مھدی عاکف: قائد اور قیادت ساز

ابوالاعلی سید سبحانی

(2010ء میں تحریر کردہ ایک مضمون کا اقتباس، معمولی حذف واضافہ کے ساتھ…. مہدی عاکف مرحوم کی شخصیت پر ان شاء اللہ جلد ہی ایک تفصیلی مضمون قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا )

کہتے ہیں کہ اصل قائد وہ نہیں ہوتا جو دوسروں کو اپنے ساتھ لے کر چلے، دوسروں کو اپنا پیروکار بنائے، بلکہ اصل قائد وہ ہوتا ہے جو قیادت تیار کرے، یعنی قیادت کے ساتھ قیادت سازی بھی کرے۔

16؍ جنوری2010ء الاخوان المسلمون کی تاریخ کا ایک تاریخی دن تھا۔ اس روزاخوان کے مرشد عام مہدی عاکف نے ایک پریس کانفرنس طلب کی، مقصد معلوم تھا کہ آج تحریک اخوان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک مرشد عام کے ذریعہ اس کے جانشین دوسرے مرشد عام کا اعلان ہونے جارہا ہے،یعنی پہلی مرتبہ ایک سابق مرشد عام کے نام کا اعلان ہونے جارہا تھا، اور یہ اعلان وہ خود کرنے جارہا تھا۔پہلی مرتبہ کسی مرشد عام کی زبان سے کانوں نے یہ الفاظ سنے کہ

’’ آج میں تمہیں ایک بہت بڑی خوشخبری سنانے جارہا ہوں ، اللہ کی توفیق ونصرت سے عزیز من استاذ ڈاکٹر محمد بدیع سامی کا انتخاب آٹھویں مرشد عام کی حیثیت سے عمل میں آچکا ہے، محترم کا یہ انتخاب مجلس شوری کی مکمل تائید اور موافقت سے عمل میں آیا ہے، اللہ ان کی مدد کرے‘‘

یہ کہتے ہوئے انہوں نے اس بات کا بھی اعلان کیا کہ سب سے پہلے میں آپ سے بیعت کروں گا، اس کے بعد مجلس شوری اور مکتب ارشادکے لوگ بیعت کریں گے اور پھرعام بیعت ہوگی۔ اعلان سننا تھا کہ ہر چہار جانب سے اللہ اکبر وللہ الحمد کی صدائیں بلند ہونا شروع ہوگئیں ۔ اللہ اکبر وللہ الحمد۔اللہ اکبر وللہ الحمد۔۔۔

اخوان کے مرشد عام کا یہ قدم اس وقت پورے عالم اسلام میں چرچے کا موضوع ہے، اخوان میں ہوتا یہ ہے کہ ایک میقات چھ سال کی ہوتی ہے، اس کے بعد دوسری میقات شروع ہوجاتی ہے، لیکن مرشد عام اپنے عہدہ پر برقرار رہتا ہے، لیکن اس مرتبہ میقات ختم ہونے سے قبل ہی مہدی عاکف نے یہ اشارہ دے دیا تھا کہ آئندہ میقات کے لیے اخوان اپنا ایک نیا مرشد عام منتخب کریں گے، کچھ لوگوں کو تو اس کا یقین ہی نہیں ہورہا تھا، لیکن جن لوگوں کو بھی معلوم ہوا انہوں نے ان کے اس موقف کی مخالفت کی، اس کی مختلف وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ایک ایسے مرشد عام تھے جو اتفاق رائے سے منتخب ہوئے تھے، ان کے اندر سب کو ساتھ لے کر چلنے کی مہارت تھی، وہ تحریک میں مختلف افکار اور نقطہ ہائے نظر کو کشادہ ظرفی سے قبول کرنے کا ملکہ رکھتے تھے۔

ان کی کشادہ ظرفی اس وقت بالکل ظاہر ہوکر سامنے آگئی جب ان سے ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ نے اخوان سے استعفیٰ دے دیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ اخوان تو بھائی بھائی ہیں ، مجھے نہیں معلوم کہ میڈیا اور دوسرے ادارے میرے استعفیٰ کو لے کر کیوں اس قدر واویلا مچارہے ہیں ، جو افواہیں پھیلائی جارہی ہیں یہ سب افتراء ہیں ، جھوٹ ہیں ، یہ میرا اپنا نقطہ نظر ہے، اور اخوان میں اور بھی نقطہ نظر پائے جاتے ہیں ، پر سب ایک دوسرے کا اکرام اور ایک دوسرے کی عزت کرتے ہیں ۔

مہدی عاکف نے اپنی زندگی کی تقریبا 78 ؍بہاریں تحریک اخوان میں گزاری ہیں ، وہ مؤسس و مرشد سید الشہداء حسن البنا شہید کے ساتھ بھی رہے، اور تحریک کی سب سے پہلی کھیپ میں شامل جیالوں میں بھی اپنا نام درج کرایا، جیل گئے اور بیس سال بعد واپس آئے، وہیں سید قطب سے استفادہ کا موقع ملا اور خوب استفادہ کیا، تنظیم کے بارے میں بھی جانا اور سید قطب کے افکار سے بھی واقفیت حاصل کی،جب جیل سے باہر رہے، اخوان کی طلبہ تنظیم کی قیادت کی اور دوسری ذمہ داریاں بھی وقتا فوقتا انجام دیتے رہے، وہ ہمیشہ تنظیم اور انتظام سے وابستہ رہے ہیں ، تنظیم کے سلسلہ میں ان کے کچھ خاص موقف بھی ہیں ، وہ مرشد عام کو شوری کا پابند دیکھنا چاہتے ہیں ، انہوں نے ایک عرصے کے بعد پہلی مرتبہ شوری کو فعال بنایا، جبکہ شوری کا رول بڑی حد تک ختم ہوچکا تھا، پراسرار تنظیم اور جذباتیت پر مبنی شورہنگامے کے مخالف ہیں ، ان کا واضح موقف ہے کہ آزادی شریعت پر عمل کے بالمقابل زیادہ اہمیت رکھتی ہے، امید کی جارہی ہے کہ ان کا یہ قدم بھی ان کے کسی خاص تنظیمی موقف کی عملی شہادت ہے۔ البتہ اتنی بات تو ہر کسی کو حیران کیے ہوئے ہے کہ اس دور میں جب کہ یہ عہدوں کے لیے بظاہر لڑائی اور جنگ کا دور ہے، ایک عالمی اور حد درجہ با اثر تحریک کا مرشد عام خود اپنی تحریک کے لیے نئی قیادت تلاش کرتا ہے اور اپنی موجودگی میں یہ امانت اس کے حوالہ کرتا ہے، اور سب سے پہلے بیعت کرکے اپنا نام السابقون الاولون میں درج کراتا ہے، کہ کل وہ خود جس کا قائد تھا آج وہ اسی کی قیادت میں رہنے کو تیار۔

میرے خیال سے مہدی عاکف ایک بہترین قائد اور قیادت ساز ہیں، وہ اس فیصلہ کے ذریعہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ گزشتہ چھ برسوں میں ان کی جدوجہد اور اخوان کے لیے ان کی قیادت کتنی نتیجہ خیز ہوسکی ہے، اور یہی ایک قائد کی سب سے بڑی کامیابی ہوتی ہے کہ وہ اپنے بعد کیسی قیادت چھوڑ کر جاتا ہے، دوسرے الفاظ میں وہ قیادت سازی کے عمل میں کس قدر کامیاب ہوتا ہے۔

کہا جاتا ہے کہ مہدی عاکف کے اندر پچھلے تمام ہی مرشدین کی نمایاں صفات موجودہیں، ان کے اندر امام حسن البنا کا شباب اور ان کی جرأت ہے، تو حسن ہضیبی کی حکمت۔ عمر تلمسانی کی جیسی رواداری اور کھلاپن ہے، توحامد ابو النصر کے جیسا زہد اور دلکشی۔ مصطفی مشہور کی خودداری اور بڑائی، تو مامون ہضیبی کاجوش اور ولولہ۔ قصہ مختصر یہ کہ وہ ایک بے مثال شخصیت کے حامل ہیں ، یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی اخوان کے دلوں کی دھڑکن ہیں۔

تبصرے بند ہیں۔