ایک بھائی کی جدائی کا غم

 ڈاکٹر ایاز احمد اصلاحی

یہ فروری کا مہینہ ہے ۔میرے ایک برادر کریم صفدر سلطان اصلاحی اسی ماہ کی  18 تاریخ کو تقریبا ایک سال قبل  ایک کار حادثے میں شہید ہوکر ہم سے ہمیشہ کے لئے بچھڑ گئے۔

ڈا کٹر صفدر سلطان اصلاحی  مرحوم میرے بھائی، میرے دوست، میرے رفیق، میرے ہم قافلہ اور میرے لئے اس وسیع و عریض عالم آب و گل میں سب سے  قریب ترین لوگوں میں سے ایک  تھے۔  تقریبا 12 ماہ قبل میری اہلیہ مرحومہ کی  ناگہانی رحلت اور پھر اس کے چند ہفتوں بعد والدہ کی وفات اور اس کے چند ہی ماہ بعد اس ہمدم دیرینہ کو کھونے سے ایسا لگا میرے اوپر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہو۔۔

صفدر مرحوم مدرستہ الاصلاح میں میرے ہم درس تھے، یہی ہمارے ایک ایسے تعلق کی شروعات تھی جو آگے ہمارے اٹوٹ رشتے کی بنیاد بنا۔ ۔۔۔ اس کے بعد وقت گذرنے کے ساتھ یہ رشتہ گہرا ہی ہوتا رہا، الحمد للہ نہ کبھی اس میں کسی قسم کی کوئی سردمہری آئی اور نہ کبھی اسے کسی کی  نظر لگی۔  مادر علمی مدرستہ الاصلاح سے فراغت کے بعد ہم دونوں ملی و دینی کاموں میں مستقل رفیق و ہم سفر رہے، ہم دونوں ایک دوسرے سے اتنے قریب اور مربوط تھے کہ اعلی تعلیم کے حصول کے لئے دو الگ الگ شہروں میں رہنے اور دو الگ شہروں میں تدریسی خدمات ادا کرنے کے باوجود کسی دن بھی ہم ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوئے، اعلی تعلیم حاصل کرنے کے دوران اور اس کے بعد جب کہ وہ علی گڑھ مسلم  یونی ورسٹی میں استاذ تھے اور میں لکھنؤ   یونی ورسٹی میں، کبھی ایک دوسرے کو ایک دن کے لئے بھی نہیں بھول سکے، بلکہ زندگی بھر ہم دونوں سگے بھائیوں کی طرح  ہمیشہ رابطے میں رہے ، ہمیشہ ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک رہے اور ہمیشہ زندگی کے نشیب و فراز میں ایک دوسرے کو شامل رکھا۔۔۔  ایک حادثاتی موت کے سبب ان کی جدائی نے دل کو چھلنی کرکے رکھ دیا، یکے بعد دیگرے حادثات کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میری روح کو ایک بے آب و گیاہ تپتے ریگ زار میں تڑپنے کے لئے تنہا چھوڑ دیا گیا ہو۔۔۔اور تنہائی کا احساس اب بھی  زخمی کئے جا رہا ہے۔اس زمین پر اسی بھائی کی شکل میں میرے پاس ایک سہارا تھا جو اگر باقی رہتا تو بے شک وہ میرے غم کو سب سے زیادہ ہلکا کرتا، سب سے زیادہ وجہ تسلی بنتا اور سب سے زیادہ میرے درد و الم کو بانٹنے اور کم کرنے کی کوشش کرتا لیکن افسوس کہ وہ سہارا بھی چھن گیا۔

صفدر مرحوم کا دل بالکل آئینہ تھا، مکارم اخلاق ان کی ذات سے پوری طرح آشنا تھے، خیال خاطر احباب کیسے رکھا جاتا ہے لوگ ان سے سیکھتے تھے،  دین حق سے وفاداری، اسلام و اسلامیت سے جاں نثارانہ  رشتہ ، ملت کے لئے فکر مندی، تحریک اسلامی کے ساتھ وابستگی اور اس کے کاز کے لئے ہر طرح کی قربانی۔۔۔ یہی ان کی پہچان تھی، یہی ان کی  متاع حیات تھی اور یہی ہم دونوں بھائیوں میں سب سے بڑی قدر مشترک تھی، وہ بڑی کم عمری میں تحریک اسلامی سے وابستہ ہوگئے تھے،  وہ مودودی حق کیش کے مشن سے اس وقت باقاعدہ جڑ چکے تھے جب میں ابھی ان کے افکار اور مشن سے آگاہ ہو رہا تھا۔ طلبہ تنظیم  ایس آئی او اف انڈیا کی ہم دونوں نے ملکی سطح پر قیادت کی، وہ اس کے جنرل سکریٹری رہے اور میں اس کا سکریٹری، انہیں دنوں جب میں اس تنظیم کے ترجمان رفیق منزل کا ایڈیٹر تھا تو وہ میری ہر تحریر پڑھ کر فون پر یا ملاقاتوں کے وقت  یوں تاثر دیتے تھے جیسے یہ انہیں کی تحریریں ہوں اور میرے مضامین انہیں کے جذبات کی بازگشت ہوں۔۔۔ وہ جماعت کی مختلف ذمہ داریوں پر رہے، جماعت اسلامی ، علی گڈھ یونٹ کے برسوں امیر رہے،  ادارہ تحقیقات اسلامی کے سکریٹری رہے، جماعت کی نمائندگان کے بھی ممبر رہے، وہ بھی ایک انسان تھے،غلطیوں کا امکان تو ہر ایک کے ساتھ جڑا ہے لیکن جہاں تک مجھے علم ہے انہوں نے کہیں بھی اور کسی صورت میں بھی مداہنت یا سمجھوتے سے کام نہیں لیا اور نہ کبھی اصولوں سے سمجھوتہ کیا بلکہ ہر جگہ شاہین صفت مرد مومن کی طرح اپنا کردار نبھایا ۔

اگر کبھی میں جادہ پیما کارواں میں  سست پڑتا یا حالات سے مایوس ہوتا تو وہ مجھے دلاسہ دیتے اور صدیق صادق کی طرح سادہ، مگر دل کی گہرائی سے نکلنے والے الفاظ مجھے دوبارہ سرگرم رکھنے کے لئے مہمیز کا کام کرتے ، اسی طرح اگر کبھی میں خود انہیں کسی الجھن میں گرفتار اور کبیدہ خاطر پاتا تو میرے  کلمات ان کے لئے وجہ تسلی بن جاتے، حق سے انحراف کو ہم اپنی دوستی کی توہین سمجھتے اور خدا گواہ ہے ایک دوسرے کے دفاع کے وقت  بھی  ہم نے کبھی راہ حق نہیں چھوڑی اور نہ انصاف کے تقاضوں سے منھ موڑا۔۔۔ احباب واقف ہیں کہ اگر کبھی حسب ضرورت ہم نے ایک دوسرے کا ساتھ دیا یا ایک دوسرے کے قول و عمل کا دفاع کیا تو وہاں بھی صداقت شعاری کو اپنا شیوہ بنایا ، ایسا کبھی نہیں ہوا کہ دوستی کے نام پر ہم نے حق پرستی ترک کردی ہو۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ رشتہ اخوت اتنا مثالی تھا کہ لوگوں کو ہماری دوستی اور برادرانہ تعلق کو دیکھ کر اکثر رشک ہوتا تھا اور سیکھنے والوں نے اخلاص و محبت اور اسلامی اخوت پر مبنی اس رشتے سے بہت کچھ سیکھا بھی۔۔۔

ہمیں  کبھی کوئی چیز ایک دوسرے سے چھپا کر رکھنے کی ضرورت نہیں پڑی۔ ہم نے کبھی ایک دوسرے کی خواہش کو نظر انداز نہیں کیا، ایک بار کا واقعہ ہے، ہم دونوں حیدرآباد میں تھے، اور شہر کے کسی مقام کا قصد تھا، میں سادہ کرتے پائجامہ میں تھا اور وہ کمرے سے شیروانی پہنے باہر آئے، میں نے یہ دیکھ کر کہا میاں یہ نہیں چلے گا ، شیروانی اتاریے اور میری طرح نظر آئیے ورنہ میں جانے سے رہا، انہوں نے ایک لمحہ کی تاخیر کئے بغیر ایسا ہی کیا، اور انتہائی معمولی سا کرتا پہنے میرے ساتھ ایک صاحب حیثیت شخص سے ملنے گئے اور ایک مخصوص نششت میں شریک ہوئے۔۔۔۔یہ تھی ہمارے تعلق کی نوعیت۔۔  محترم ڈاکٹر ظفر الاسلام اصلاحی نے تعلق کی اسی نوعیت کو اجاگر کرنے کے لئے اپنے ایک مضمون میں  بجا طور سے لکھا ہے کہ ایاز اصلاحی یعنی میں، بھائی صفدر  مرحوم کے لئے اور وہ میرے لئے ” محرم راز” کی طرح تھے۔

لیکن اہم یہ نہیں ہے  کہ دو بھائیوں کے بیچ رشتہ کتنا گہرا تھا بلکہ اہم یہ ہے کہ اس رشتہ و تعلق کی اساس کیا شے تھی۔۔۔ اس مخصوص رشتے کے ساتھ گذارا ہوا ہماری زندگی کا ہر لمحہ شاہد ہے کہ ہماری سنجیدہ گفتگو کا موضوع، ہمارا خواب اور ہمارے جوش و جنوں کا اگر کوئی مشترک ہدف رہا ہے تو وہ اسلام اور صرف اسلام تھا، ہم نے مل کر اگر کوئی خواب دیکھا تو وہ بس غلبہ اسلام کا خواب  تھا، ہماری یکساں آرزو کی بنا جس عنصر پر تھی وہ بس اسلامی تہذیب و معاشرہ کے عروج کا عنصر تھا اور  ہماری مضبوط دوستی کا اگر کوئی مشترک دشمن تھا تو وہ ہر وہ قوت تھی جو اسلام دشمن تھی۔۔۔ اللہ کا شکر ہے ہم  دونوں تو مدرستہ الاصلاح کی ناپختہ عمر  میں ہی نہ صرف عروج اسلام  کا خواب دیکھنے لگے تھے بلکہ اپنے دل و دماغ میں اس کا منصوبہ بھی بنانے لگے تھے۔۔ ۔۔۔ ہم فارغ اوقات میں  بس اسی موضوع پر گفتگو کرتے تھے۔۔۔اور بڑے عزم سے عہد و پیمان لیتے ہوئے ایک دوسر ے سے کہتے تھے کہ کیوں نہ اس اسلام کی حقیقت ایک بار پھر ساری دنیا کے انسانوں پر عیاں کردی جائے جس کے پیرووں کے سامنے کبھی قدرت نے زمین کو سمٹنا اور بحر ظلمات کو مسخر ہونا سکھا دیا تھا۔۔۔۔ اور پھر بڑی معصومیت سے ہم  اپنے انداز میں  اس کی عملی تجویز پیش کرتےتھے ۔ انہیں میں سے ایک تجویز یہ تھی کہ کیوں نہ اس اسلامی کاز کی تکمیل کے مقصد سے  مالدیپ جیسی کسی چھوٹی جگہ جا کر پہلے سماجی و سیاسی میدان میں  اپنا وزن منوایا جائے اور پھر طاقت و حکومت حاصل ہوجانے کی صورت میں اسلامی دین و تہذیب کی برتری کا پوری دنیا کے سامنے عملی نمونہ پیش کیا جائے۔۔۔۔۔اب بھی ان لمحات کی یاد دل میں لطیف احساس جگاتی ہے، کہا جاتا ہے کہ بچوں کی آپسی گفتگو میں بھی مستقبل کی آہٹ ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ کاش اسلام کے  جس روشن  مستقبل کا خواب دو ننھے دوستوں نے دیکھا تھا آنے والے دنوں میں ایک حقیقت بن کر ظاہر ہو جائے۔

   آج صفدر صاحب اس جہان فانی میں  نہیں رہے، کل میں نہیں رہوں گا اور ہو سکتا ہے کسی روز آپ نہ رہیں لیکن اسلام اور جس حی و قیوم ہستی کا کا یہ دین ہے وہ ہے اور ہمیشہ رہے گا۔۔۔۔ اگر ہم اسلام کو سچائی کے ساتھ اپنی زندگی میں شامل کرلیں تو اس سے نہ صرف ہمیں حیات تازہ ملے گی بلکہ ہمارے ہر رشتہ ، ہر تعلق اور ہر دوستی و ہمدمی کی اساس مضبوط تر ہوتی چلی جائے گی اور ہر مسلم بستی میں اس رشتے کی روح ہمیشہ زندہ و تازہ رہے گی۔۔۔۔۔یہ رشتہ بھی کیا شے ہے۔۔۔۔یہ رشتہ اگر خدا سے جڑ جائے تو ابترو کمتر انسان بھی عظیم تر و قوی تر بن جاتا ہے اور اگر یہ رشتہ خدا کی خوشنودی کے لئے  انسانوں کے درمیان قائم ہو جائے تو وہ دنیا کی  سب سے قیمتی شے سے زیادہ قیمتی  اور ہر رشتے سے زیادہ مقدس و محترم بن جاتا ہے۔۔ ۔۔میں نے خود
صفدر صاحب کے ساتھ اپنی بے لوث دوستی و رشتہ اخوت اور ہر قسم کے حرص و ہوس سے مبرا تعلق سے یہی سیکھا ہے اور یہی حاصل کیا ہے، اور  میرا دل شکر الہی سے لبریز ہے کہ  اس نے مجھے ایک مخلص دوست کی شکل میں عظیم نعمت عطا کی۔۔۔

ان  اشارات سے آپ بڑی آسانی سے اندازہ کر سکتے ہیں کہ صفدر صاحب کی شخصیت کا سب سے اہم پہلو کیا تھا اور ان کا اچانک عالم بالاکی طرف کوچ کرجانا میرے لئے کتنا   بڑا صدمہ ہے۔۔۔ یقینا یہ میرے لئے  دوہرے غم کی طرح ہے۔۔۔ کسی نے صحیح کہا ہے کہ وقت زخموں پر مرہم نہ رکھے تو ہم جیسے کمزور انسان ان صدموں کو کبھی برداشت نہ کر پائیں۔

اللہ تعالی میرے مرحوم بھائی کی مغفرت فرمائے اور انہیں پوری طرح اپنی جوار رحمت میں رکھے۔ آمین

تبصرے بند ہیں۔