موجودہ دور میں امت کو ترجیحات کی ضرورت

محمد ابوذر

(جلگاؤں)

اگر ہم اپنی زندگی پر غور کریں اور مادی،معنوی،فکری،معاشی، معاشرتی اور سیاسی ہر پہلو سے اس پر نظر ڈالیں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ ہمارے یہاں ترجیحات کا توازن مکمل طور پر تہہ وبالا ہوچکاہے۔

    تقریبا تمام ہی مسلم سوسائیٹی میں ایک عجیب طرح کی افراط و تفریط ہے۔

 تفریح کو تعلیم پر ترجیح دی جاتی ہے، مقدم کو مؤخر کر دیاجاتاہے، چھوٹی چیز کو بڑھا کر پیش کیا جاتاہے، اور بڑی چیز کو چھوٹا کرکے دکھایا جاتا ہے، ایک بے حقیقت چیز کو پہاڑ بنادیا جاتاہے، اور ایک اہم ترین معاملہ کو بالکل نظرانداز کردیاجاتاہے، اختلافی مسائل کےلئے میدان گرم کیا جاتا ہے، اور متفقہ احکام ضائع ہورہے ہوتے ہیں، فرضوں کو چھوڑ دیاجاتاہے اور نوافل کی پابندی کی جارہی ہوتی ہے، معاشرہ میں ” شہرت اور ستاروں کا مقام” نامور علماء ادیبوں اور اہل دین و ِدانش کو نہیں، بلکہ اداکاروں، گلوکاروں اور کھلاڑیوں کو حاصل ہے، اگر ایک ایکٹر کی موت ہوجائے تو پوری دنیا میں تہلکہ مچ جاتاہے، مگر کوئی عالم، ادیب یا کوئی بڑا ماہرِ فن وفات پاجائے تو کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی.

 ترجیحات کے مسئلے میں یہ خرابی صرف عوام یا بےدین طبقے میں ہی نہیں آئی، بلکہ خود دین دار طبقے بھی طرح طرح کی بےاعتدالیوں کا شکار ہے۔ کیونکہ ان میں بھی معاملات کی درست فہمی اور دین کے صحیح علم کی کمی پائی جاتی ہے۔

صحیح علم وہ ہوتاہے جو آدمی کے سامنے راجح اور مرجوح کو واضح کردے۔ فاضل اور مفضول کے درمیان فرق کو نمایاں کردے۔اور اس کے ذریعے معلوم ہوسکے کہ صحیح کیا ہے اور فاسد کیاہے؟ مقبول کیاہے اور مردود کیاہے؟ وہ اسے بتا سکے کہ کونسی چیز سنت ہے اور کونسی چیز بدعت؟ اسی طرح وہ شریعت کے مطابق ہر چیز کی اصل قدروقیمت کی پہچان کرائے۔

   صحابہ کرام رضوان اللّٰہ علیہم اجمعين میں یہ شوق بہت زیادہ تھا کہ وہ اعمال میں اعلٰی اور ادنی کو پہچانیں۔ تاکہ وہ اس کے ذریعہ تقرب الی اللہ حاصل کریں، یہی وجہ ہےکہ بہت سی احادیث اور روایات میں یہ ذکر ملتا ہےکہ "”أفضلُ الأعمالِ. (سب سے افضل عمل کونسا ہے؟)  أيُّ الإسلامِ أفضل. ُ (سب سے افضل اسلام کونسا ہے؟) اور أيُّ الأعمالِ أحبُّ إلى اللهِ” (کونسا عمل اللّٰہ کو زیاده محبوب ہے؟) کا سوال کرتے تھے””۔

ذیل میں ترجیحات کی چند بڑی کوتاہیوں کی طرف اشارہ کیا جاتاہے، تاکہ ہم اس پر توجہ دے کر سدھار پیدا کرنے کی کوشش کریں۔

1۔ ہم نے ایسے فرائض کفایہ کو بڑی حدتک چھوڑ دیاہے، جن کا تعلق بحیثیت مجموعی پوری امت کے ساتھ ہے۔مثلا ً: سائینسی، صنعتی اور عسکری برتری جو امت کو اپنے اختیارات کا مالک بناتی ہے، اور اسے……صرف دعویٰ اور قول کی حدتک ہی نہیں بلکہ…….بلکہ حقیقی معنوں میں دنیا کی قیادت دلاتی ہے۔

2۔ ہم نے بعض ایسے امور کو بھی چھوڑ دیا جو فرض ِعین کے درجے میں ہیں، یا اگر چھوڑا نہیں تو کم از کم ان کو وہ مقام نہيں دیا جو ان کو دینا چاہئے تھا۔ جیسے: امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ، جسے قرآن نے اہل ِ ایمان کی صفات بیان کرت ہوئے نماز اور زکات پر مقدم ذکر کیا،. جس سے اس کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ اللّٰہ تعالی فرماتاہے:

(وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ ۚ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَيُؤْتُونَ الزَّكَاةَ سورہ توبہ: 71.

ترجمہ: مومن مرد وعورت آپس میں ایک دوسرے کے (مددگار ومعاون اور) دوست ہیں، وه بھلائیوں کا حکم دیتے ہیں اور برائیوں سے روکتے ہیں، نمازوں کو پابندی سے بجا ﻻتے ہیں زکوٰة ادا کرتے ہیں، .

3۔ بعض ارکان بعض دوسرے ہم وزن ارکان پر زیادہ اہميت دی جاتی ہے، مثلا نماز اور روزہ: لوگ رمضاں کے روزوں کا تو اہتمام کرلیتے ہیں، لیکن نماز سے غفلت برتی جاتی ہے۔خصوصا ہماری خواتین نماز میں غفلت کا شکار رہتی ہیں۔

4۔ بعض نوافل کا اتنا اہتمام کیا جاتاہے، جتنا فرائض و واجبات کا نہيں کیا جاتا،مثلا: ذکر و اذکار کا تو خوب اہتمام ہوتاہے مگر معاشرتی فرائض جیسے: والدین کے ساتھ حسن سلوک، رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، پڑوسی کے ساتھ احسان، کمزوروں پر رحم کرنا، یتیموں اور مسکینوں کا خیال رکھنا وغیرہ کی طرف بالکل توجہ نہيں ہوتی۔ بہت سے لوگ اوراد و وظائف کا زیادہ اہتمام کرتے ہیں اور ان فرائض کو بالکل ضروری نہيں سمجھتے۔ کوشش کریں کہ ہر چیز کو اس کے صحیح مقام پر رکھا جائے تاکہ ایک متوازن معاشرہ کا قیام وجود میں آسکے۔

یہ مصنف کی ذاتی رائے ہے۔
(اس ویب سائٹ کے مضامین کوعام کرنے میں ہمارا تعاون کیجیے۔)
Disclaimer: The opinions expressed within this article/piece are personal views of the author; and do not reflect the views of the Mazameen.com. The Mazameen.com does not assume any responsibility or liability for the same.)


تبصرے بند ہیں۔