر مشتمل اشیائے ضروریہ انہیں بھیج بھی دی ہیں جن میں وطن عزیز بھی شامل ہے ۔یہ امدادبنگلہ فوج کے ذریعہ ان میں تقسیم کی جارہی ہے۔

اس کے علاوہ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں بھی ان کی امداد کر رہی ہیں جن میں برطانوی سکھوں کی ایک تنظیم خالصا ایڈ (Khalsa Aid)   خاص طو سے قابل ذکر ہے جو ہر روز کم از کم ۳۵ ہزار روہنگیا کو کھانا کھلا رہی ہے،اس سب امدادی کام کی سراہنا کی جانی چاہئے ہر متمول شخص نے انفرادی طور پر یا لوگوں نے اجتماعی طور پر ان کی امداد بھی کر نی چاہئے لیکن یہ بات بھی ہر فرد اور ہر پارٹی نے اچھی طرح ذہن میں رکھنی چاہئے کہ امداد ہی اس مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ انتہائی خلوص سے کی جانے والی یہ امداد الٹے میانمار کی فوج حکومت اور وہاں کے بدھشٹ دہشت گردوں کے حوصلے بلندکر سکتی ہے وہاں بچے روہنگیا کو بھی نکال باہر کر نے کے لئے۔ مسئلہ یہ ہے کہ وہاں کی سرکار فوج اور بدھشٹ انتہا پسند انہیں اپنے شہری نہیں مانتے بلکہ غیر قانونی بنگا لی کہتے ہیں ۔اور ان کے متعلق محترمہ سوچی کا نظریہ بھی اس سے مختلف نہیں ہے انہوں نے 19 ستمبرکو قوم سے جو خطاب کیا وہ روہنگیا کے مسئلہ پر ہی تھا لیکن اس میں انہوں نے ایک بار بھی لفظ روہنگیا کا استعمال نہیں کیا ۔اور اس مرتبہ جس طرح کاتشدد ان کے ساتھ کیا گیا ایسا لگتا ہے کہ اس کا مقصد ان لوگوں کو میانمار سے نکال باہر کر بنگلہ دیش کی طرف دھکیلنا اوروہاں سے ان کی واپسی کو بھی ناممکن بنانا ہے اسی لئے ان کے گاؤں کے گاؤں پوری طرح جلا کر خاک کر دئے گئے ۔جو ممالک بھی اپنے یہاں پناہ گزیں روہنگیا کو ملک بدر کر نا چاہتے ہیں ایسا لگتا ہے کہ ان کا بھی مقصد انہیں میانمار واپس بھیجنے کی بجائے بنگلہ دیش کی طرف نقل مکانی پر مجبور کرنا ہے ۔

محترمہ سوچی نے اپنے مذکورہ خطاب میں یہ بھی کہا کہ ’ رخائن میں جو کچھ ہوا اس کا میانمار کو شدید احساس ہے ‘ لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ ’ ہم جاننا چاہیں گے کہ ایسا کیوں ہوا؟‘کیا کسی مملکت کا سربراہ اس قدر بے خبرہو سکتا ہے کہ اسے اپنے ملک کے حالات کا ہی علم نہ ہو اور وہ بھی ان حالات کا جنہوں نے پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہو؟ ناقابل اعتبار ! مطلب صاف ہے کہ جو کچھ وہ بول رہی ہیں جھوٹ ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’ ان لوگوں کے خلاف کارروئی کی جائے گی جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی اور حقوق انسا نی کی پامالی کی ‘لیکن جس لیڈر کو یہی معلوم نہ ہو کہ قانون اور حقوق انسانی کی یہ خلاف ورزی کیوں کر ہوئی اور جو حکومت پچھلے سال اسی طرح کے معاملات میں اقوام متحدہ کی تفتیشی ٹیم سے تعاون کر نے سے انکار کر چکی ہواور اپنی تفتیش میں اس طرح کے الزامات کو بے بنیاد قرار دے چکی ہو وہ اس بار اپنے طور پر غیر جانبداری سے کوئی تفتیش کر مجرموں کے خلاف کارروائی کر ے گی یہ خام خیالی ہے اور ویسے بھی میانمار میں سوچی کی حیثیت کسی کٹھ پتلی سے زیادہ نہیں ہے قانونی طور پر وہ اتنی با اختیار نہیں ہیں کہ فوج کو لگام لگا سکے، یہ تو بہت دور کی بات ہے ان کے پاس تو اتنی بھی اخلاقی اور سیاسی جرت نہیں ہے کہ وہ فوج پر تنقید ہی کر سکے ۔

میانمار کے آئین کے مطابق فوج کے اختیارات اتنے ہیں کہ وہ کسی بھی وقت میڈم کو ہٹا سکتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ جمہوریت کی بقا اور فروغ کی خاطر پندرہ سالوں تک نظر بندی کی زندگی گزارنے والی آنگ سان سوچی کو بھی اب جمہوریت اور جمہوری اقدار سے زیادہ اپنا اقتدار عزیز ہے اسی کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے اپنی پوری تقریر میں نہ صرف فوج کو کسی تنقید کا نشانہ نہیں بنایا بلکہ اس سے بھی صاف لا علمی کا اظہار کیا کہ روہنگیا نے اتنے کم وقت میں اتنے بڑے پیمانے پر میانمار کیوں چھوڑ دیا ۔اور شاید فوجی جرنیلوں کو خوش کر نے کے لئے ہی انہوں نے بڑی ڈھٹائی سے یہ بھی کہہ دیا کہ اس ضمن میں کسی بین الاقوامی جانچ پڑتال کا کوئی خوف نہیں ۔انہوں نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ’ ان کا ملک کسی بھی وقت بنگلہ دیش میں پناہ گزیں مسلمانوں کو واپس لینے کے لئے تیار ہے‘  لیکن اس کے لئے انہوں نے شناختی تصدیق کی شرط لگادی ۔ اب صاحب یہ تصدیق کیسے ہوگی ،کس طرح کی جائے گی اور اس کے لئے کیا دستاویز درکار ہوں گے یہ سب سے بڑا سول ہے،اور اس تصدیق میں کتنے روہنگیا کامیاب ہو سکیں گے یہ اس سے بھی بڑا سوال ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ میانمار میں روہنگیا کو شہریت حاصل نہیں سو ان کے پاس شہریت کے دستاویزات کی موجودگی کا سوال ہی نہیں ۔ ابھی تک میانمار اتھارٹیز انہیں عارضی شناختی کارڈ جاری کیا کرتی تھیں اب جبکہ ان کا کچھ نہیں بچا ،لوٹ لیا گیا یا جلا دیا گیا تو ایسے میں وہ شناختی کارڈ ان کے پاس ہوں گے اس کی بھی کوئی ضمانت نہیں ۔یعنی اس تصدیقی امتحان کوپاس کر نا روہنگیا پناہ گزینوں کے لئے تقریباً ناممکن ہے یعنی میڈم نے بہت چالاکی سے یہ کہہ دیا کہ وہ روہنگیا کو واپس نہیں لے سکتیں ۔

ایسے میں اگر دنیا اپنی توجہ صرف بنگلہ دیش میں آئے روہنگیاپناہ گزینوں کی امداد اور وہاں ان کی آبادکاری پر ہی مرکوز رکھے گی تو اس کا مطلب میانمار کی حکومت کاساتھ دینا اورروہنگیا کے خلاف اس کے گھنونے مقاصد کے حصول میں مدد کر نا ہوگا۔اس معاملہ میں پناہ گزینوں کی امداد تو اشد ضروری ہے لیکن اتنا ہی ضروی یہ بھی کہ دنیا میانمار سے متعلق اپنے تمام سیاسی معاشی اور اتحادی مفادات سے اوپر اٹھ کر اقوام متحدہ کے ذریعہ اور اپنی علاقائی یونینوں کے ذریعہ مختلف معاشی جنگی سیاسی اور سفارتی پابندیوں کے سہارے یا اور کسی طرح میانمار کی فوج اور حکومت کو مجبور کرے وہ تمام روہنگیا پناہ گزینوں کی آسان واپسی کو یقینی بنائے ،نہ صرف ان کی باز آبادکاری کرے بلکہ انہیں شہریت کے ساتھ ساتھ تمام بنیادی اور شہری حقوق کی ضمانت دے اور غیر جانبداری سے اسے برتے بھی ۔اور اگر میانمار ایسا نہیں کرتا تواقوام متحدہ اور عالمی طاقتوں کو چاہئے کہک وہ یہاں بھی وہی کرے جو سوڈان میں کیا گیا ۔جو کچھ میانمار میں ہو رہا ہے اس سے کہیں کم شدید الزامات کے تحت سوڈان کے جنوبی حصہ کو ریفرنڈم کے ذریعہ علٰحیدہ ملک بنواگیا۔

اگر میانمار روہنگیا پر ہونے والے ظلم و ستم سے باز نہیں آتا تو اس کے خلاف اسے ایک موثر متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ انسانی بحران ہے اور اس سے نمٹنا اقوام متحدہ کی ذمہ داری ہے اور بحران سے نمٹنے سے زیادہ ضروری ہے کہ بحران روکنے کے اقدامات کئے جائیں۔ لیکن اقوام متحدہ مسلمانوں کے تئیں متعصب عالمی طاقتوں کے سامنے بے بس ہے غالب گمان ہے کہ وہ یہاں اس طرح کا کوئی نہیں حل لائے گی تو کم از مسلم ممالک نے اپنے طور پر متحد ہو کرسفارتی اور معاشی بائیکاٹ کے ذریعہ اس کی شروعات کر نی چاہئے۔ یہ ہمارا مسئلہ ہے اور اس وقت تک حل نہیں ہو سکتا جب تک ہم ہی اس کے لئے پہل نہیں کریں گے۔

تبصرے بند ہیں۔